اسلام میں خواتین کے حقوق اور این جی اوز
(Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
کائنات میں جب مذہب دین کی شکل اختیار کرتا
ہے تو وہ اپنے پیروکاروں کو مکمل شمولیت کی دعوت دیتا ہے۔ اس میں زندگی کے
تمام معاملات کے الجھاؤ سے سلجھاؤ تک کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔ اس میں حیات
انسانی کا ارتقاء غالب عنصر ہوتاہے۔ دین اسلام کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس
نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق و فرائض میں مساوات کا خاص خیال رکھا
ہے۔ عورت کو بیٹی بطور رحمت ، بیوی بطور راحت اور ماں بطور جنت کے منصب پر
فائز کرنے کا سہرہ صرف اور صرف اسلام کے سرجاتاہے۔ عورت کا جائیداد میں
مناسب حصہ ، اس پر عدم تشدد اور اس کے احترام کا درس دین اسلام کے علاوہ
شاید ہی کوئی مذہب دیتاہون۔ اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے سے قاصر آج کا
مسلمان عورتوں پر تیزاب گردی اور قتل جیسے سنگین اور ناقابل معافی جرائم
میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہے۔ اور ایسا معاشرہ جہاں دختران ملت کی عزت
کو تارتار کرنا باعث افتخار سمجھا جاتاہو اور جہاں حواء کی بیٹی بشکل
انسانی درندوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہووہاں مذہب اور اس کی تعلیمات پر
سوالیہ نشان ضرور آتاہے۔ مگر ان حالات میں مذہب کو موردالزام ٹھہرانا سراسر
زیادتی ہوتاہے۔ اصلاح اور راہ راست کی تبلیغ جو صرف اور صرف اسلام کا طرہ
امتیاز تھی آج اس کا بیڑا مغرب کی عیسائی تنظیموں نے اٹھا رکھاہے۔
میں نے اس وقت اس موضوع پر قلم اٹھایا جب میرے کالج میں ایک این جی اوز کے
زیراہتمام عورتوں پر ہراسمنٹ پر سیمنار ہوا۔ مجھے اس بات پر گہراصدمہ ہواکہ
وہ تعلیمات او ر اصلاحات جو مغرب نے اسلام کی نقالی کے بعد اپنی تہذیب میں
اپنائیں آج وقت کی ستم ظریفی دیکھیے وہی اسلام کے ابتدائی اسباق ہمیں
سکھائے جارہے ہیں۔ آج بھی اگر مسلمان اپنے دراحساس پہ دستک دیں اور اپنی
غیرت ایمانی کو جھنجھوڑیں تو آج بھی اسلام اپنی سربلندیوں کو چھوسکتاہے۔
میں این جی اوز کے کردار کی قطعی مخالف نہیں ہوں۔ لیکن مغرب اور فرہنگ کی
اسلام مخالف لابیوں نے اسلام کی حقیقی شبہہ کو مسخ کرنے کی کوششیں تیز کردی
ہیں۔ اور اسلامی مبلغین کا لبادہ اوڑھ کر ہماری صفوں میں گھس چکی ہیں۔
کمزور اور لڑکھڑاتی معیشت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری اور نیم سرکاری
اداروں میں ایسے سیمینار کا انعقاد کیاجارہاہے جہاں سے یہ تاثر بڑھتا جارہا
ہے کہ اس ملک کو اب صرف اور صرف این جی اوز ہی چلاسکتی ہیں۔
حیاء اور پردہ مشرق کی عورت کا زیور ہیں جبکہ مغرب ایک سیکس ٹوائے کے علاوہ
کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ہاں بوڑھے ماں باپ کی خدمت ہی جنت کے حصول کا ذریعہ ہے
جبکہ وہاں بوڑھے والدین کو ایک ناکارہ چیز سمجھ کر اولڈ ہاؤسز میں بھیج
دیاجاتاہے۔ ڈش اینٹینا ، کیبل ، انٹرنیٹ اور اب موبائل کی بدولت جس طرح
مغرب کی تہذیب ہر گھر میں سرایت کرچکی ہے جواں نسل اس سے اتنی متاثر ہوچکی
ہے کہ اب وہ اسلاف کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کیلئے تیار ہے۔ جو امر سب
سے زیادہ تشویش ناک ہے وہ نوجوان لڑکیوں کا اپنی پسند سے شادی کرنے کے لیے
گھر سے بھاگنا ، والدین کی عدم اطاعت اور نام نہاد آزادی ہے جسکے نتیجے میں
معاشرے میں آئے روز تیزاب گردی ،قتل اور خواتین پر تشدد کے واقعات منظر عام
پر آرہے ہیں۔ کم عمری میں شادی ،ونی کی رسم اور قرآن سے شادی خواتین کی
زندگی کے اور المیاتی پہلو ہیں ۔ مغر ب نے کبھی مختیار مائی کو خواتین کے
حقوق کا چیمپیئن بنا دیا تو کبھی ملالہ یوسف زئی پر ایوارڈز کی بارش کردی۔
اور تواور آسکر ایوارڈ کیلئے منتخب ہونے والی فلم کی مرکزی کردار بھی
پاکستانی بلکہ میرے قرب و جوار میں بسنے والی ایک خاتون ہی ہے۔
تہذیب کی اس کشمکش کے دور میں علماء حق کا کردار بہت ہی اہم ہے۔ ممبر رسول
پر بیٹھنے والے دین کے مبلغین کو مذہبی منافرت چھوڑ کر حقیقی اسلام کی
ترجمانی کرنی ہوگی۔ اپنے واعظ اور خطبات میں احکام الہٰی ، شریعت محمدی اور
خلفائے راشدین کی طرز زندگی کا درس دینا ہوگا۔ جو مقام عزت وقار اور رتبہ
اسلام نے عورت کو عطا کیاہے اس کی آگاہی عام آدمی کو بھی ہونی چاہیے۔ میں
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذمہ دار ان سے بھی گزارش کرنا چاہوں گی کہ وہ
ایسے مناظر کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔ جس میں خواتین پر ظلم و تشدد کا عنصر
ابھارنے کی ترغیب ملتی ہو۔ ایسے واقعات کی عکس بندی سے گریز کیاجائے۔ جو
نئی نسل کے کچے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کریں۔ اور آخر میں والدین سے
مخاطب ہوں کہ وہ اپنے اور بالخصوص بچیوں کی تربیت پر خصوصی دھیان دیں۔ ان
کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھیں اور ان کی انٹرنیٹ تک رسائی محض ایک
ضرورت کی حد تک رکھیں۔ اور آج کے سب سے خطرناک کھلونے موبائل کو بھی بطور
ضرورت استعمال کریں نہ کہ سہولت یا تفریح |
|