باغ میں سو طرح کے پودے ہوتے ہیں۔ ہر پودے
کا اپنا رنگ ڈھنگ' طور اور معنویت ہوتی ہے۔ ہر پودے کے پھول ناصرف ہیت الگ
سے رکھتے ہیں' ان کی خوش بو بھی دوسروں سے' الگ تر ہوتی ہے۔ مالی کے لیے'
کوئی پودا معنویت سے تہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح' باغ بھی ان سو طرح کے پودوں
کی وجہ سے' باغ کہلاتا ہے۔ یہ رنگا رنگی ہی' اس کے باغ ہونے کی دلیل ہے۔
انہیں بہرصورت' باغ کا حصہ ہی بنے رہنا ہوتا ہے۔
انسان بھی' ایک پودے کے مماثل ہے' جو انسانوں کے ہجوم میں زندگی کرتا ہے'
بالکل باغ کے پودوں کی طرح۔ اس باغ میں بھی مختلف رنگ' نسلوں اور مزاجوں کے
لوگ آباد ہیں۔ ہر رنگ' ہر نسل اور قوم کا شخص زندگی کے باغ کے حسن اور
معنویت کا سبب ہے۔ کسی ایک کی غیرفطری موت' اس کے حسن اور معنویت کو گہنا
کر رکھ دیتی ہے۔ جب یہ ایک صف میں کھڑے' الله کے حضور حاضری کا شرف حاصل
کرتےہیں تو مخلوق فلکی بھی' عش عش کر اٹھتی ہے۔ جب کسی ہوس یا برتری کے زعم
میں' اپنے سے' کسی کی گردن اڑاتے ہیں' تو ابلیس جشن مناتا ہے۔
یہ امر ہر کسی کے لیے' حیرت کا سبب ہو گا' کہ زبانیں جو انسان کی ہیں
اورانسان کے لیے ہیں' ایک دوسرے سے قریب ہونے سے' پرہیز نہیں رکھتیں۔ دشمن
قوموں کی زبانوں کے لفظوں کو' اپنے ذخیرہءالفاظ میں داخل ہونے سے' منع نہیں
کرتیں۔ وہ انہیں اپنے دامن میں اس طرح سے جگہ دیتی ہیں' جیسے وہ لفظ اس کے
قریبی رشتہ دار ہوں اور ان سے کسی سطح پر چھوٹ ممکن ہی نہ ہو۔ زبانیں کسی
مخصوص کی تابح فرمان نہیں ہوتیں۔ جو' جس نظریہ اور مسلک کا ہوتا ہے' اس کا
ساتھ دیتی ہیں۔ الله جانے' انسان تفریق و امتیاز سے' اٹھ کر' انسان کے دکھ
سکھ کا ساتھی کیوں نہیں بنتا۔ سیری اور سکھ اپنے لیے' جب کہ بھوک پیاس اور
دکھ دوسروں کے کھیسے میں ڈال کر' خوشی محسوس کرتا ہے۔ ان سے تو ایک درخت
اچھا ہے'جوخود دھوپ میں کھڑا ہوتا ہے اور جڑیں کاٹنے والوں کو بھی' سایہ
فراہم کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا۔
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلام حضور المعروف باباجی شکرالله کی باقیات میں
سے' پشتو زبان کے عظیم صوفی شاعر حضرت رحمان بابا صاحب کا دیوان ملا ہے. یہ
کاقی پرانا ہے۔ اس کے ابتدائی 28 صفحے پھٹے ہوئے ہیں۔ اسی طرح آخری صفحے
بھی موجود نہیں ہیں۔ دیوان اول ص 78 تک ہےاور یہاں کاتب کام نام فضل ودود
درج ہے۔ فضل ودود کا تعلق تہکال بالا' پشاور سے ہے۔ قیاسا کہا جا سکتا ہے
کہ دیوان کی جنم بھومی یعنی مقام اشاعت پشاور رہی ہو گی' تاہم اسے پکی بات
نہیں کہا جا سکتا۔ حیران کن بات یہ ہے' کہ دو چار نہیں' سیکڑوں عربی فارسی
کے الفاظ' جو اردو زبان میں رواج عام رکھتے ہیں' بڑی حسن و خوبی اور متن کی
پوری معنویت کے ساتھ' پشتو میں سما گیے ہیں' کہیں اجنبت کا احساس تک نہیں
ہوتا۔
دیوان میں بہت سی غزلوں کے قوافی' عربی فارسی کے ہیں اور یہ عصری اردو میں
رواج رکھتے ہیں۔ ص 29 پر موجود غزل کا مطلع یہ ہے:
یہ نظر د بےبصر ---- لکہ شام ھسے سحر
اس غزل کے قوافی یہ ہیں:
گوھر' زر' شر' برابر' بتر' بھتر' زبر' نظر' ضرر' ھنر' خبر زناور یعنی
جانور' روکر'اوتر' پیغمبر' محشر' سفر' بشر' عنبر' پسر' اثر' رھبر' شر' حجر'
شجر' جادوگر'مصور پرور' ثمر' سر' مادر' زیور' کمر' منبر' قمر قلندر' باور'
کافر' مرور' در' گذر' خر' افسر' میسر' مسخر' پدر' بتر' کشور' سکندر'
بحروبر' ...نماز... دیگر' بستر' چاکر' کوثر' منور' خطر' شر' دفتر' اختر'
بازیگر' شکر مقدر' سرور' اکثر
ایک دوسری غزل جس کے تمام قوافی عربی فارسی کے ہیں۔ اس غزل کا مقطع یہ ہے:
چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی
داد شعر دے رحمانہ کہ اعجاز
اس غزل کے قوافی ملاحظہ ہوں:
آواز- شہباز مطلع
غماز' داز' آغاز' باز' ساز' نماز' اعجاز
صفحہ 176 پر موجود کا مطلع ثانی ملاحظہ ہو:
و طالب و تہ وفا شی د مطلوب بےوفائی
اب اس کے قوافی ملاحظہ ہوں:
آشنائی- جدائی......... مطلع اول
وفاشی- بےوفائی۔۔۔۔۔۔۔۔مطلع ثانی
گدائی' دوستائی'
اگلے پانچ شعر پھٹے ہوئے ہیں۔
شیدائی' ملائی' رسوائی' بےنوائی' ریائی' فرمائی' ستائی' دانائی' بھائی'
کجائی' ھمتائی' عطائی' دلکشائی' رھائی' پیمائی' صحرائی' تنھائی' گرمائی'
تمنائی' پارسائی' آزمائی' کمائی' زیبائی' سودائی' خدائی' صفائی' سروپائی'
رعنائی' بالائی' دریائی' حلوائی
ص: 88 پر موجود غزل کے قوافی یہ ہیں:
راغب' غائب' تائب' مناسب' غالب' طالب' واجب' کاتب' قالب' نائب' عجائب'
مراتب
یہ محض باطور نمونہ چند غزلوں کے قوافی درج کیے ہیں ورنہ ان کی کئی غزلوں
کے قوافی عربی اورفارسی الفاظ پر مشتمل ہیں۔
حضرت رحمان بابا صاحب کے کئی ردیف عربی فارسی الفاظ ہیں اور یہ الفاظ اردو
میں مستعل ہیں۔ مثلا
صفحہ41 پر موجود ایک غزل کا ردیف اخلاص ہے جب کہ دوسری کا ردیف غرض ہے۔
صفحہ 42 پر ایک غزل کا ردیف واعظ ہے جب کہ دوسری کا ردیف شمع ہے۔
صفحہ 60 پر ایک غزل کا ردیف تورو زلفو....سیاہ زلف..... ہے۔ زلف کو زلفو کی
شکل دی گئی ہے۔
ص 90 پر موجود دو غزلوں کا ردیف نشت ہے
ص 91 پرموجود دو غزلوں کا ردیف الغیاث ہے
ص100 پر موجود ایک غزل کا ردیف عمر ہے
ص 116 پر موجود دو غزلوں کا ردیف بےمخلص ہے
اب ذرا باطور نمونہ' ان مصرعوں کو دیکھیں' ناصرف صاف اور واضح ہیں' بلکہ ہر
مصرعے میں کم از تین لفظ ایسے ہیں جو اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔
نہ صیاد بہ ترے خبر وہ نہ شہباز
کھ مکان ئے پہ آسمان دے غذا او شو
ھمیشہ د معصیت پہ اور کباب یم
لکہ خس وی یا زر
تن د درست زیروزبر شو
رحمن بابا کے ہاں صنعت تضاد کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ ' اردو میں
مستعمل ہیں۔ مثلا
سیاھی م واڑہ سفیدی شوہ
تن د درست زیروزبر شو
نہ مسلم وی نہ کافر
ھمیشہ رفت و آمد کہ
لکھ عذر چہ صاحب تہ غلام نہ ک
ملامت د خاص و عام
نور پیدا شو شوروشر
منت بار دھر سفید دھر سیاہ یئم
چہ د دین متاع بدل بہ پھ دنیاک
رحمان بابا' اپنے کلام صنعت تکرار لفظی کا خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔ اس
ذیل میں اردو میں رواج رکھتے الفاظ کو بھی بڑی حسن و خوبی سے استعمال میں
لاتے ہیں یا یہ الفاظ' زبان پر دسترس ہونے کے باعث استعمال میں آ گیے ہیں.
مثلا
د ھجران عمر د عمر پھ شمار نہ دے
دنیادار د دنیا کار کازہ د دین
ہم صوت الفاظ ' شعر میں شعریت کو جلا بخشتے ہیں۔ ان سے شعر میں نغمیت اور
چستی پیدا ہوتی ہے۔ رحمان بابا اس صنعت کا باکثرت استعمال کرتے ہیں۔ اس سے
ناصرف شعر کا مضمون روح کی گہرایوں میں اترتا چلا جاتا ہے' بلکہ جسم میں
تھرل سی پیدا کر دیتا ہے۔ بابا صاحب موصوف نے' اردو کے مستعمل الفاظ کو
تصرف میں لا کر اپنی جدت طرازی' زبان دانی اور انسانوں کی فکری سانجھوں کو
اجاگر کیا ہے۔ اس ضمن میں دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔
نہ ئے متل نہ مثال نہ ئے زوال شتہ
کہ مطلب د نور چا نورے مرتبہ دی
پہ کینہ بہ آیئنہ نہ کڑی تہ خاک
لفظ کے متعقات کا' ایک مخصوص سلیقے سے استعمال کرنا' ایک الگ سے فن کا درجہ
رکھتا ہے۔ بابا صاحب کو اس فن میں کمال حاصل ہے۔ متعلقہ لفظ نکھر جتا ہے۔
مفہوم الجھاؤ سے تہی ہو کر' فکر کے دھارے موڑ دیتا ہے۔ ان کے پاس ایک وسییع
ذخییرہءالفاظ ہے۔ اس حوالہ سے' وہ اردو کے مستعمل الفاظ کو بھی' تصرف میں
رکھتے ہوئے' انسان کے باہمی بھائی چارے کو واضح کرتے ہیں۔ چند ایک مثالیں
ملاحظہ ہوں:
بادشاھی د ھفت کشور
معشوقے ھمیشہ ناز پھ عاشق کاندی
پکار نہ دے مقتدی وی کہ امام
چہ تصویر کہ مصور
ستارہ بہ شمس قمر نہ شی ھرگز
پہ عیال د خپل پدر
ھم بادشاہ دے ھم سرور
نہ سنت د پیغمبر
رحمن بابا تلمیحات کے استعمال کی ذیل میں' اردو شعرا سےالگ تر رویہ اور
انداز اختیار نہیں کرتے۔ اسی طرح پشتو میں ان کے نام علیحدہ سے نہیں ہیں۔
انہوں نے اپنے کلام میں' بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں اور یہ اردو والوں
کے لیے' غیر مانوس نہیں ہیں۔ چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں:
کہ جنت دے کہ دوزخ دے کہ اعراف
د ابلیس و ریاضت تھ نظر او کڑہ
دغہ کار بھ پھ عصا کوے تر کوم
مرتبہ د سلیمان چہ چا لہ ورشی
چہ خاورے د فرھاد او د مجنون دی
ھغھ شیرین حوض کوثر
رحمن بابا کے بہت سے اشعار ضرب الامثال کے درجے پر فائز نظر آتے ہیں۔ ان
اشعار میں اردو کے بہت سے عمومی رواج رکھتے الفاظ موجود ہیں۔ مثلا
علمیت د بےعقلہ عالمانو -- لکھ گنج د کتابونو پہ خرہ بارش
پہ مثال د منافقو --- نہ مسلم وی نہ کافر
نہ ئے فھم فراست وی نہ ئے عقل --- خالی نقش لکھ عکس د معکوس
پہ تواب او پہ خدائے ---- نہ دلیل وی نہ نظر
نہ دے فرض د خدائے ادا کڑہ ---- نہ سنت د پیغمبر
نہ مئے حسن نہ جمال وی ---- غلہ وی خلق پہ زیور
پشتو اور اردو میں' فارسی کے بہت سے مشترک الفاظ موجود ہیں۔ رحمن بابا
فارسی مصددر کا بھی بلاتکلف استعمال کر جاتے ہیں اور یہ رویہ اردو والوں کے
ہاں بھی موجود رہا ہے۔ رحمن بابا کے ہاں مصدر رفتن کا استعمال ملاحظہ ہو:
چہ ئے خواتہ رفتن دے
مرکبات شاعری کی جاان ہوتے ہیں اور یہ زبان کو ثروت عطا کرتے ہیں۔ رحمان
بابا کے ہاں' پشتو مرکبات اپنی جگہ' اردو زبان میں مستعمل الفاظ کے بہت سے
مرکبات نظرآتے ہیں۔ ان مرکبات کے حوالہ سے' دونوں زبانوں کی لسانی قربت کا
باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
واؤ سے ترکیب پانے والے مرکبات
ھمیشہ رفت و آمد کہ
نور پیدا شو شور و شر
چہ ئے قیل و قال د یارہ سرہ نہ دی
د دنیا چارے پہ مثل خواب وخیال دے
مساوی د عاشقی پھ خاص وعام
دیگر مرکبات کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں۔
ارمانو بھ کوی زار زار بھ ژااڑی
عاقبت بھ ئے جدا جدا منزل شی
نہ ئے فھم فراست وی نہ ئے عقل
و رئح بہ نھ شی شب تار د تورو زلفو
دیارغم لکھ مزرے دا باندی راشی
کہ د خلقو و نظر تھ آدمے دے
غرض دا چہ عاقبت خانہ خراب یم
بندیوان د ھغہ سیب ذقن پہ چاہ یئم
منت بار دھر سفید دھر سیاہ یئم
منت بار' دراصل منت کش ...... منت کشیدن سے...... ہی کا روپ ہے۔
چہ پرے غم غلطہ د شپے پاسم
غم غلط کرنا' باقاعدہ اردو محاورہ ہے۔ اس مصرعے میں بھی 'اس کا باطور
محاورہ استعمال ہوا ہے۔
چہ پرے غم غلطہ د شپے پاسم
دین دنیا' اردو اور پنجابی میں عام استعمال کا مرکب ہے۔ بابا صاحب کے ہاں
اس کا استعمال' باسواد اور الگ سے رنگ لیے ہوئے ہے۔ ملاحظہ ہو
چہ د دین متاع بدل بہ پھ دنیاک
پنجاب میں بےمروتا' بےپرتیتا' بےنیتا' بےبنیادا باطور گالی استعمال ہوتے
ہیں۔ رحمان بابا صاحب کے ہاں بےبنیادہ اور بےبقا کچھ اسی طرح سے' استعمال
میں آئے ہیں۔ لہجہ میں سختی واضح طور پر موجود ہے۔
سر تا پایہ بےبنیادہ بےبقا شوم
ایک دعائیہ شعر ملاحظہ ہو۔ کیا والہانہ اور بےساختہ پن ہے۔
حق تعالی کہ ئے نصیب کھ ---- ھغھ شیرین حوض کوثر
بے' نہی کا سابقہ ہے اور اردو میں باکثرت استمال ہوتا ہے۔ رحمان بابا کے
ہاں بھی' یہ سابقہ استعمال ہوا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ یہ الفاظ اردو
کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔
لکھ تش صورتہ بےروحہ
بےبالین او بےبستر
کہ جہان و بےھنر و تھ فراخ دے
د بےدرد ھمدمی بہ د بےدردک
رحمان ھسے بیوقوف سوداگر نہ دے
لہ کم ذات بے دیانتھ بےنمازہ
د بےمثلہ بےمثالہ بےمکان دے
لکہ تش کدو بے مغزہ
مراد ئے بےدیار لہ درہ بل ہاب نہ دے
رحمان ھسے و خپل یار تہ بےحجت رے
مزید کچھ نہی کے سابقے ملاحظہ فرمائیں۔ الفاظ اور سابقے اردو زبان سے متعلق
بھی ہیں:
نا
پہ نابود باند ناحق د بود کمان ک
د نامرد د ھمدمی بہ د نامردک
تہ ناحق پہ کینہ کڑے کینہ ناک
کم
لہ کم ذات بے دیانتھ بےنمازہ
کم اندیشہ کہ بیدار دے بیدار نہ دے
ھر کم فھم کجائی
ھر کم بخت ئے کلہ مومی
بد
دعاگو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ یم
مزید دو سابقوں کا استعمال ملاحظہ ہو جو اردو میں بھی مستعمل ہیں۔
ھم
یؤ صورت دے ھم نشیب دے ھم فراز
ہم گفتار بہ ئے د خدائی پہ در قبول شی
نغمے کاندی ھم رقص کہ ھم خاندی
با
د رحمان پہ شعر ترکے د باکرام
اب چند لاحقے ملاحظہ ہوں' یہ اور ان سے متعلق الفاظ ' اردو کے ذخیرہءالفاظ
میں داخل ہیں۔
ناک
تہ ناحق پہ کینہ کڑے کینہ ناک
کینہ ناک' اردو میں مستعمل نہیں تاہم کینہ اور ناک' باطور لاحقہ مستعمل
ہیں۔
گار
صد رحمت شھ پھ روزگار د درویشانو
دار
دنیادار د دنیا کار کازہ د دین
خواہ
دعاگو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ یم
گو
دعاگو یہ د نیک خواہ او د بدخواہ یم
مند
بؤ لحد دے ھنرمند و لرہ تنگ
پذیر
ھر کلام چہ دلپذیر او دلپسند وی
یہ ہی نہیں' بابا صاحب کے ہاں پجابی ذائقہ بھی موجود۔ اردو میں پلید اور
پلیدی استعمال میں آتے ہیں۔ پنجابی میں پلید سے پلیت اور پلیدی سے پلیتی'
بولے لکھے جاتے ہیں۔ بابا صاحب نے ایک مصرعے میں' یہ دونوں الفاظ استعمال
کیے ہیں۔ اس کے باوجود اسلوب پنجابی نہیں ہو پایا۔
د دنیا پھ پلیتی م حان پلیت کڑو
اردو میں ہمیشہ' جب کہ پنجابی میں ہمیش مستعمل ہے۔ بابا صاحب نے کمال حسن و
خوبی سے اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔
دھوا غشے ھمیش حکمتہ پھ زور شی
لاہور میں بیبیاں پاک دامنہ کے محترم و معزز مزار ہیں۔ عوام میں پاک دامنہ
مرکب معروف ہے۔ رحمان بابا نے اس مرکب کا استعمال کیا ہے۔ اس سے پاکیزگی کی
فضا پیدا ہو گئی ہے۔ ملاحظہ ہو
پاکدامنہ پرھیزگارہ از تینھ
بابا صاحب کا ایک مقطع باطور تبرک ملاحظہ ہو۔
چہ منکر پرے اعتزاز کوے نہ شی --- داد شعر دے رحمانہ کہ اعجاز
اگربابا صاحب کے اس مقطعے کو پڑھ کر' اگر کوئی ان کی فکری پرواز اور
پرذائقہ زبان کی داد نہیں دیتا' تو اس سے بڑھ کر کوئی بدذوق نہ رہا ہو گا۔
اس ناچیز سے لسانی مطالعے کے بعد' میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں' کہ زبانیں
بڑی ملن سار ہوتی ہیں۔ اردو' پختو' پنجابی' عربی اور فارسی ایک دوسرے سے
یوں گلے ملتی ہیں' کہ کہیں اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ تلفظ' لہجہ'
استعمال' معنویت اور ہیت تک بدل لیتی ہیں اور لفظ' اختیاری زبان کے قدم
لیتے ہیں۔ آخر انسان کو کیا ہو گیا ہے' کہ یہ مادی' نظریاتی' مذہبی' معاشی'
سیاسی دائروں کا مکین ہو کر' ایک دوسرے سے' کوسوں کی دوری اختیار کر لیتا
ہے۔ رنگ' نسل اور علاقہ' اسے دور کیے جا رہا ہے۔ لسانی تعصب بھی اسے دور
کیے رکھتا ہے۔ زبان کے نام پر' دوریاں بڑھی ہیں' جب کہ ہر زبان دوریوں کو
ناپسند کرتی ہے.
انسان آخر کب' اپنی ہی زبان سے' ملن ساری کا سبق لے گا۔
۔۔۔۔آخر کب!!! |