وہ جو ایک شخص تھا محترم

تیس دسمبرکی شام تھی، دن بھر کی ضیاء پاشی کے بعد سورج کی روشنی مدھم پڑ چکی تھی ،موذن مغرب کی اذان کی تیاری میں تھے اورہم بھٹکل میں مولانا الیاس ندوی کی رہنمائی میں تیز تیز قدموں سے اس زیرتکمیل کمپس کا معائنہ کررہے تھے جس میں ’مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ‘ـکے نام نامی سے منسوب ایک نئی ’اسلامک ـ‘یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے کہ دہلی سے اس آفتاب کے غروب ہوجانے کی اطلاع ملی جس کو دنیا سید حامد کے نام سے پہچانتی ہے اور جس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہم جیسے چند ناتوان افرادنے اپنا ناطہ فروغِ تعلیم کی تحریک ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ‘ سے جوڑ لیا تھا۔وہ اس تحریک کے بانی اور اولین صدر تھے۔ اسی تحریک کے تحت ایک قافلہ جنوبی ہند کے دو ہفتہ کے دورے پر نکلا تھاکہ وہاں کے تعلیمی اداروں کا مشاہدہ کرے اور ان کے تجربات سے کچھ رہنمائی پائے۔

ملک کے ممتاز مدبر،ملت کے بے لوث مربی و غم گسار، علم کی شمع گھر گھر روشن کرنے کے لئے بیتاب اس محترم ہستی نے ۹۴؍ سال کی عمر میں ۳۰؍دسمبر کو شام چار بجے مجیدیہ اسپتال ، نئی دہلی میں اس دارفانی سے عالم جاودانی کی جانب کوچ کیا۔ انا اﷲ و انا الیہ راجعون۔لیکن یہ آفتاب ایسا نہ تھا کہ ڈوب جائے تو تاریکی چھاجائے:
سورج ہوں، زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

سید حامدکی حیثیت ایک شجر سایہ دار کی تھی، جس کی شاخوں پر ہزارہا پرندے بسیرا کرتے ہیں اورجس کے سائے میں کچھ دیررک کر تھکے ماندے مسافر دم لیتے ہیں اورپھر منزل کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی گفتگوجتنی دل پذیرتھی،اتنی ہی ان کی شخصیت دل نواز تھی۔ جس نے ان کو قریب سے دیکھا، گرویدہ ہو گیا۔ میری ان سے پہلی ملاقات غالباً سنہ ۱۹۸۲ء یا ۱۹۸۳ء میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور ان کے بعض اقدامات کی بدولت بڑا ہیجان بپا تھا۔ میں مسلم یونیورسٹی کا طالب علم رہ چکا تھا اور ان دنوں روزنامہ دعوت دہلی کے شعبہ ادارت سے وابستہ تھا ۔ مدیرمحترم محمد مسلم صاحب نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے مجھے علی گڑھ بھیجا تھا۔ دو دن تک مختلف لوگوں سے ملتا رہا۔ اکثریت کو وی سی کا مخالف پایا۔ مجھے بتایا گیا کہ حامد صاحب خود سر ہیں۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔کسی کی سنتے نہیں۔ صحافیوں سے سیدھے منھ بات نہیں کرتے۔ ان سے ملنا فضول بھی ہے۔ مگر میں ان سے ملا۔ ان کے سیکریٹری نے فرمایا تھا کہ مصروفیت بہت ہے، دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں ملے گا ۔ مگرحامد صاحب نے میرے ہر سوال کا جواب تفصیل سے دیا اوربغیر کسی ترشی کے خندہ پیشانی سے دیا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب میں اٹھا، تو وہ بھی اٹھ گئے۔ گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔بڑھ کر خود دروازہ کھولا۔ ان کے اس انداز پر میں مسحور بھی تھااور مسرور بھی تھا اور حیران بھی۔ جوکچھ سنا تھا، ان کو اس کے برعکس پایا۔ نہایت خلیق اور متواضع۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یونیورسٹی کا بہی خواہ ہونا چاہئے ۔تعلیمی ماحول کی اصلاح کے لئے جو بھی کرنا ہو، کرنا چاہئے۔نکالے گئے طلباء کو اگر غلطی کا احساس ہے تو اس کااعتراف ہونا چاہئے۔ایسی ضابطہ شکنی جس سے تعلیمی ماحول مکدر ہواور انتظامی امور میں سیاسی دخل اندازی منظور نہیں۔ بیشک ان کا موقف بے لچک تھا مگراصولی تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ تعلیمی ماحول کو ڈگر پر ڈالنے کے لئے انہوں نے جو سخت قدم اٹھائے ان سے یونیورسٹی کو فائدہ پہنچا۔ ان کے جانشین سیدہاشم علی نے بھی اس روش کو بدلا نہیں۔

میں نے اس ملاقات کا ذکر اس لئے کیا کہ نہ تویہ شخصی ملاقات تھی اور نہ یونیوسٹی کے ایک سابق طالب علم کی پذیرائی تھی بلکہ ایک ایسے اخبار کے نمائندے سے تھی جس میں ان کے مخالفین کے بیانات شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ یہ ان کے قلب کی وسعت اوراپنے موقف پر کلی اعتماد تھا کہ ایسے اخبار کے نمائندے کو ملاقات کا موقع دیا اورکوئی شکوہ زبان پر نہیں آیا۔ میں نے اپنی تفصیلی رپورٹ مدیر محترم کو پیش کی تو انہوں اس حصے کو تقریباً حذف کردیا جس میں ان کے اقدامات پراعتراضات کا ذکر تھے اورفرمایا یہ سب باتیں تو آگئی ہیں، البتہ وی سی کا موقف سامنے آنا چاہئے۔ یہی صحافتی دیانت کا تقاضا تھا۔

مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے حیثیت سے ان کی انتظامی صلاحیت کے جوہر جو کھلے توسبکدوش ہوتے ہی حکیم عبدالحمیدصاحب ، بانی ہمدرد یونیورسٹی نے ان کو اپنا داہنا ہاتھ بنا لیا۔دونوں میں خوب نبھی۔ جناب سید حامد حکیم صاحب کی ادارہ سازی اوردوراندیشی کے قدرشناس تھے اور حکیم صاحب سید حامد کی انتظامی فتوحات کے قائل تھے۔ چنانچہ حامدصاحب مرتے دم تک ہمدرد یونیورسٹی کی رہنمائی کرتے رہے۔
سید حامد، سرسید کے نظریہ تعلیم کے بڑے مداح تھے ۔اسلامیان ہند کی تعلیمی پستی اور جدید علوم سے ان کی بے رغبتی ان کو مضطرب رکھتی تھی۔ سرسید نے مسلمانان ہند کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے جو تحریک چلائی تھی، اس کے ثمرات دنیا بھر میں نظرآتے ہیں۔ دبئی میں سنہ۱۹۸۹ء میں ایک تقریر میں انہوں نے سرسید کی تعلیمی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا :’’سر سید کے قد وقامت کا کوئی دوسرا مسلمان ہم کو نظرنہیں آتا۔ ‘‘

حامدصاحب مدارس میں درس و تدریس کے قدیم طور طریقوں میں اصلاح کے طالب تھے۔چنانچہ مدرسہ اساتذہ کو جدید طریقوں سے روشناس کرانے کے لئے ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت کئی سال تک مختصرمدتی پروگرام چلاتے رہے ۔ ان میں تعلیم کے میدان کی ممتاز شخصیات کو بلاکر لیکچردلواتے۔ورکشاپ کراتے۔ اگرچہ اساتذہ کواس سے بڑا فائدہ پہنچا مگر افسوس کہ ارباب مدارس نے اس کی قدر نہ جانی۔ شریک اساتذہ کے قیام و طعام کے بندوبست کے علاوہ کچھ نذرانہ بطورجیب خرچ اور آمدورفت کے مصارف پیش کئے جاتے۔ افسوس کہ قریبی مقامات سے تشریف لانے والے بعض مدرسین اس مطالبہ پراڑ گئے کہ ان کو بھی مصارف آمد ورفت کی مد میں اتنی ہی رقم دی جائے جتنی دوردراز سے تشریف لانے شرکا کو دی جاتی ہے۔یہ ممکن نہ تھا۔ حامد صاحب کی دعوت پر میں بھی برابران تربیتی پروگراموں کے افتتاحی و اختتامی اجلاسوں میں شریک ہوتارہا۔ ان کی ترتیب و تنظیم میں پروفیسر نفیس احمد، سابق پروکٹر، اے ایم یو کی گرانقدرمعاونت حاصل رہی، مگر اس کو دوام حاصل نہ ہوسکا۔اور یہ مفید سلسلہ منقطع ہوگیا۔

سید حامد ملت کی زبوں حالی سے مضطرب رہتے ۔ چنانچہ انہوں نے تدبیر یہ نکالی کہ چندافراد بصورت کارواں بستی بستی جائیں اوروہاں جاکر لوگوں کے دلوں پر دستک دیں۔ اسی نظریہ کے تحت یوپی رابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ علاقائی، ریاستی اور قومی سطح پر کئی کارواں نکالے گئے۔ ان کے مفید نتائج بھی سامنے آئے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ مگراس مشکل کوآسان کرنے کا سہرارابطہ کمیٹی کے موجودہ صدربرادرم امان اﷲ خان کے سررہاجو حامد صاحب کی صدارت میں سیکریٹری تھے۔ راقم بھی ایسے کئی کاروانوں میں شریک رہا۔چنانچہ حامد صاحب کے ساتھ کئی کئی دن تک سفر کرنے،جلسوں میں سننے اورقریب سے دیکھنے برتنے کا خوب موقع ملا۔ تقریر کرتے تو گویا ان کے منھ سے پھول جھڑتے۔ فارسی اوراردو کے اشعار ان کو خوب یاد تھے ، جس سے تقریر میں جان پڑ جاتی۔ نجی مجلسوں میں بھی ان کی گفتگو فکرانگیزی کا مرقع ہوتی ۔اپنے علم وفضل اور بلند مرتبہ کے باوجودہم نے ان کو سراپا انکسار ہی پایا۔

ان کی تقریروں میں تعلیم و تربیت کے شانہ بشانہ اصلاح معاشرہ، حفظان صحت اور فرقہ ورانہ بھائی چارہ کے موضوعات شامل رہتے۔ وہ کہتے تھے ہمارے یہاں بیجا رسومات اور توہمات کا جو سیلاب آیا ہوا ہے، وہ بھی اخلاقی پستی اورمعاشی ابتری کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کی اصلاح صرف اعلا تعلیم و تربیت سے ہی ہوسکتی ہے۔فروغ تعلیم کے لئے وہ مناسب ماحول سازی پر توجہ دلاتے۔ بعض وجوہ سے مسلمان گنجان آبادیوں میں رہتے ہیں۔عموماًمکان چھوٹے اور مکین زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ گھروں میں مطالعہ کے لئے یکسوئی حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ چاہتے تھے مسلم بستیوں میں دارالمطالعہ قایم کئے جائیں۔ہرمحلہ میں کچھ بالغ نظر ایسے ہوں جو بچوں کو تعلیم پرمتوجہ کرتے رہیں۔ان کی خیر خبر لیتے رہیں اور یہ نگرانی رکھیں کہ کوئی بچہ، لڑکا ہو یا لڑکی تعلیم کی راہ سے بھٹک نہ جائے۔ اگر کسی مضمون میں طالب علم پچھڑ رہا ہے تو اس کی رہنمائی کی جائے۔

وہ حفظان صحت کے تقاضوں سے ہماری عمومی بے اعتنائی پر بھی کڑھتے تھے اور کھیل کودپرتوجہ کے ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ چٹخارے کے بجائے غذا کے صحت بخش ہونے پر توجہ دی جائے۔ وہ ہماری بستیوں میں صفائی ستھرائی سے بے توجہی پرافسوس کرتے۔ یوپی میں ایک کارواں صرف صحت کے موضوع پر نکالا اورمسلمانوں کو غیرت دلائی کہ ہمارے رسولؐ کا فرمان توہے کہ پاکیزگی نصف ایمان ہے اورہماراحال یہ کہ صفائی ستھرائی تک سے لاپرواہ ہیں، حالانکہ پاکیزگی کے لئے مزاج میں صفائی ستھرائی رچی بسی ہونی چاہئے۔

مگر وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہماری تمام کمزوریوں کی اصل وجہ تعلیم سے بے رغبتی ہے۔ تعلیم ہوگی تو صحت وغذا اورصفائی ستھرائی کے تقاضے سامنے آتے رہیں گے۔ معاشرتی اصلاح بھی ممکن ہوگی۔تعلیم ہی خوشحالی کی شاہ کلید ہے اور اسی سے اس نظریاتی یلغار کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جس سے ملت بے حال ہے۔ وہ جذباتیت سے بلند ہوکرصبرواستقامت اور دانائی سے اقدام کے قائل تھے ۔ یہی انہوں نے خودکردکھایا۔
ایک تقریر میں انہوں نے ان فتووں کا ذکر کیا جو سرسید کے خلاف جاری ہوئے اور اس بات پراظہار تاسف کیا کہ فتوے لانے کے لئے لوگ حجاز تک جاپہنچے۔ یہاں سرسید کے خلاف اس مہم کے تجزیہ کا موقع نہیں۔ البتہ ہمارا خیال یہ ہے مخالفت کا اصل محرک جدید تعلیم کی تبلیغ نہ تھا۔ طبقہ علماء کے بارے میں عموماً یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ جدید تعلیم کے مخالف ہیں۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہے مگر تاریخ میں اس گمان اوراس رجحان کے خلاف روشن مثالیں موجود ہیں۔مثلاً مسلم یونیورسٹی کے مقابلہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام ہواتو اس میں مولانا محمدعلی جوہر پیش پیش نظر نظر آتے ہیں۔ اس کا سنگ بنیاد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ سے رکھوایا گیا اور اس میں روزاول سے جدیدعلوم شامل نصاب ہیں۔ سنہ ۱۸۹۳ء میں کانپور کے جس جلسہ میں ندوۃ العلماء کے قیام کا فیصلہ ہوا، اس میں مولانا محمد علی مونگیری ،مولانا اشرف علی تھانوی، مولانامحمود حسن اور شبلی نعمانی کے علاوہ مولوی غلام حسنین کی قیادت میں شیعہ علماء کا ایک وفد اور مولانا احمدرضا خان فاضل بریلوی بھی شریک تھے۔ندوہ کے نصاب میں بھی کسی نہ کسی درجہ میں جدیدعلوم شامل ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اول مولانا قاسم نانوتوی ؒ کا یہ قول بھی موجود ہے:’ اس کے بعد طلبہ مدرسہ ھذا کو مدارس سرکاری میں جاکر علوم جدیدہ میں کمال حاصل کرنے کی سعی جاری رکھنی چاہئے۔‘ (روداد سنہ۱۲۹۰ھ)۔چنانچہ سرسید کی مخالفت اس لئے نہ تھی کہ وہ جدید علوم کے موئد تھے، بلکہ اس کی غالب وجوہات دو تھیں۔ اول علوم قرآنیہ میں ان کی بعض تشریحات جو اہل ایمان کے سواد اعظم سے متضاد تھیں، دوئم یونیورسٹی میں مشرقی کلچر کے بجائے مغربی طرز حیات کا رواج۔ ہرچند کہ سرسید کا مشرب یہ تھا:
غالب برا نہ مان گر واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

چنانچہ ملت نے اس مسلمہ اصول پر عمل کیا کہ علم اوردانائی جہاں سے ملے ،حاصل کی جائے۔ اگردور نبویؐ میں کفار سے علم حاصل کیا جاسکتا تھا تو سرسید کے قائم کردہ ادارے سے فرار کیوں؟

اپنی زندگی کے آخری عشرے میں سیدحامد نے تعلیم پر توجہ دلانے کے لئے’’ آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ ‘‘کے نام سے ایک تحریک شروع کی، جس کے وہ صدر رہے۔ اس تحریک نے کچھ کام سروے کا کیا۔ طلباء کو داخلوں اور روزگار کی اطلاعات بہم پہنچانے کے لئے انفارمیشن سینٹر بھی قائم کئے۔ سرسید کی’’ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کی سالانہ تعلیمی کانفرنس کی روایت کو زندہ کیا۔اس سلسلے کی چھٹی کانفرنس ۲۸؍فروری و یکم مارچ کو جودھپور میں ہوگی۔ لیکن ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ سید حامد کی طویل جدو جہدکے باوجودہماری تعلیمی تحریک کو ملت کی طرف سے ایسی پذیرائی ، ارباب حل وعقد سے ایسی حوصلہ افزائی اور اہل ثروت سے ایسا تعاون حاصل نہ ہوسکا جو وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مطلوب ہے۔ بس چندلوگ ہیں جو اس شمع کوروشن کئے ہوئے ہیں۔

آج جب ہم سید حامد کویہ خراج عقیدت پیش کررہے ہیں، اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ جدید علوم سے دیندار طبقے کو دوری کم ہورہی ہے۔ ایسا نظام تعلیم فروغ پارہا ہے جس میں قرآن اورسنت کے ساتھ جدید علوم بھی موثرانداز میں شامل نصاب ہیں۔مثال کے طور پرـ’ مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی اسلامک یونیورسٹی بھٹکل‘ اور’ مرکزثقافتہ السنہ ، کالی کٹ‘ وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔

۱۹؍دسمبرسے ۲؍جنوری تک جنوبی ریاستوں کے جن تعلیمی اداروں کا اس تحریک کے کارکنوں نے مشاہدہ کیا، ان میں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا اہتمام بھی ہے۔ فارغ علماء کے لئے دارالامور، میسور، بھی دیکھا جہاں فارغ علماء کو جدید علوم سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ اور قدیم کے ساتھ جدید علوم کا یہی شریک نصاب ہونا مقصود بھی ہے۔ اس سفر کی روداد پھر کبھی۔ اس وقت حامد صاحب کیے لئے بس یہ دعا:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180502 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.