بھوک اور پیاس کے مارے تھری

صحرائے تھر میں زندگی آج بھی ہے جہاں سورج جلتا ہے اور پیاس برستی ہے۔مگر یہاں ہمیشہ ایسا نہیں
رہتا ۔ یہاں بھی ابرکرم جوش مارتا ہے۔تھر میں بارش برسنے کے بعد سارے منظر تبدیل ہو جاتے ہیں۔

صحرا سبزغلاف اوڑھ لیتا ہے۔ہر سمت بہار آجاتی ہے اور زندگی مسکرانے لگتی ہے۔

یہاں کی ایک کہاوت ہے ’بارش ہو جائے تو زندگی گلوگلزار اور نہ برسے تو بھوک اور افلاس‘ یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ پاکستان جنت کی ارضی ہے۔یہاں ہر طرح کا موسم ہے درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری اور مثبت پچاس ڈگری ایک ہی وقت میں ہو تا ہے یہ بھی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔

لیکن صحرائے تھر ان تمام فطرتوں سے جدا یہ ایک الگ ہی دنیا ہے یہاں ہر سمت خاموشی گونج سنائی دیتی ہے۔

صحرائے تھر کی تاریخ چار لاکھ ساٹھ ہزار سالوں پر محیط ہے۔ یہ دنیا کا نوواں ایشیاء کا تیسرا اور پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ یہ اپنے پیارے ملک پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں واقعہ ہے۔

یہ ضلع تھرپارکر اور میرپور خاص ڈویژن میں شامل ہے اور صوبہ سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔اسکا مجموعی رقبہ بیس ہزار سات سو انٹھاون کلومیڑ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اسکی آبادی دس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔صحراے تھر قدرتی معادنیات سے مالا مال ہے۔یہاں دنیا کی دوسری بڑی کوئیلے کی کان موجود ہے۔ اسکے استعمال سے بجلی کی نہ صرف ملکی ضرورت پوری ہوگی بلکہ بروزگاری کی لعنت بھی ختم ہو گی اور آج ایک عام آدمی جو چند پیسوں کی خاطراپنے ضمیر کو فروخت اس لیے کر دیتا ہے کہ دو وقت کی روٹی مل جائے گی یہ سب کچھ ختم ہو سکتا ہے۔

آج بجلی سے نہ صرف روزگار فراہم کرتی ہے بلکہ اسے صنعتوں کے پہیے گھومتے ہیں جسے انسانوں کے مقدر بھی تبدیل ہو جا تے ہیں۔ مگر ہماری حکومت ان کوئیلے کے کانوں کو استعمال میں لانے کے بجائے تاخیری ہربے استعمال کر رہی ہے۔

تھرپارکر کراچی سے صرف تین سو بہترکلو میٹر کی دوری پر واقعہ ہے مگر پکی سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے اسکی مسافت ہزاروں میل دور کی لگتی ہے۔تھر پارکر کا صدر مقام مٹھی ہے۔ اسکے چار تالقہ ہیں ۔

ڈیپلو ۔ چھاچرو۔نگرپارکر اور مٹھی۔ یہی وہ چند علاقے ہیں جہاں شہری زندگی کے اثرات نظر آتے ہیں۔

باقی ہر سمت ریت ہی ریت نظر آتی ہے۔اس ریت کے سمندر میں کسی کسی جگہ جزیرہ کی طرح کچھ گھاس پھوس کے بنے ہوئے مکانات نظر آجاتے ہیں۔

تھر کا اسی فیصد علاقہ ریگستان ہے جہاں ہر وقت آگ برستی ہے اور یہاں کی چاؤں بھی جلتی ہے۔یہاں کے معصوم بچے جوان ہونے سے قبل ہی اپنوں چہروں پے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ ہنستے مسکراتے سفید چہروں کو دھوپ جلا کر سیاہ کر دیتی ہے۔بل آخر دھوپ کی شدت کومل چہروں کو کمہا دیتی ہے اور چہرے جھلسے جھلسے سے لگتے ہیں۔

تھر کی زمین بارش کو ترستی ہے۔ یہاں سالانہ بارش کی اوسط صرف اسی ملی میٹر ہے اگر ہر سال ہو ۔

پانی۔بجلی۔پکے گھر اور ذرائع نقل و حمل انسانی تمدن کی پہچان ہے لیکن تھریوں کے لیے یہ سب ایک خواب ہیں اکثر تھریوں کی زندگی یہ سب چیزیں دیکھے بغیر ہی گزرجاتی ہے۔

پانی انسانی زندگی کے لیے آب حیات ہے۔لوگ شہروں میں دولت جمع کرتے ہیں اور تھری اپنی زندگی کی بقا ء کے لیے پانی جمع کرتے ہیں۔ انہیں دولت سے زیادہ پانی عزیز ہے۔

انکی زندگی پانی کے ذخیروں اور انکی تلاش کے گرد گھومتی ہے۔جہاں پانی نظر آجائے وہیں آباد ہو جاتے ہیں۔تھر میں اکثر چار پانچ سال تک بارش نہیں ہوتی ہے۔یہاں پانی ہر ممکن ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے عام طور سے پانی کوؤں سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔

تھری پانی کے حصول پر کبھی نہیں جھگڑتے ہیں انکے بڑوں کا کہنا ہے پانی سب کے لیے ہے اور آج بھی اسی اصول پر کارفرما ہیں ۔تھری پانی آپس میں برابر برابر تقسیم کرتے ہیں۔ زندہ رہنے کا حق سبھوں کو ہے پانی کی وجہ کر یہ موت کا رقص نہیں دیکھ سکتے ہیں۔

یہاں کی عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی نظز آتی ہیں پانی لانے کے لیے روزآنہ کئی میل کا سفر طے کرتی ہیں۔سروں پر بھاری مشکیزے اٹھاتی نہیں تھکتی ہیں۔یہاں کی جفاکش عورتیں صرف مردوں کا ہی نہیں بلکہ جانورں کا بھی بوجھ بانٹ لیتی ہیں۔

تھر کے آسمانوں میں مہینوں بادل نظر نہیں آتے ہیں ایسے میں کووں کی گہرائی بڑہنے لگتی ہے اور پھر وہ منظر بڑا ہی خوفناک ہوتا ہے جب خالی ڈول واپس آتے ہیں ہر کوئی ایک دوسرے کودیکھتا ہے اور کہتا ہے شائید تھوڑی دیر بعد پانی آجائے گا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہو تا ہے۔

اٹو کی جھاڑیاں سر اٹھانے لگتی ہیں اور یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے بارش ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے اور ابھی انتظار کی گھڑی باقی ہے۔سانپ اور دیگر ہشرات انہی جھاڑیوں میں پناہ لیتے ہیں۔

پھر قحط کے محیب سائے ہر سمت پھیلنے لگتے ہیں اور انکی ہولناکی کے منظر ہر طرف نظر آنے لگتے ہیں۔
تھری پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں دھوپ اور پیاس انکو دور دراز علاقوں میں لیے جاتی ہے۔

جہاں بھی پانی کے آسار نظر آتے ہیں اسی جگہ پڑاؤ ڈال دیا جاتا ہے پھر تھری کھارا اور بدبودار پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اسکی وجہ کر انکے جسم کے ہر حصے متاثر ہو تے ہیں خاص طور سے دانت ، آنکیں اور بال معصوم بچے پیٹ کی بیماریوں میں مبطلاع ہو جاتے ہیں۔انکی زندگیوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بھی زندگیاں بھی خطرے میں پڑجاتی ہیں۔ایک ہی گھاٹ سے انسان اور جانور کدلے پانی پینے پر مجبور ہو جا تے ہیں اکثر اوقات جانورں کی غلاظت بھی اسی پانی میں نظروں کے سامنے شامل ہو رہی ہوتی ہے۔

مگر مجبور تھریوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی پانی کو پییں نہیں تو موت انکے انتظار میں کھڑی ہے۔

قحط کے باوجود صحرا مکمل طور سے خالی نہیں ہوتا ہے۔بس انکو ایک ہی امید اور انتظار رہتا ہے شائید کل کی صبح آسمانوں پر بادل نظر آجائیں اور بارش ہوجائے ہمارے اجڑے گھر پھر سے آباد ہو جائیں ۔

اگر آسمان پر بادل کا چھوٹاسا ٹکرا بھی نظر آجائے تو تھریوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے مرجھائے چہرے کھل اٹھتے ہیں بوڑھے اور لاغر جسموں میں حرارت آجاتی ہے۔ایسے میں تمام لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک تہوار منایا جاتا ہے اور اسکو ’پرب‘ کے نام سے جانا جا تا ہے۔

اس موقعہ پر گاؤں کا سربراہ ایک دعوت کا اہتمام کر تا ہے جس میں باجرے،اصلی گھی اور گڑکی بنی ہوئی ایک مخصوص ڈیش تیار کی جاتی ہے اور تمام لوگ اسکو کھاتے ہیں اور ایسے میں جزبات کہاں قابو میں رہتے ہیں تھری موسیقی اور رقص کا اہتمام کرتے ہیں ۔ رقص عام طور سے دس سے بارہ سال کے لڑکے پیش کرتے ہیں۔گاوًں کے لوگ اس موقعہ پر اپنے اوپر بیتنے والے غیر معمولی واقعات سناتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کس طرح مشکل کی اس گھڑی سے نکلے اپنے اس تجربہ سے دوسروں کو فائیدہ پہچاتے ہیں۔
ان واقعات کی روشنی میں ایک ماہر پیشنگوئی کرتا ہے کہ بارش کب ہو گی یا اسکے ہونے کی کب تک امید ہے؟

تھری امید لگا لیتے ہیں اور اس امید سے انکے چہرے کھل اٹھتے ہیں لڑکیاں اور لڑکے خوشیاں مناتے ہیں
بڑے بوڑھے ہاتھوں میں ہل اٹھالیتے ہیں اور زمین کا سینہ چیرکر اسکو کھنگال دیتے ہیں۔ تھر میں عام طور سے اونٹ اور گدھے ہل کھینچتے ہیں جبکہ نگر پارکر میں بیلوں سے بھی کام لیا جاتا ہے۔

صرف ایک امید تھریوں اسے اتنی مشقت کر والیتی ہے اور وہ بارش کی آس لگائے شام کو صبح ہونے کا اور صبح کو شام ہونے کا انتظار کر تے ہیں ہر ایک کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھتی ہے کہ بادل آئے کہ نہیں۔
ہر طرف خوشی نظر آنے لگتی ہے جیسے ہی بارش کے چند چھیٹے پڑتے ہیں پوری فضاء مہک اٹھتی ہے۔تھری کی ایک کہاوت ہے جب تھری آسمانوں پر بجلی چمکتے دیکھتے ہیں وہ رسیاں توڑ کر بھی تھر کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔اپنے اوپر ہونے والی تمام مصیبتں بھول جاتے ہیں اور ایک نئی امید کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔

اگر بارش کا پہلا قطرہ کمہار کے گھر ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے اس موسم برسات میں بارش کم ہو گی کیوں کہ یہ پانی خرچ کر کے برتن بناتا ہے۔ اگر بارش کا پہلا قطرہ بنیئے کہ گھر ہو تو یہ سمجھا جا تا ہے ضرورت کے مطابق اناج پیدا ہو گا اور اگر پہلی بارش ماشکی کے گھر ہو تو یہ علامت سمجھی جاتی ہے کہ خوب بارش ہو گی کیوں کہ ماشکی ہر ایک کو پانی دیتا ہے۔ایسے میں کچھ لوگ زندگی میں یہ پہلی بارش دیکھتے ہیں اور اسکا ذکر آنے والی نسلوں سے کر تے ہیں۔صحرا کے رفیق اونٹ پر بھی عجب خمار آجاتا ہے اور تیزی اتنی کے میلوں کل فاصلہ گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے۔انسان تو انسان جانورں کے بھی چہرے کھل اٹھتے ہیں ۔ذہن جاگ اٹھتے ہیں اور تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ عورتیں کشیدہ کاری کو ایک نیا رنگ دیتی ہیں اور نیے زاویے دیتی ہیں سوچوں میں ایک نیا انقلاب آجاتا ہے پانی لانے کی فکر سے آزاد کیوں کہ پانی اب گھر کے پاس ہی دستیاب ہے۔ایک عجب سی اطمینان کی کیفیت ہوتی ہے۔ایسے میں سیاح بھی تھر کا رخ کرتے ہیں۔تھر میں دیکھنے کے لیے قابل مشہور مندر گوری کا جن ہے اور نگرپارکر میں تاریخی مسجد جسکو گجرات کے سلطان محمود بیگرانے بنوایا تھا ۔تھر میں کئی قلعے موجود ہیں جن میں مشہورعمر کوٹ اور نوکوٹ کے ہیں۔ مگر سب سے مشہور بھالوا میں ماروی کا کنواں جہاں کی لوک داستان آج بھی زندہ ہے ۔ عمر کوٹ وہی شہر ہے جہاں مغل بادشاہ جلال ادین اکبر پیدا ہوا تھا۔ بارش کے بعد ہر طرف دلکشی پھیل جاتی ہے انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندے بھی کھچے چلے آتے ہیں اور صحرا میں ایک نیئی روح پھونک دیتے ہیں۔

مالا ہاری تھر کا ایک پرندہ ہے جسے یہاں کے لوگ اسکو ہما سمجھتے ہیں۔ تھریوں کا ایک شرکیہ عقیدہ ہے اگر یہ کسی کے داہنی طرف سے گزر جائے تو اسکا کام آسان ہو جاتاہے اور یہ بائیں طرف سے گزر جائے تو کام میں روکاوٹ آجاتی ہے۔ مور کا رقص یہ بھی عجب منظر پیش کرتا ہے۔پوری فضاء کو مسرورکن بنا دیتا ہے۔ رقص ختم ہونے کے بعد مور اپنا معاوضہ لیتے ہیں انسانوں کے اتنے قریب آجاتے ہیں پھر تھری اپنے ہاتھوں سے انکو اناج کھلاتے ہیں۔ بارش کے بعد بشمار جڑی بوٹیاں ہر طرف نظر آنے لگتی ہیں جو طبیب اور دواساز کمپنیاں یہاں آکر لے جاتی ہیں۔تھر کی مشہور گھاس کھپ کہلاتی ہے اور تھر کے مخصوص
گلاب کو اکھح کہتے ہیں جسکا لیس دار دودھ اور اسکے پتے مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔

مگر یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب بارش ہو مگر آج تین سالوں سے بادلوں نے تھر کے صحرا کا رخ نہیں کیا ہے ہر طرف دھوپ آگ برسارہی ہے لوگ گرمی سے بے حال ہیں مال مویشی تو الگ بات لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔صرف سو دنوں میں تقریباً تین سو بچے موت کی آغوش میں جاچکے ہیں۔

حکومت کے گودام پچاس ہزار سے زائیدگندم کی بوریاں موجود ہیں مگر ان غریب تھریوں کے لیے نہیں انکو کیڑے کھارہے ہیں یا پھر سیاستدانوں اور سرکاری افسر وں کے مویشی کھارہے ہیں۔

موت کی دیوی کا رقص جاری ہے ہر روز کسی نہ کسی معصوم کی جان جارہی ہے۔ کسی بھی ماں کی چیخ نکلتی ہے تمام مائیں یہ سمجھتی ہیں شائید اسکے لخت جگر کی باری آگئی ہے۔جمہوری حکومت نے یہ ثبوت دیا ہے کہ اسکی نظر میں انسانوں سے ذیادہ جانورں کی اہمیت ہے۔

تھر میں چند مور کے مرنے پر وفاقی حکومت نے ایکشن لیے لیا مگر انسانوں کے مرنے پر خاموشی ۔صرف فوٹو سیشن ہو تے ہیں اور تھریوں سے صرف اظہار ہمدردی کی جاتی ہے اور اگر مددکر بھی دی جائے تو اسکی مثال اونٹ کے منہ میں زیرہ۔گندم کی چند بوریوں کو سیکڑوں لوگوں میں تقسیم پھر لازمی امر ہے بھوک سے مارے تھری اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر ان بوریوں کے حصول کے لیے جھپٹ پڑتے ہیں اور پھر یہ منظر دیکھ کر ہمارے سیاسی لیڈر نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ میڈیا والے بار بار اس منظر کو دیکھاتے ہیں اور تھریوں کی تزلیل کر تے ہیں۔

کراچی میں اٹھارہ اکتوبر کے جلسے میں عربوں روپے خرچ کر دیے مگر تھریوں کی مدد نہ کی دوسری طرف وزیراعلی سندھ کے لیے نیا ہلی کاپٹر خریدا جارہا ہے دو عرب رپوں سے اور تھری تھک چکے ہیں اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھا کر اور ہماری جمہوری حکومت یہ بیان دیتی ہے کہ تھر میں لوگ بھوک سے نہیں غربت سے مر رہے ہیں۔اب انہیں کون سمجھائے غربت ہی بھوک اور دوسرے جرائم کی بنیاد ہے۔

حکومت نے ہسپتال بنائے مگر ڈاکٹر اور ادویات نہیں ہیں اور جو ادویات مل رہی ہیں ان میں سے اکثر کی معیاد ختم ہو چکی ہے بچارے انپڑھ تھریوں کو اسکی خبر تک نہیں ہے۔پانی صاف کرنے کا پلانٹ ہے مگر ایک عرصہ سے ناکارہ ۔ حکومت کے افسران دفتروں میں آتے ہی نہیں اور وزیراعلی فرماتے ہیں سب ٹھیک ہے نہ صرف یہ وزیر داخلہ فرماتے ہیں کیا دوسرے جگہ بچے نہیں مر رہے ہیں آخر میڈیا والے تھر کی خبر کیوں لگاتے ہیں؟

کیا تھری صرف ووٹ دینے اور مرنے کے لیے رہ گئے ہیں؟
Muhammad Amanat Ullah
About the Author: Muhammad Amanat Ullah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.