تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی حکومت تعاون کرے
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
ملک میں مالی اعتبارسے تعلیمی
ادارے تین طرح کے ہیں پہلا درجہ ان تعلیمی اداروں کا ہے جو بھاری فیسیں ،فنڈز
وصول کرتے ہیں ان کی ماہانہ فیس ہزاروں میں ہے ان میں بعض ادارے تو ایسے
ہیں جو اربوں روپے والدین سے سالانہ فنڈ کے نام لیتے ہیں کتب ،فیسوں ودیگر
ذرائع آمدن اس سے الگ ہیں دوسرا درجہ ان تعلیمی اداروں کا ہے جو درمیانی
آمدن کے حامل افراد کے لے موضوں ہے انکی فیسیں درجہ اول کے تعلیمی اداروں
سے کم ضرور ہیں مگر ان کی آمدن بھی انتہائی مناسب ہے کیونکہ ان میں سے ہر
ادارہ بھی سالانہ فنڈکروڑوں میں روپے میں جمع کرتا ہے جبکہ تیسرا درجہ ان
تعلیمی اداروں کا ہے جو غریب علاقوں میں غریبوں کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ
کرنے میں مصروف عمل ہیں ان میں سے ہر ایک کی سالانہ آمدن انتہائی کم ایسے
اداروں سے منسلک افراد اپنی گھریلو زندگی بڑی ہی مشکل سے گزار رہے ہیں یہ
ادارے غریبوں میں تعلیم عام کرنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کر رہے ہیں
لیکن ایسے اداروں کے منتظمین ،اساتذہ اور دیگر عملہ کے گھریلو حالات مالی
اعتبار سے تسلی بخش نہیں ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر تیسرے درجے کے
تعلیمی ادارے بند ہو جائیں تو غریب آدمی کے بچے معیاری تعلیم سے محروم ہو
جائیں گے کیونکہ سرکاری اداروں میں اتنی گنجائش نہیں کہ تھرڈ کلاس کے تمام
لوگوں کے بچوں کو تعلیم دے سکیں پاکستان میں غربت زیادہ ہے جس کے باعث کثیر
تعداد لوگوں کے بچے انہی تیسرے درجے کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے
ہیں ۔
سانحہ پشاور کے بعد تعلیمی اداروں کو ابھی تک نہیں کھولنے دیا گیا مزید
تعطیلات کی خبر بھی باز گشت کر رہی ہے حکومت کا موقف ہے کہ تعلیمی ادارے
اپنے اداروں کی سیکیورٹی کا بندوبست کریں حکومت نے سرکاری اداروں کو خود
سیکیورٹی آلات ،سیکیورٹی فراہم کرنے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی
ادارے خود سیکیورٹی انتظامات کرنے کے پابند ہیں محکمہ تعلیم نے تعلیمی
اداروں کو سیکیورٹی کے پیش نظر سی سی ٹی کیمرے نصب کرنے ،سیمنٹ کے بیر
ئیرز،اسلحہ کے ساتھ سیکیورٹی گارڈز ،ڈیڈیکٹر زکا بندوبست کرنے کا حکم جاری
کیا ہے جس کا ابتدائی کم از کم خرچہ ایک لاکھ روپے بنتا ہے جبکہ اگر
سیکیورٹی پر ایک فرد ہائر کیا جائے تو اس کا ماہانہ خرچہ بیس سے تیس ہزار
روپے ہے ۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو لیٹرز موصو ل ہو رہے ہیں کہ جب تک
سیکیورٹی انتظامات مکمل نہیں ہوتے ادارے نہ کھولے جائیں بصورت دیگر اداروں
کی رجسٹریشن کی کینسلیشن ،اداروں کا سیل کرکے کاروائی عمل میں لائی جائے گی
، سیکیورٹی کے انتظامات کرنا پہلے دو مذکورہ درجوں کے حامل تعلیمی اداروں
کے لئے کوئی مسلہ نہیں، ان کی آمدن اس قدر کثیر ہے ماہانہ بنیادوں پر ایک
لاکھ سے دو لاکھ روپے تک فنڈزسیکیورٹی کی لئے مختص کرنا ان کے لئے کو ئی
مسلہ نہیں، مسلہ تو تیسرے درجے کے اداروں کے لئے ہے جو ماہانہ دس سے بیس
ہزار روپے تک سیکیورٹی کے لئے فنڈ مختص کرنے کی صلا حیت نہیں رکھتے ،کیاان
اداروں کو تدریسی عمل جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی یا انھیں سیل کردیا
جائے گا؟ اگر تدریسی عمل جاری رکھنے کی اجازت ہوگی تو ان اداروں کی
سیکیورٹی کا بندوبست کون کرے گا؟ کیا غٖریبوں کے بچے اسی طرح دہشت گردی کی
عفریت کے سائے میں تعلیم حاصل کریں گے؟ مندرجہ بالا صور تحال کے پیش نظر
راقم ارباب اقتدار کی خدمت میں درد مندانہ اپیل کرنا چاہتا ہے کہ مفلوک
الحال ،غریب علاقوں کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کا بندوبست حکومت خود کرے
انھیں کیمرے،لائسنس اوراسلحہ آسان طریقے سے سکول ان مالکان کو ہنگامی
بنیادوں پر فراہم کیا جائے ،بیرئیرزخود فراہم کرے ،کم از کم ہر تعلیمی
ادارے کو ایک تربیت یافتہ رضا کار مہیا کیا جائے جس کی تنخواہ حکومت ادا
کرے۔اگر ایسا ممکن نہیں تو حکومت سکولز کو ابتدائی سیکیورٹی خراجات کے لئے
قرض حسنہ دے ،اگر یہ بھی ممکن نہیں تو کم از کم حکومت آسان شرائط پر ایسے
سکولز کے لئے بلا سود قرضے جاری کرے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب، وزارئے اعلیٰ صاحبان ! یقین کریں کہ تیسرے
درجے کے سکول مالکان سیکیورٹی انتظامات کرنے کے قابل ہر گز نہیں ،میں ذاتی
طور پر درجنوں ایسے تعلیمی اداروں کے مالکان کو جانتا ہوں جو فروغ علم میں
رات دن مصروف عمل ہیں ان کے مالی حالات بہت ابتر ہیں ان کے تعلیمی ادروں کے
کرایہ جات، بلز،گھروں کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے ہیں تو وہ اداروں
کی سیکیورٹی کا نتظام کیسے کریں گے ؟تعلیمی ادرے سیکیورٹی کے مسلہ پر حکومت
سے تعاون کرنے کے لئے تیاہیں مگر خدارا غریب ،متوسط سطح کے تعلیمی اداروں
سے سیکیورٹی معاملات پر مالی یا نتظامی تعاون کیا جائے تاکہ کوئی ملک دشمن
قوم کے بچوں کو نقصان پہمچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ |
|