چائلڈ لیبر کا تازہ زخم

ہم ہیڈلائنز‘ترقی یافتہ ممالک اور بریکنگ نیوز کے چکر میں بھول جاتے ہیں کے حقائق کیا ہیں۔خبر سنی اور تبصرے کے لیئے تھڑے اورچوک میں حقائق کی بستی سے دور ایک لایعنی سی بحث کرتے ہوئے ‘جھگڑتے ہوئے گھروں کی راہ لی۔جب تک دوسروں کے عقائد ‘نظریات وضروریات کااحترام نہیں سیکھیں گے ہم کبھی مذہبی توکبھی سیاسی‘لسانی‘علاقائی‘معاشی ولبرل گروہوں میں بٹے رہیں گے ایک قوم نہیں بن سکیں گے‘اپنے بچوں‘بوڑھوں‘اورجوانوں کو محفوظ نہیں کرسکیں گے۔

9 جنوری کو ایک قومی اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھاکہ ’’ایک خبر کے مطابق پیپلز کالونی فیصل آباد میں مالکان نے استری کرتے ہوئے سوٹ جلانے پر تشدد کرکے ملازمہ کو قتل کردیا جبکہ دوسری 8سالہ ملازمہ صفیہ کو زخمی حالت میں برآمد کرلیاگیاہے۔میاں بیوی گرفتارجبکہ آرپی اوسے جناب وزیراعلی پنجاب نے رپورٹ طلب کر لی ہے اورکہا ہے کہ قانون کے مطابق ملزمان کیخلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے‘‘۔پنجاب کے وزیر اعلی نے رپورٹ تولی ایسے ممالک بھی ہیں جن کے صوبو ں کے وزیراعلی سانحات کے دوران بھی محورقص رہے۔مگرمعذرت کیساتھ کام رپورٹ لینے یااس ایک کیس کو سلجھانے سے کام نہیں بنے گابلکہ ایک مضبوط ومربوط حکمت عملی بناناہوگی۔

چائلڈ لیبر اورچائلڈ ورک میں فرق ہے ۔چائلڈ لیبر ایساکام ہے جس میں بچوں سے مقررہ وقت سے زیادہ یااہلیت سے زیادہ کام لیاجائے‘ان کی ذہنی‘اخلاقی‘جسمانی سطح متاثرہو‘انکی لازمی تعلیم میں حرج ہویاان کے کھیل کود اوربچپن کی خواہشوں ادھوری رہ جائیں ‘خطرناک وکیمیائی ماحول وغیرہ۔چائلڈورک سے مراد ایساـ"کامـ"جسے بچے سکول سے فارغ ہونے کے بعد ‘تعطیلات میں یااپنے اضافی وقت کواستعمال میں لاتے ہوئے خاندانی کاروبارمیں صرف کریں ‘چائلڈورک کہلاتاہے ۔اس سے بچوں کی شخصیت پرمثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے حصہ 3اورسیکشن سات کے مطابق بچوں یانابالغ کیلئے کام کاوقت سات گھنٹے ہے جس میں 3گھنٹے بعد ایک گھنٹہ کا آرام شامل ہے یعنی کام کاوقت چھ گھنٹے ہے‘اس حد سے تجاوزکیاجائے گاتوچائلڈلیبرمیں شمارہوگا‘اورکام کی ترتیب بھی ایسے کرناضروری ہوگی کہ 3گھنٹہ کام کے بعد ایک گھنٹہ آرام۔

پاکستان میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم سپارک کے مطابق پاکستان میں تقریبا 2.5کروڑ بچے تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ارض وطن کے آئین کے آرٹیکل a-25کے مطابق5سے 16سال کے بچوں کو تعلیم دلاناحکومت کافرض ہے اور یہ فرض تب ہی پورا ہوسکتاہے جب صوبائی ومرکزی حکومتیں اپنے اخراجات میں نمایاں کمی لاکر غریب والدین کے بچوں کونہ صرف مفت تعلیم دلوائیں بلکہ انکے والدین کیلئے معقول آمدنی والا روزگارفراہم کریں۔کیونکہ جس بچے کی ماں کودوائی کی ضرورت ہے اورباپ سرپرنہیں اس بچے کے ہاتھ میں کتابیں تھمادینے سے کچھ نہیں ہوگا۔اسکی مالی معاونت سے ہی خواب کوحقیقت میں بدلاجاسکتاہے۔اسوقت پاک وطن میں دس ملین بچے محنت ومزدوری پر مجبورہیں۔فیصل آباد ہی کے ایک اُستاد کومل کرمڈل سکول سے متعلق معلومات حاصل کیں تو جناب نے بتایاکہ ہم ہوامیں پالیسیاں بناتے ہیں اوراگرحکومت کچھ فراہم کرتی بھی ہے توہم میں سے جولوگ مستحق نہیں ہوتے وہ بھی امدادلیتے ہیں اوراسطرح غریب کے حقوق غصب کرنے میں عوام کے بیشترلوگ بھی شامل ہیں۔ایک بچے کے بارے میں جناب نے بتایاکہ والدین نے اُسے سکول سے اُٹھاکرہوٹل پرلگوادیا۔جہاں سے وہ4000ماہانہ گھرلاتاہے۔استاد صاحب کہتے تھے کے جس بچے کے گھرچولہانہیں جلتاوہ کاغذوں سے کیونکرکھیلے گا‘اسکے خواب توٹوٹے ہیں لیکن شکم کی آگ بھی توبجھانی ہے۔محترم حافظ شفیق صاحب ایڈیٹر ایڈیٹوریل نئی بات نے ایسے ہی ملکی حالات میں ایک دکھ بھرامیسج بھیجاتھاملاحظہ کیجئے
ؔـہوجس کا ایک ہی بیٹااوربھوکاہوآٹھ پہروں کا
بتاؤاہل دانش تم ‘وہ کاپی لے یاروٹی لے

2014کی سپارک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1کروڑ سے زائد بچے بامشقت محنت ‘مزدوری کررہے ہیں ۔جن میں سے 60لاکھ بچے 10سال سے بھی کم عمر کے ہیں ۔جب کہ پاکستانی قانون کے مطابق16سال سے کم عمرکابچہ مزدوری نہیں کرسکتا۔بچوں سے مشقت لینے میں پنجاب پہلے‘خیبرپختونخواہ دوسرے ‘سندھ تیسرے اوربلوچستان چوتھے نمبرپرہے۔18ترمیم کے مطابق محنت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیاہے۔لہذا صوبوں کو اس ضمن میں تیزرفتاری سے کام کرناہوگا۔اقوام متحدہ کے ادارے آئی ایل او کے تعاون سے حکومت پنجاب نے 8ہزاربچوں کی بحالی میں معاونت کی ہے جو کہ ایک اچھااقدام ہے لیکن اُونٹ کے منہ میں زیرے کے برابرہے۔بچوں سے مشقت لینے والی فہرست میں پاکستان نویں سے 8نمبرپرآگیاہے جوکہ خوش آئندہے مگر ابھی بہت کچھ یاسب کچھ کرنے کوپڑاہے ۔لیبرایکٹ کے تحت انسپکٹر بھرتی کرناہوں گے۔رپورٹ کے مطابق جنوری 2010سے جون2013تک کمسن پھولوں پر مظالم کے 41کیس سامنے آئے جن میں سے 19گل اندوہناک تشددکاسامناکرتے ہوئی مرجھاگئے۔

اب پاکستان میں چائلڈلیبرکے قوانین کی جانب آتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 3کے تحت مملکت ہمہ قسم کے استحصال کے خاتمے اوراس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہرشہری سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیاجائے گااورہرشہری کواسکے کام کا مکمل وبروقت معاوضہ اداکیاجائے گا۔آئین کے آرٹیکل 11کے مطابق 14سال سے کم عمربچے کو کسی کارخانے ‘کان یاخطرناک کام میں نہیں رکھاجائے گا(مثلا50 وولٹ سے زائد بجلی کے کام‘چارہ کاٹنے والی مشین‘سپرے کرنایاپیسٹی سائیڈمحلول بنانا۔)۔آئین کے آرٹیکل 37کے مطابق مملکت منصفانہ اور نرم شرائظ کے تحت اس امرکی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اورخواتین سے ایسے پیشوں میں کام نہیں لیاجائے گاجوان کی عمر اورجنس کے لیئے موزوں نہ ہوں۔
اسکے علاوہ چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991‘ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995جبکہ بچوں کی ملازمت سے متعلق قوانین میں مائنزایکٹ 1923‘چلڈرن ایکٹ 1933‘فیکٹریز ایکٹ 1934‘روڈٹرانسپورٹ ورکرزآرڈیننس1961‘مرچنٹ شپنگ آرڈیننس 2001وغیرہ۔ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991کی دفعہ 4کے تحت حکومت نے 2005میں ایسے پیشوں اورپیداواری عملوں پرپابندی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیاہے جہاں بچوں کی ملازمت پر مکمل پابندی ہے لیکن عمل نداردکیونکہ بھوکے کوپہلے روٹی چاہیئے بعدمیں کتاب۔

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے تحت لفظ ’’بچے‘‘سے مراد وہ شہری ہے جسکی عمر 14سال سے کم ہو(اب سولہ سال) جبکہ نابالغ سے مراد وہ بچہ ہے جس کی عمر 14سے زائد لیکن 18سے کم ہو۔آئین کی شق a-25کومدنظررکھتے ہوئے 18ترمیم میں’’بچے‘‘کی عمر 16سال مقررکی گئی ہے تاکہ a-25کی روح پر عمل پیرا ہوکرریاست 5سے16سال کے بچے کی تعلیم کافریضہ اداکرسکے۔نیز چائلڈ لیبر سے نجات حاصل کرنے کیلئے تجاویز ہیں۔1.:حکومت ایسی ورکشاپس بنائے جہاں ایک سے دوگھنٹے فنی کام کی تربیت دی جائے اور ساتھ ہی 4سے پانچ گھنٹے تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔اس کام سے ہونے والی آمدن بچے کے والدین کے حوالے کی جاسکتی ہے۔2:جن بچوں کے والدین بے روزگارہیں ان کیلئے فنی تربیت کابندوبست کیاجائے ۔اگروالد برسرروزگارہے تومعاشرتی حالات کے پیش نظر بچے کی والدہ کیلئے فنی تربیت ومالی امداد کے ذریعے ایسی سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ باپردرہ کراپنے معاشی حالات سے نبردآزماہوسکے اوراُسے یہ بوجھ ننھے کندھوں پرمنتقل کرنے کادکھ نہ سہناپڑے۔3:ایسے بچے جن کے والدین فوت ہوچکے ہیں اوروہ 4-5بہنوں کااکلوتایادوبھائی ہیں توحکومت ان کی بہنوں کی شادی کے اخراجات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کے لیئے بھی فنی تربیت فراہم کرے ۔4:یقینا حکومت کیلئے الگ ورکشاپس نماسکول کاجال بچھاناقدرے مشکل ہے لیکن موجودپرائمری ومڈل سکولوں میں فنی ماہرین بھرتی کرکے بھی یہ کام لیاجاسکتاہے۔جہاں چھوٹی چھوٹی آسان دستکاریاں یااسی نوعیت کے ایسے کام جوبچوں کیلئے کرناآسان ہو اورمنافع بخش بھی۔5:ان ورکشاپس یاسکولوں سے حاصل ہونے والے مال کو حکومتی سطح پر فروخت کرنے کانظام بنایاجائے تاکہ نقد آمدن ممکن ہوسکے۔اسکے علاوہ اسی موضوع پر حکومت مخلص ماہرین تعلیم سے مشاورت کرکے اوپرپیش کیئے گئے مشوروں سے ہزارگنازیادہ قابل عمل اورموزوں تدبیریں حاصل کرسکتی ہے ‘لیکن ایساکرنے کیلئے دل میں کیلاش سیتارتھی جیسادرد بھی ہوناچاہیئے ۔جس کے پاس mscالیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری ہے لیکن اسکا اوڑھنابچھوناان پھول جیسے بچوں کومرجھانے سے بچاناہے۔ہمیں تو رحمت العالمینﷺ کا اُمتی ہونے کے ناطے ایساہوجاناچاہیئے کہ لوگ مسلمانوں کی مثالیں پیش کرتے پھریں مگرافسوس ہم زبانی جمع خرچ کے لوگ ہیں۔اسلاف کے رعب ودبدبے کے واقعات سناکرخود کو بہلاتے ہیں اوربس۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174688 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.