معصوم بچوں کے سفاکانہ قتل پر
پورا ملک کانپ اٹھا ‘ہر دھڑکتا دل درد سے تڑپ اٹھا‘کیا انسان دردندگی کی اس
حد تک جاسکتا ہے ۔قلم کرب کو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہے ۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم دہشت گردی پر کھل کرلکھ سکتے تھے نہ بات
کرسکتے تھے۔معصوم شہری مرتے رہے ‘دہشت گرد شہروں میں دندناتے رہے ‘بستیاں
اجاڑتے اورعبادت گاہوں کو بموں سے اڑاتے رہے مگراہل قلم اور اہل دانش خاموش
رہے۔حکومت بندوق کی زبان بولنے والوں کو دلیل سے سمجھانے کی کوشش کرتی رہی
‘ہم میں سے کچھ انہیں مجاہد اور شہیدکہتے رہے اور کچھ اسٹرٹیجک اثاثہ سمجھ
کربیٹھے رہے ۔ سولہ دسمبر کی ٹھٹھرتی صبح کوایک سوچالیس ننھے پھولوں کے خون
نے بٹی ہوئی ‘بکھری ہوئی اور دبی ہوئی قوم کو جگا دیا ‘ایک بھونچال نے
مصلحت آمیز پالیسی کو بھک سے اڑادیا ۔
آج ہم اور ہمارے بچے جس بھیانک دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہے ہیں ‘اس کی
ابتداء ایک فوجی حکومت نے کی تھی ۔سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو
امریکہ اوریورپ جنرل ضیاء الحق مرحوم کی حکومت کے ساتھ کھڑے تھے ۔مالی
وسائل اور جدیداسلحہ فراہم کیا گیا ‘ منصوبہ بندی اورجنگی تربیت کے کیمپ
لگائے گئے۔ ملک میں بڑے پیمانے پر جہادی لٹریچر تقسیم ہوا‘جہادی ترانے گائے
جاتے ‘ہر طرف جہاد کاغوغا تھا۔ تعلیمی نصاب میں جہاد سے متعلق آیات شامل کی
گئیں ‘ مدارس میں مجاہدین تیار ہونے لگے‘ ملک کے کونے کونے سے نوجوان شوق
سے افغان جہاد پر جانے لگے۔ ‘’شیطان ریاست ‘کو ختم کرنے کے لئے دنیا بھر سے
مجاہدین کھنچے چلے آئے ۔افغانستان کو روسیوں کا قبرستان بناتے بناتے
پاکستان میں مجاہدین کا گلستان آباد ہو چکا تھا۔سوویت یونین افغانستان سے
پسپا ہوکر نکلا تو امریکہ بھی پاکستان کو چھوڑ کر لوٹ گیا ۔ملک میں ہرطرف
مجاہدین کے لشکر ‘اسلحہ کے انباراورباردورکے ڈھیرتھے۔امریکہ اس وقت پلٹ
کرآیا جب گیارہ ستمبر 2001کو اس کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا‘اس کے بعد
پاکستان میں کئی گیارہ ستمبر ہوئے اور ہوتے چلے گئے ‘حکمران دعوؤں اور
نعروں سے آگے نہیں بڑھے۔سولہ دسمبر کو مگرسب لرز اٹھے ۔
اگر ہم پینتیس سال سے جاری بارود بھری پالیسی کو بدلنے پر آمادہ ہوگئے ہیں
اور ملک کے طول و عرض میں پھیلی دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے پر
تیار ہوگئے ہیں تواس کے لئے وہی جذبہ ٔ ایمانی ‘ وہی منصوبہ بندی اور قومی
یکجہتی چاہئے جو اسّی کی دہائی میں نظر آتی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج نہیں لڑ سکتی ۔یہ ایک پیچیدہ جنگ ہے ‘ یہ
سرحد پرکسی دشمن ملک سے نہیں بلکہ اندرکے دشمن کے خلاف لڑی جارہی ہے۔ دشمن
کو پہچاننا بھی مشکل ہے ‘اس کی وضع قطع ‘حلیہ وحال ‘زبان و بیان ہم سے
مختلف نہیں ۔مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کواندرسہولت کاربھی میسر ہیں‘یہاں اسے
مجاہد سمجھنے والے بھی ہیں۔جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی
فراہم کرنے والے موجود ہیں ‘ان کی نگہداشت کرنے والی نر سریاں موجود ہیں جو
انسانوں میں بارود بھرتی ہیں‘ یہ جنگ جیتنا بہت مشکل ہے ۔اس لئے ان فکری
کمانڈروں‘سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ
ہونا چاہئے۔جس مذہبی جوش و خروش سے یہ جنگجو اورکلچر بنایا گیا تھا‘اسی
جذبہ سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے ۔جن علماء کرام نے جہادی کلچر کے فروغ کا
فریضہ سرانجام دیا ‘وہی جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرسکتے ہیں ۔وہی
بتا سکتے ہیں کہ جہاد کو فساد بنانے والوں نے کس کو فائدہ پہنچایا ‘ ہزاروں
معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اورامن و مان کو بربادکرنے والوں نے کس
کاایجنڈا آگے بڑھایا ۔علماء کرام ارشاد فرمائیں کہ جہادکے نام پر فساد کر
نے والوں نے اسلام کی خدمت کی ہے یا اس کے اجلے اور حیات بخش تصور کو آلودہ
کرنے کی کوشش کی ہے ۔دنیا کی واحد ریاست جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں
آئی ‘ان جنگجوؤں کے ہاتھوں دنیا میں المناک تماشہ بن گئی ہے ۔
علماء کرام ہمیں سمجھائیں کہ اﷲ کی کتاب ایک انسان کے قتل کوپوری انسانی
نسل کا قتل قرار دیتی ہے۔ہمارے دین میں ہر انسان قابل احترام ہے‘اس کی جان
‘اس کی عزت اوراس کا مال محترم ہے۔اس کی رائے ‘اس کا مذہب ‘عقیدہ ‘رنگ و
نسل کچھ بھی ہو ‘وہ محترم ہے ‘وہ محترم ہے ۔اسے مذہب کے نام پر ‘مقدس
ہستیوں کے نام پرکوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا ‘اس کی جان ‘مال اور عزت
سے کھیلا نہیں جاسکتا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی یکسوئی بہت ضروری ہے ۔کیا مسلح گروپوں
میں اچھے برے کا امتیاز رکھا جائے گا‘ کیا عسکری گروپوں کو اسٹرٹیجک اثاثہ
سمجھنے کی پالیسی پرنظر ثانی کی جائے گی ؟بڑا مشکل فیصلہ ہے ‘بہت حساس
معاملہ ہے۔مسلح گروہ قومی مفاد کی پالیسی پر عمل کرتے بڑے بلند مرتبہ نظر
آتے ہیں لیکن جب ان کی ضرورت نہیں رہتی تویہی اثاثہ سب سے بڑا ناسور بن
جاتا ہے ‘ہم نے ’اثاثوں ‘کو پال کریہ دیکھ لیا ہے۔ غلطیوں سے سیکھ کر
پالیسی بنے گی تو کارآمد ہوگی وگرنہ ہواؤں میں تیر چلاتے رہیں گے۔
ریٹنگ کی دوڑ میں سنسنی پھیلاتے نیوز چینلز کی بھی ذمہ داری ہے کہ کچھ ٹاک
شوزسنجیدہ بحث کے بھی ہوں ‘جن میں قومی ایشوز پر کھل کراور قدرے گہرائی سے
بات ہو۔ملک اور قوم کے خلاف سرگرم افراد کا نقطہ ٔ نظر پرائم ٹائم میں نہ
بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ‘اورلاشیں اور آہیں دکھانے سے دہشت پھیلانے والوں
کے مقاصد ہی پورے ہوتے ہیں۔کیا قومی مفاد میں ڈبیٹ کرنا صرف سرکاری نشریاتی
اداروں کا کام ہے ۔ دہشت گردوں کو گلیمرائز کرنے کے بجائے بھیانک بنا کر
پیش کیا جائے تو عوام انہیں ’ظلم اور باطل ‘کے خلاف برسر پیکار ’مجاہد‘نہیں
سمجھیں گے۔ آپ کیمرے کا زاویہ بدل کر دیکھنے والوں کا نقطہ نظر بدل سکتے
ہیں ۔ فلم اور ٹی وی بڑا طاقتور میڈیا ہیں‘اس سے بہت بڑی قومی خدمت لی
جاسکتی ہے ۔
اگر ہم اپنے پھولوں کے جنازے اٹھاکربھی پرانی ڈگر پر چلتے رہے‘دہشت گردی کی
نرسریوں کی آبیاری کرتے رہے ‘وحشی جنگجوپروان چڑھاتے رہے اور مسلح گروہوں
کو اثاثہ سمجھتے رہے ‘ تو پھرتیار رہیں ‘خاکم بدہن ‘ہمیں اس سے بھی برے دن
دیکھنے پڑیں گے! |