محمد صلی الله علیہ وسلم اور چارلی ھیبڈو

محمد صلی الله علیہ وسلم
عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ فالمحمد في اللغة هو الذي يحمد حمدا بعد حمد ، لغت میں محمد کے معنی ہیں ایسی ہستی جسکی حمد کے بعد حمد کی جائے ، تعریف کے اوپر تعریف کی جائے جس پر درود کے بعد درود پڑھا جائے اسے محمد کہتے ہیں - صلی الله علیہ وسلم - في اللغة هو الذي يحمد حمدا بعد حمد" إلى ما لا نهاية له، فلا يقف حمده على حد، جسکی عظمت شان مقام رفعت درجات ، نعت ، حمد کی کوئی حد نہ ہو اسے محمد کہتے ہیں - صلی الله علیہ وسلم - يحمِّد ، تحميدًا ، فهو مُحمِّد - سب سے زیادہ جسکی تعریف بیان کی جائے اس ہستی کو محمد کہتے ہیں ۔ صلی الله علیہ وسلم - اب ہوسکتا ہے بعض توحید کے فرزندوں کی رگ توحید پھڑک اٹھے اور وہ فرمائیں کہ حمد صرف الله کی کیونکہ عرش والے نے کتاب مبین میں فرمایا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - تو اسکا جواب کتب میں موجود ہے جو کہ عقلی اور منقول دلائل سے میں دے سکتا ہوں مگر ایک بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی سوال کا دو طرح کا جواب ہوتا ہے ، ایک تحقیقی اور دوسرا الزامی جواب - آج جی چاہ رہا ہے تحقیقی کی بجائے الزامی جواب کی جانب بڑھوں ۔ جناب محترم والاشآن فرزندان توحید کی خدمت میں گذارش ہے کہ مجھ پر شرک کا فتوی لگانے کی بجائے عرش والے رب سے پوچھیں کہ کیوں اسنے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ایسا نام دیا جسکا مصدر حمد ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے دو صفاتی نام بھی رؤف اور رحیم اپنے محبوب کو عطا کردیے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم عبدالرؤف اور عبدالرحیم نہیں بلکہ رؤف اور رحیم ہیں -لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم بالمؤمنين رءوف رحيم ۔ اگر فرزندان توحید کی بیان کردہ شرک کی تعریف پر جائیں تو معاذ الله کوئی بھی شرک سے نہیں بچ سکتا یہ شرک فی الصفات ٹہرے گا ۔ گذارش ہے مجھ پر شرک کا فتوی لگانے کی بجائے الله رب العزت سے ڈائریکٹ پوچھو کہ اے عرش والے تو رحیم اور رؤف ہے تیرا نبی بھی رؤف و رحیم ہے اے الله جی ایسا کیوں ہے - ویسے بھی آپکو ڈائریکٹ رآبطے کی عادت ہے -

مشرکین مکہ کی ایک میٹنگ میں یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ ہم محمد بن عبدالله کے نقص بھی بیان کرتے ہیں اسے برا بھلا بھی کہتے ہیں اور اسے محمد صلی الله علیہ وسلم بھی کہتے ہیں اور محمد کا معنی جسکی سب سے زیادہ حمد کی جائے لہذا ہمارا یہ فعل لغت میں جچتا نہیں یا اسے محمد نہ کہو یا اسے برا بھلا نہ کہو ۔ انھوں نے کہا طعن و تشنیع سے تو ہم نہیں رک سکتے اسلئیے اسکا نام آج سے مذمم رکھ دو ، جب سورۃ اللہب نازل ہوئی تو ام جمیل بنت حرب نے رسول اللہ ﷺ کی مذمت (ہجو) بیان کرنا چاہی تو یہ کہا: "مذمما ابینا ودینہ قلینا وامرہ عصینا" "مذمم کا ہم نے انکار کیا اس کے دین سے بغض کیا اور اس کے امر کی نافرمانی کی۔" [مستدرک علی الصحیحین للحاکم ۳۹۳/۲ (۳۳۷۶)] ۔اگر وہ لفظ محمد ﷺ کو مذمم کی جگہ استعمال کرتی تو پھر رسول اللہ ﷺ کی تعریف ہی ہوتی کیونکہ "محمد" کا معنی ہے بہت زیادہ تعریف کیا گیا لہٰذا اس نے لفظ "مذمم" استعمال کیا جس کا معنی "مذمت کیا ہوا" بنتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ تو مذمم کو برا کہتے ہیں جبکہ میں محمد ﷺ ہوں۔ اگر وہ لفظ مذمم بول کرمرا د آپﷺ ہی کو لیتے لیکن چونکہ لفظ بدل چکا ، معنی بدل چکا، لہٰذا رسول اللہ ﷺ پر اس کا اطلا ق نہیں ہوسکتا ، نیت اگرچہ کچھ بھی ہو۔ صحابہ نے سنا بڑے پریشان ہوئے اور بارگاہ رسالت میں عرض کیا آقا آج تو حد ہوگئی ہے مشرکین نے آپکا نام مذمم رکھ دیا ہے میرے آقا مسکرائے اور فرمایا قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وآله وسلم -: «أَلَا تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ؛ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ». (رواه البخاري) کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ نے کس طرح قریش کے سب و شتم اور لعن طعن کو مجھ سے پھیر دیا ہے ، وہ تو مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم کو لعن طعن کرتے ہیں جبکہ میں محمد ہوں۔ﷺ -

چارلی ھیبڈو فرانس والوں نے ناجانے کس کے خاکے بناکر میرے آقا محمد صلی الله علیہ وسلم سے منسوب کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے حالانکہ محمد اس ہستی کو کہتے ہیں جسکی اپنے پرائے سب تعریف کریں ۔ چاند پر تھوکنے سے اپنے چہرے پر گرتا ہے - آج بھی یورپ میں میرے آقا کا اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے ، مسلمانوں میں بیشمار عیب ہیں مگر میرے محمد صلی الله علیہ وسلم کا اسلام بے عیب اور نقائص سے پاک عین فطرت کے مطابق مذہب ہے ۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186477 views System analyst, writer. .. View More