”کتے“ بھونکتے رہیں گے لیکن....
(عابد محمود عزام, karachi)
روز اول سے سلسلہ جاری ہے کہ کتے
چمکتے دمکتے چاند کو دیکھ کر بھونکنا شروع کردیتے ہیں۔ چاند کی چاندنی کتوں
سے گوارا نہیں ہوتی، لیکن وہ اس کو ماند و مدہم بھی نہیں کر سکتے، اس طرح
بے بس کتے اپنی بے چین و خصلت بد کا مظاہرہ چاند کو بھونک کر کرتے ہیں۔
بھونکنا چونکہ کتوں کی فطرت ہے، اس لیے یہ قیامت تک چمکتے چاند کو بھونکتے
رہیں، لیکن ان کے بھونکنے سے نہ تو آج تک چاند کی چاندنی ماند پڑی ہے اور
نہ ہی قیامت تک اس میں کوئی کمی آئے گی۔ یہی حال ان ”کتوں“ کا ہے جو وجہ
کائنات، رسالت مآب، محسن انسانیت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین
کی کرنوں کو پھیلتا ہوا دیکھ کر چیں بجبیں و غمزدہ ہوتے ہیں۔ اسلام کی
روشنی کا دن بدن تیزی کے ساتھ پھیلنا ان کو گوارا نہیں ہوتا، اسلام کی
روزبروز ترقی ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، لیکن اسلام کے پھیلتے ہوئے نور کو
روک بھی نہیں سکتے۔ پھر یہ اپنی پریشانی، بے بسی، بغض و عناد اور اپنی خصلت
بد کا اظہار انسان کو انسانیت سکھانے والی سب سے محترم و عظیم ذات حضرت
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کر کے کرتے ہیں۔
ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں گستاخی کرنا ان بدبختوں کی
جانب سے انہونی بات نہیں، کیونکہ یہ بدبختی ان کی فطرت کا حصہ ہے۔
کہاں رفعت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی، کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت تیری بے چین فطرت ہے
مغربی ممالک کی جانب سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”خاکے“
شائع کرنے سے ہر مسلمان کا دل انتہائی رنجیدہ ہے، رنجیدہ ہونا بھی چاہیے،
کیونکہ مسلمان چاہے جتنا بھی گناہ گار ہو، خدا کے بعد اس کے پاس سب سے
مضبوط سہارا شفیع المذنبین کی ذات اطہر ہی ہوتا ہے۔ مسلمان آپ علیہ السلام
کی محبت کے سہارے ہی اپنی امیدوں کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے نزدیک اپنی جان، مال، دولت اور تمام رشتہ
داروں سے بھی عزیز ہیں، یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور اسی لیے آپ
علیہ السلام کی ناموس پر جان نچھاور کرنا ہر مسلمان اپنی سعادت سمجھتا ہے
اور آپ علیہ السلام کی ناموس کے معاملے میں ہر مسلمان کی زبان پر ”لبیک یا
رسول اللہ“ اور ”فداک ابی و امی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ
ہوتے ہیں۔ مسلمان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی سمجھوتا نہیں
کرسکتا، کیونکہ تحفظ ناموس رسالت ہی مسلمان کا سمجھوتا ہے، چاہے اس کے لیے
ہر مسلمان کو اپنا مال، عزت اور جان کی ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑے۔
مغربی ممالک کے اخبارات کی طرف سے ایک بار پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کے گستاخانہ ”خاکے“ شائع کرناان کے بغض اور بے چینی کا کھلا اظہار ہے۔
مغرب نے اسلام کے حوالے سے ہمیشہ منافقت سے کام لیا ہے۔ ہولوکاسٹ کے تاریخی
افسانے پر اظہار رائے کی آزادی سلب اور زبان کھولنا سنگین جرم، جبکہ آزادی
اظہار رائے کے نام پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا نہ
صرف ابو جہل کی اولاد (اہل مغرب) کی منافقت ہے، بلکہ ان کی ذہینت میں بھری
وہ غلاظت ہے، جیسے وہ نام نہاد تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان
کی یہ بے چینی صرف اورصرف اسلام میں روزفزوں ترقی کی وجہ سے ہے۔ جوں جوں یہ
لوگ اسلام اور محسن انسانیت کے خلاف اپنی پراگندہ و بدبودار سوچ کو ظاہر
کرتے ہیں توں توں اسلام میں دلچسپی و مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ
ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چند سال میں مسلمان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی
تعداد اس بات کی گواہ ہے۔ ( اگر صرف مسلمان ہی مسلمان بن جائیں تو
انشاءاللہ ایک دن مسلمانوں کی برھتی ہوئی یہ تعداد پورے یورپ کو اپنی لپیٹ
میں لے کر رہے گی) یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لاکھ بھونڈے حربوں کے
باوجود یہ بدبخت لوگ اسلام کی پھیلتی ہوئی کرنوں کو روکنے میں ناکام رہے
ہیں، یہ ناکامی ہی ان کی بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔ یہ بدبخت لوگ جیسے بھی
حربے استعمال کر لیں، لیکن اسلام کی پھیلتی روشنی کو کسی صورت نہیں روک
سکتے، ہاں قیامت تک مختلف حربوں کے ذریعے اپنی بدبختی کا اظہار کرتے رہیں
گے، جس سے نہ تو آج تک اسلام کو کوئی نقصان پہنچا ہے اور نہ ہی قیامت تک
پہنچے گا۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بھجایا نہ جائے گا |
|