اسلام میں مساجد کو رابطہ عامہ
اور اجتماعیت کا مرکز قرار دیا گیا ہے
اسلام میں مساجد کی اہمیت صرف نمازوں کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے بلکہ
قیام مساجد کا ایک سماجی ،ثقافتی اور سیاسی پہلو بھی ہے مگر افسوس ہم نے
مساجد کو صرف پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی کے لئے مخصوص کردیا اور مساجد
کے بنیادی مقاصد اور آفاقی فلسفے سے آنکھیں موند لیں۔مسلمانان عالم نے تمام
مقاصد کو پس پشت ڈال کر مسجدوں کو فقط ’اللہ ہو ‘ کی جلوہ گاہ بنا دیا
کیونکہ مسلمانوں نے قرآن کو ایک محدود زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی
کوشش کی ،مسجد کے لئے جو احکامات مختص کئے انکا تعلق بھی قرآن سے ہے جیسے
سورہ جن میں ارشاد ہوا ” و ان المٰسجد للہ فلا تد عو ا مع اللہ احداََ“ ”
اور یہ کہ مسجد صرف اللہ کے لئے ہے اور اسکے ساتھ کسی اور کو مت پکارو“
مسلمان نے اس آیت سے یہ سمجھا کہ مسجد میں غیر خدا کاذکر حرام ہے (یقینا
مسجد صرف خدا کے لئے ہے) مگر کیا مسجد صرف اس لئے ہے کہ شب و روز ہاتھ میں
تسبیح لیکر اللہ ہو کا راگ الا پا جائے ۔نہیں اس آیت کا قطعی مفہوم یہ نہیں
ہوسکتا کیونکہ رسول خدا نے مسجد کو مختلف امور کے لئے استعمال کیا تھا ۔حضور
مسجد میں ہر وقت نماز میں ہی مشغول نہیں رہتے تھے بلکہ آمادگی جنگ سے لیکر
علمی امور تک انجام دیتے تھے ۔رہبانی نظام کے پرستاروں نے یہ سمجھا کہ مسجد
کو صرف نمازوں اور اللہ اللہ سے مخصوص کردو تاکہ کوئی بنیاد کام انجا نہ
پاسکے اس طرح کوشش کی گئی کہ کسی طرح مسجدوں کی آفاقیت کو بھی ختم کردیا
جائے۔جس طرح اسلام کے بنیادی فلسفے کو ہم صرف مسلمانوں تک محدود نہیں
کرسکتے کیونکہ ہمیں قرآن اور تعلیمات رسول کے مطالعہ کے بعد یہ سر اغ نہیں
ملتا کہ اسلام اور اسلامی آئین کا سرچشمہ قرآن کریم صرف مسلمانوں سے مخصوص
ہو بلکہ تعلیمات قرآن اور رسول کے کردار کی آفاقیت کی بنیاد پر ہی غیر
مسلموں کے ذہنوں میں انقلابات رونما ہوئے ہیں اور ایک عالم پر اسلامی
اصولوں کی آفاقیت کی حکمرانی رہی ہے ۔
آج بھی کثرت کے ساتھ لوگ اسلامی آئین کی برتری تسلم کرتے ہوئے مسلمان ہورہے
ہیں تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں تعلیمات قرآن اور سنت رسول میں جو اسوہ
حسنہ موجود ہے وہ صرف مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے ہے؟ در اصل کم فہم
مسلمانوں نے اسلامی عبادت گاہوں کو فقط اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا یا
زیادہ سے زیادہ نماز پڑھنے سے مخصوص کردیاتاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے چشم
پوشی کرسکیں؟کیا مسلمانوں کے مسائل صرف نماز کی ادائیگی سے حل ہوسکتے ہیں
یا مساجد کے سلسلے میں یہی سنت نبوی رہی ہے آیا اس سلسلے میں کبھی ہم نے
غورو خوض کیا ؟عہد رسول میں مساجد جن امور کے لئے استعمال ہوتی تھیں انکو
ہم اس طرح شمار کرسکتے ہیں جیسے مسجد محراب عبادت تھی ،دانش گاہ علمی تھی
،مرکز اخوت و صداقت تھی ،آمادگی جنگ کا مرکز تھی ،مرکز عدالت و قضاوت
تھی،غیر مسلموں کو درس اسلام دینے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے اور مرکز
اطلاعات و رابطہ عامہ کی جگہ تھی ۔آیا ہم نے مساجد کو انہی مقاصد کے حصول
کے لئے استعما ل کیا یا کسی ایک مقصد کے لئے مخصوص کرکے باقی ماندہ مقاصد
سے صرف نظر کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی ہے ۔
مسلمانوں کا المیہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام مذہبی فعالیت کو ایک
محدود دائرے میں قید کرلیا اس طرح جہاں مذہب اسلام کی آفاقیت مجروح ہوئی
وہیں مسلمانوں کی ذہنیت بھی ایک پرکار پر گردش کرتی رہی اور انکے افکار و
خیالات کی تنگ نظری کی بنیاد پر دقیانوسیت کے الزمات عائد کئے جاتے
رہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دیگر مذاہب عالم کی نگاہوں میں ہیچ اور ہمارا فلسفہ
اسلام محدود طرز فکر کا متحمل سمجھا گیا۔مسجد کے قیام کے فلسفہ کو بھی ہم
نے صرف پانچ اوقات کی نمازوں تک محدود رکھا یعنی مسجد صرف نماز پڑھنے کے
لئے ہوتی ہے ۔یہ ذہنیت در اصل صدر اسلام کی ذہنیت سے بالکل مختلف ہے ۔جب ہم
تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انکشاف ہوتاہے کہ رسول اسلام مسجد میں سماجی
،ثقافتی ،تعمیری ،تہذیبی امور کے ساتھ جنگی معاملات پر بھی تبادلہ خیال کر
تے ہیں بلکہ دشمنان اسلام کے خلاف جنگ کی پوری تیاریوں کا مرکز و محور مسجد
ہی ہوتی تھی ۔مساجد کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے
سے میل جول رکھیں اور چونکہ نماز کے وقت تمام مسلمان یکجا ہوتے ہیں لہذا اس
طرح سب ایک دوسرے کے مسائل اور حالات سے بھی واقف کار رہیں نیز ملکی و ملی
در پیش مسائل کو سلجھانے کی کوشش کریں ۔اس طرح وہ نمازی جو خود کفیل ہے یا
کسی ایسے منصب پر فائز ہے جہاں رہکر وہ برادر مومن کی مدد کرسکتاہے وہ اپنے
فرائض کی تکمیل کرے ۔یعنی مساجد میں آنے کا ایک مقصد رابطہ عامہ
(comunication ) بھی ہے ۔اور وہ مسلمان جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورتوں
اور پریشانیوں کودور کرنے کی فکر نہ کرے وہ در اصل مسلمان ہی نہیں ہے ۔درد
قوم اور درد ملت کے ساتھ ہی عبادت قابل قبول ہوتی ہے ۔امیر المومنین فرماتے
ہیں ” مسجد میں بیٹھنا میرے لئے زیادہ بہتر ہے جنت میں بیٹھنے سے کیونکہ
جنت میں بیٹھنے میں میرے نفس کی خوشی شامل ہے جبکہ مسجد میں بیٹھنے میں
میرے رب کی خوشی ہے “۔یہ رب کی خوشی صرف مسجد میں نمازوں سے حاصل نہیں
ہوسکتی بلکہ امت مسلمہ کے مسائل پر غوروخوض بھی ضروری ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اسلام نے اس شخص کی نماز کی مذمت کی ہے جو اختیاری
صورت میں مسجد میں نہ جاکر گھر میں نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہو ۔اس لئے کہ
مسجد میں نہ جانے کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے ساتھ ملکی
،ملی و دیگرعالمی سیاسی منظر نامے سے ناواقف رہ جائیگا ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ
گھر میں نماز پڑھنے کی بنیاد پر اور مسجد میں نہ جانا اسکے تکبر کی علامت
بھی ہوسکتی ہے کہ آخر میں ایسے ویسے لوگوں کے ساتھ جماعت میں کیسے شریک
ہوسکتاہوں کیونکہ نماز کی صفوں میں ذات پات اور اونچ نیچ کی تمام خود ساختہ
دیواریں منہدم ہوجاتی ہیں اور ہر انسان صرف ایک اللہ کا بندہ رہ جاتا ہے
جہاں حالت سجدہ میں ایک بندہ کا سر دوسرے بندے کے قدموں میں ہوتاہے؟انہی
تمام وجوہات کے پیش نظر رسول اسلام نے ارشاد فرمایا کہ اختیار ی صورت میں
جوشخص مسجد میں نہ جاکر گھر میں نماز پڑھ لے اسکی نماز قابل قبول نہیں ہے
،دوسری حدیث میں رسول اکرم نے ایسے شخص کے ساتھ کھانا پینا ،عقد و نکاح
،مشاورت اور ہمسائیگی کو ترک کرنے کا حکم دیاہے جو مسجد میں حاضر نہیں ہوتا
،مختلف احادیث میں اس طرح کی نشاندہی موجود ہے۔حضرت علی ؑتک یہ خبر پہونچی
کہ کچھ لوگ نماز جماعت میں شرکت نہیں کرتے ۔آپ غضبناک ہوئے اور مسجد میں
خطبہ کے درمیان فرمایا ” جو لوگ نماز جماعت میں شریک نہیں ہوتے وہ ہمارے
ساتھ کھانے پینے میں شریک نہ ہوں ،ہماری مشاورتی مجالس سے دور رہیں اور
ہمارے ساتھ کوئی رشتہ قائم نہ کریں(مستمسک جلد ۷ ص ۱۶۱) ۔اس موجودگی کی
ہدایت کرنے کا ایک مقصد اسی فکری برتری کو ختم کرنا ہے جو انسان کو تکبر پر
ابھارتی ہے ۔یا پھر رسول کا یہ حکم کہ مسجد میں میت دفن کرنا جائز نہیں ہے
سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ اگر اس پر پابندی عائد نہ کی گئی تو صاحبان
اقتدار مساجد کو قبرستان میں تبدیل کردیں گے اس طرح مسجد اللہ کا گھر نہ ہو
کر امیروں اور مقتدر لوگوں کا قبرستان بن جائیگی ۔مسجد الحرام کے لئے قرآن
میں ارشاد ہوتاہے کہ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبرکاََ و ھدی
للعٰلمین ” بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لئے تعمیر ہوئی وہ
وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے اسکو خیرو برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں
کے لئے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا“(آل عمران ۶۹) اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ
مسجد عالمین کے لئے مرکز ہدایت ہے جس طرح قرآن عالمین کے لئے ہدایت کا
سرچشمہ ہے ۔عالمین کا لفظ صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر مذہب و
مسلک کے افراد کو سمیٹے ہوئے ہے اگر وہ ہدایت کی غرض سے آنا چاہیں تو آسکتے
ہیں ۔
دوسرا اہم سبب جو امیر کائنات علی ابن ابی طالب نے بیان فرمایا ہے کہ”جب
کوئی شخص مسجد میں جا کر نماز ادا کرے گا اسے سات چیزوں میں سے کوئی ایک
ضرور نصیب ہوگی۔دینی بھائیوں سے ملاقات ،یعنی ملاقات کے ساتھ انکے مسائل سے
آگاہی نیز ان کے ذریعہ اپنی پریشانیوں کا حل بھی نصیب ہوگا ۔دوسرے یہ کہ
مسجد میں جانے کی بنیاد پر کوئی تازہ معلومات حاصل ہوگی یعنی علم میں اضافہ
ہوگا۔ظاہر ہے جہاں مختلف ذہنوں اور مختلف انڈسٹریز میں کام کرنے والے افراد
جمع ہونگے وہاں کسی نہ کسی مقامی یا عالمی مسئلے پر گفتگو ضرور ہوگی اس طرح
اسکے علم میں بھی اضافہ ہوگا اور کچھ جدید انکشافات اسکی ذات پر مکشف ہوں
گے اس طرح یہ بھی واضح ہوجاتاہے کہ مسجد سے صرف نماز پڑھ کر چلے جانا درست
نہیں ہے (سوائے یہ کہ کوئی کار ضروری درپیش ہو ) بلکہ نمازیوں کے ساتھ کچھ
دیر تک تبادلہ ¿ خیال بھی کرے تاکہ کسی ایسے مسئلے پر بھی بات ہو سکے جو
مسلمانوں کی پریشانی کا سبب ہے یا اس مسئلے کی نوعیت سنجیدہ ہے۔تیسرے یہ کہ
کوئی رحمت الہی تمہارا انتظار کررہی ہوگی اب اس رحمت الہی کا تعلق دنیاوی
فائدہ سے بھی ہوسکتا ہے اور اخروی و دنیاوی دونوں فائدے بھی ممکن ہیں
۔کیونکہ مسجد میں اللہ کی جانب سے ہونے والی عطا میں حرام کا کوئی عنصر
شامل ہو یہ سوچنا بھی گناہ کبیرہ ہے ۔چوتھے کوئی ایسا جملہ جو تمہیں ہلاکت
سے بچالے یا ایسا جملہ جو تمہاری رہنمائی کرے ،اس جملے کا تعلق امام کے
ذریعہ کی جارہی نصیحت سے بھی ہوسکتاہے اور مومنین کی گفتگو سے بھی ۔پانچویں
کوئی ایسی بات جو ارتقا میں تمہاری رہنمائی کرے ۔چھٹے یہ کہ مسجد میں جانے
والا شخص گناہ ترک کرنے پر مجبور ہوجائیگا چاہے خوف کی بنیا د پر ہو یا پھر
مروت کی بنیاد پر ۔ساتویں یہ کہ تمہارا ذہن اگر کسی حقیقت کے سلسلے میں
مشکوک یا متردد ہو تو ممکن ہے اسکے لئے کسی دلیل محکم کا انکشاف ہو جو اس
تردد اور تشکیک کے مرحلے کو ختم کردے یعنی اس دلیل محکم کی بنیاد پر ذہن
انسانی شک و تردد کے قعر ظلمت سے نکل کریقین کی دائمی روشنی میں ارتقا کے
مراحل طے کرسکتاہے اس شک و تردد کی مختلف نوعیتیں ہوسکتی ہیں اور بسا اوقات
ایک شک انسان کی زندگی کے ہر شعبہ کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور اس شک کے
نتیجہ میں انسان گناہوں کی طرف راغب ہوتاہے نیز اجتماعی و انفرادی زندگی
بھی تباہی کے دہانے پر پہونچ جاتی ہے ۔
احادیث رسول کی روشنی میں مساجد میں فضول بیٹھنا ،ادھر ادھر کی ڈینگیں
ہانکنا ،روز مر ہ کی ضروریات کو انجام دینا صرف اس لئے مکرہ قرار دیا گیا
ہے تاکہ ان مقد س مقامات پر فضولیات کی ترویج نہ ہو۔آدمی فضول بیٹھ کر یا
گپیں ہانک کر ممکن ہے کسی کی غیبت کا مرتکب ہو یا کوئی ایسی برجستہ بات
کہدے جو مساجد کے وقار کی ہتک کا سبب بنے لہذا شریعت نے ایسی فضولیات کے
لئے ابتدا ہی میں پابندی عائد کردی انہی وجوہات کی بنا پر رسول اسلام نے
ارشاد فرمایاتھا کہ ” نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا عبادت ہے جب تک
کوئی حادثہ نہ ہوجائے ،کسی نے سوال کیا کہ حضور یہ حادثہ کیاہے ؟آپ نے جواب
دیا کہ’ غیبت‘ “ اس لئے کہ بسا اوقات جب انسان فضو ل بیٹھا ہوتاہے تو وقت
گذاری کی نیت سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگتا ہے جسکے نتیجے میں غیبت کے
مرتکب ہوجانے کا خدشہ ہے۔دوسرے یہ مساجد کو ڈیکوریٹ کرنا ،عالیشان عمارتیں
تعمیر کرنا ،کنگورے بنانا ،بلند مینار بنوا نا مکروہات کے زمرے میں آتے ہیں
کیونکہ یہ علامتیں مکبرانہ ہیں اور مسجد اللہ کا گھر ہے جسے ایک سادہ اور
عام عمارت کی طرح ہونا چاہئے جسمیں نہ تو شاہانہ رعونت ہو اور نہ تکبر کی
آمیزش ۔بلکہ مسجدوں کو ایسا بنا نے کی تاکید کی گئی ہے کہ ایک مزدور بھی
عمارت کو دیکھ کر ذہنی طور پر اس سے وابستہ ہوجائے اور باد شاہ دیکھے تو وہ
اللہ کے گھر کی سادہ پرکاری دیکھ کر اپنے محل کی شکوت،سطوت اور رعونت سے
بیزار ی کی بنیاد پر خالق اور خلق خدا سے قریب تر ہو ۔آج مسلمان سنت پیغمبر
پر عمل کا دعویدار تو ہے مگر وہ جہاں بیٹھ یہ دعوے کرتاہے ،سادگی اور
انکساری کی باتیں کرتا ہے وہی جگہ قیصریت اور رہبانی نظام کا نمونہ ہوتی ہے
۔مسجدوں کو اتنی زینت بخشی جاتی ہے کہ ایک مڈ ل کلاس شخص مسجد میں داخل
ہوتے ہی یہ تصور کرنے لگتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے گھر میں آیاہے یا کسی ایسے
باد شاہ کے محل میں جس نے اپنی رعیت کی مفلوک الحالی ،فقرو تنگدستی سے چشم
پوشی کررکھی ہو اور ان کے اموال کو اپنے محل کی رعونت میں اضافہ پر خرچ
کیاہو ۔وہیں ایک لور کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان ایسی عالیشان
عبادت گاہوں میں جاتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے ۔
مساجد کی بنیاد کا اصل مقصد عبادت کے علاوہ سماجی و معاشرتی اجتماعیت ہے
۔یعنی جہاں اطراف و جوانب کے مسلمان جمع ہوتے ہوں اور یہ جمع ہونا بے مقصد
نہ ہو بلکہ ایک دوسرے کے در پیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے ۔اسی لئے
ہر مسجد میں نماز اور خصوصا جماعت کا ثواب الگ معین کیا گیا ہے ۔جیسے مسجد
الحرام میں ادا کی جانے والی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب رکھتی
ہے ۔شہر کی جامع مسجد میں ادا کی جانے والی نماز کی اہمیت سو نمازوں کے
مترادف ہے وہیں کسی محلے یا قبیلے کی مسجد میں پڑھی جانے والی نماز کی عظمت
پچیس نمازوں کا ثواب رکھتی ہے اور بازار کی مسجد میں ادا کی جانے والی نماز
کا درجہ بارہ نمازوں کے بر ابر ہے ۔در اصل ہم نے اب تک مساجد کی اہمیت و
نوعیت کو صرف ایک ہی رخ سے دیکھا ہے ۔نماز اللہ کی عبادت کے لئے ہوتی ہے تو
پھر چاہے ہم گھر میں ادا کریں یا کسی مسجد میں جاکر فرائض کی تکمیل کریں
آخر امیں امتیازات و انفرادیت کیسی ؟ لیکن کبھی ہم غور کریں کہ شریعت نے
جگہ کی نوعیت کے اعتبار سے نمازوں کے ثواب کا معیار متعین کیا ہے اور ایک
اجتماعی نظام زندگی کو نافذ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔چونکہ مسجد الحرام
میں مسلمانوں کی آبادی دوسری مساجد کے بالمقابل زیادہ ہوتی ہے خصوصا حج کے
ایام میں دنیا کے ہر خطے سے مسلمان سمٹ کر یہاں آتے ہیں لہذا مسلمان
علماءکے پاس اس سے اچھا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے
مسائل اور عالمی منظر نامے کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے سامنے ڈسکس
کریں ۔نیز انہیں اسلام دشمن عناصر کی تباہ کاریوں و سیاسی حیلہ بازیوں سے
آگاہ کریں لیکن آیا ایسا ہوتا ہے؟یا پھر ہم نے مساجد کو ملائیت کے افکار کی
نشریات کا اڈا بنا دیا ہے جہاں صرف محدود ذہنیت کی باتیں ہوتی ہیں اس طرح
مساجد کی مقصدیت فوت ہوکر رہ گئی ہے ۔مسجد الحرام کے مقابلے میں شہر کی
جامع مسجد کی وہ حیثیت نہیں ہوتی لہذا یہاں نمازوں کا ثواب بھی مسجدالحرام
کے مقابلے میں کم کردیا گیا ۔جبکہ شہر کی جامع مسجد میں بھی اللہ کی ہی
عباد ت ہوتی ہے لیکن چونکہ یہاں مسلمان اتنی تعداد میں نہیں آسکتے اور نہ
یہاں پر اپنی بات کہنے کا وہ عظیم پلیٹ فارم موجود ہے جو مسجد الحرام یا
مسجد کوفہ وغیرہ میں میسر آتا ہے۔لیکن چونکہ جامع مسجد میں ہر ذہن اور ہر
فکر کا آدمی شرکت کرتا ہے جنکا علمی اسٹیٹس الگ الگ ہوتا ہے اور یہاں ابلاغ
و ترسیل کے ذرائع بھی مہیا ہوتے ہیں لہذا جامع مسجد کا ثواب محلے ،گاﺅں
،قبیلے یا بازا ر کی مسجد سے زیادہ رکھا گیا ۔ظاہر ہے جہاں مسلمانوں کی
جتنی بڑی تعداد موجود رہیگی مسائل بھی اسی لحاظ سے بڑھتے جائیں گے ۔اس
تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مساجد کی بنیاد کا ایک اہم مقصد سیاسی نوعت
کا بھی ہے اور یہ مقصد سب سے اہم ہے۔کیونکہ کسی بھی قوم کو آگے بڑھنے میں
جو مشکلات پیش آتی ہیں انکا تعلق مذہبی عبادات سے نہیں ہوتا بلکہ سیاست سے
ہوتا ہے ۔عبادت کسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی لیکن سیاسی حالات کسی بھی
فرد یا قوم کے ارتقا کے راستوں کو بند کردیتے ہیں ۔
اس حقیقت سے ہم ہندوستان میں بھی روبرو ہیں اور پوری دنیا میں مسلمان اسی
سیاسی کشمکش کا شکار ہے لیکن ہماری مسجدوں سے مسلمانوں کے حقوق کے سلسلے
میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی بلکہ مسجدوں کے پیش نماز منتظر رہتے ہیں
کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کے رد عمل کے ۔کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو ذہنی طور
پر تقلید کا اسیر بنا لیا ہے اور وہ اجتہادی رنگ و بو ہم میں نہیں ہے جسکی
بنیاد پر ہم کسی کی غلامی کا قلادہ اپنی گرد ن میں ڈالے بغیر اپنے مسائل کو
خود حل کرسکیں۔ہماری مسجدوں کے پیش نماز حضرات اب اپنے معیار کاسودا کرنے
لگے ہیں ۔جن سیاسی رہنماﺅں کو انکے دروازوں پر آکر مذہب او ر مذہبی سیاست
کا سبق لینا چاہئے وہ علماءمساجد کی مرکزیت سے ناواقفیت کی بنیاد پر ان
رہنماﺅں کے دروازوں پر ملاقات کے لئے صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ۔یہ معیار اور
وژن ہم نے خود ڈیولپ کیا ہے ۔اگر ہم ان تمام رہنماﺅں کو ان مقامات پر دعوت
دیں جو اسلامی مراکز ہیں تو آپ ہر لحاظ سے ان سے بلند ہوں گے نیز کبھی بھی
احساس کمتری کا شکار نہیں رہیں گے ۔کیا رسول اسلام نے مساجد کو سیاسی نوعیت
سے استعمال نہیں کیا لیکن انکا مقصد کبھی ذاتی فائد ہ نہیں رہا بلکہ وہ
ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسجدمیں ہر کا م انجاد
دیتے تھے ۔یہودی ،عیسائیوں سے مناظرہ ہو یاپھر عرب کے اسلام دشمن عناصر کی
سیاسی کار گذاریوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے ساتھ ان کے اتحاد کو توڑنے
کی منصوبہ بندی ہو ہر کام مسجد سے ہی انجام پذیر ہوتاتھا لیکن کیا آج ہم
رسول کے سچے عاشق ہونے کا دم بھرنے والے رسول کی سیرت پر عمل کرتے ہیں؟اگر
مساجد کی بنا کا کوئی مقصد ہے تو پھر رسول اکرم نے یہ کیوں ارشاد فرمایا
”جو شخص مسجد کے ہمسائے میں رہتا ہو اور نماز گھر میں اداکرے تو اسکی نماز
قبول نہیں ہوگی“دوستو!نماز تو وہ پڑھ ہی رہا ہے اور ویسے ہی پڑھ رہا ہے
جیسا کہ حکم خدا و رسول ہے تو پھر اسکی نماز گھر میں قبول کیوں نہیں ہے؟
آخر ہم نے کبھی اس نماز قبول نہ ہونے کے فلسفہ پر غور کیا ؟ہوسکتا ہے جو
شخص اپنے گھر میں نماز پڑھنے کو اولیت دے رہا ہے وہ مسجد میں عام مسلمانوں
کے ساتھ نماز پڑھنے کو معیوب سمجھتا ہو ۔کسی سے ملنا جلنا اسکی طبیعت کا
شعار نہ ہو ۔یا وہ اپنے سے کمتر درجہ کے لوگوں سے مصافحہ کرنا پسند نہ کرتا
ہو ۔لہذا شریعت نے طبیعت کے اس حکم نامے کو پہلے ہی منسوخ کردیا ۔کیونکہ
مسجد میں جانے کے جہاں دوسرے بڑے فائد ہ ہیں وہیں ایک اہم فائدہ فلسفہ
مساوات کی ترویج بھی ہے یعنی سماجی ایکو لیٹی ۔جدید یورپی نظا م فکر نے جو
نعرہ آج بلند کیا ہے کہ سماج میں طبقاتی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی
برتری حاصل نہیں ہے در اصل یہ اسلام کا قدیم نعرہ ہے جسکی تبلیغ ہم صحیح
ڈھنگ سے نہیں کرسکے اور دوسرے مذہبی و سیاسی نظام کے لوگوں نے اس نظریہ
مساوات کا اس طرح استعمال کیا کہ ملکوں میں انقلابات رونما ہوئے اور روس
جیسی عظیم طاقت زمیں بوس ہو کر رہ گئی ۔
آج ہر محلہ میں ہر گلی میں ایک نہیں کئی کئی مساجد نظر آتی ہیں ہر جگہ
لسانی و قومی امتیازات کی بنیاد پر یا مختلف وجوہات کے تحت مساجد کی بنیاد
رکھی جاتی ہے جبکہ یہ فلسفہ مساجد کے خلاف ہے ۔اس لئے کہ مسجد ایک فلسفہ یہ
ہے کہ تمام مسلمان جہاں تک ممکن ہو ایک ہی مقام پر جمع ہوں ۔پیغمبر جانتے
تھے کہ مستقبل میں آبادیاں اربوں سے تجاوز کرجائین گی اور ایک مسجد
مسلمانوں کے اجتماع کے لئے ناکافی ہوگی اس لئے شہروں میں الگ الگ مقامات پر
مساجد کا قیام عمل میں آئیگا لہذا جمعہ کی نماز کا اختصاصی حکم آیا تاکہ
اگر تمام مسلمان ہر دن ایک ساتھ جمع ہوکر اپنے مسائل پر تبادلہ خیال نہ
کرسکیں تو ہفتہ میں ایک دن ضرور جمع ہوںاسی اجتماعیت کے پیش نظر جمعہ کو
پیغمبر نے مساکین کا حج کہا ہے اور امام محمد باقر ؑ نے فرمایا کہ ” جو
بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ ترک کرکے اسکے دل میں شعبہ نفاق ہے“(مسجد
۷۹)کیونکہ امام جمعہ کو حکم ہوتاہے جمعہ کے خطبات میں ایسے موضوعات کا
انتخاب کرے جومسلمانوں کو درپیش ہوںنیز استعماری و صہیونی سازشوں سے انہیں
آگا ہ کرے ۔ایسی مسجدیں جو رنگ و نسل یا ایک دوسرے سے عصبیت کی بنا پر وجود
میں آئیں یا اس لئے کہ ایک محلے کا بوڑھا یا مریض اور معذور شخص قریب کے
دوسرے محلے میں جاکر نماز ادا نہیں کرسکتا اور مقتدر لوگوں نے اپنی گلی میں
آسانی کے لئے دوسری مسجدکی بنیاد رکھدی یہ مسجد ضرار کی طرح ہے جسکے انہدام
کا حکم اللہ کی طرف سے آیا تھا اور ہر تعمیر کرنے والا شخص ابو عامر کی
مثال ہے ۔مسجد ضرار کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کسی طرح مسلمانوں کی اجتماعی
طاقت کو منتشر کردیا جائے اور تفرقہ اندازی کی جائے لہذا آج بھی اگر کوئی
مسجد اس لئے قائم ہوتی ہے تاکہ کسی دوسری مسجد کی اجتمای قوت پر ضرب لگائی
جائے تواور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا جائے تو وہ انہدام کے لائق ہے کیونکہ
حکم قرآ ن بھی یہی ہے کہ ” کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی ہے اس
غر ض سے کہ (دعوت حق کو) نقصان پہونچائیں اور (خدا کی بند گی کرنے کے بجائے
)کفر کریں اور اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں اور (اس بظاہر عباد ت گاہ کو )اس
شخص کے لئے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اسکے رسول کے خلاف بر سر
پیکار ہو چکا ہے ۔و ہ ضرور قسمیں کھاکھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ بھلائی
کے سوا کسی دوسری چیز کا نہ تھا مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں تم
ہر گز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا “(توبہ ۷۰۱) آیت میں واضح لفظوں میں اللہ
نے اس جگہ کو جو مسلمانوں میں تفرقہ ،اجتماعی قوت پر ضرب اور کفرو فتنہ کے
لئے ہو عمارت سے تعبیر کیاہے ناکہ مسجد کہکر خطاب کیاہے ،مسجد کی تعمیر کا
ثواب اپنی جگہ ہے مگر پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مسجد کی تعمیر کا مقصد
کیاہے اور دوسری مسجد کی تعمیر کتنی ضروری ہے ۔امام خمینی رضوان اللہ مساجد
کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف تھے اسی لئے انہوں نے فرمایاتھا ” ان
مساجد کو مورچہ قرار دیجئے ،صدر اسلام میں انہی مساجد سے ہر چیز جاری ہوتی
تھی یہ نہ کہئے کہ ہم مسجد میں کیا کریں ؟ہم انقلاب لے آئے ہیں تاکہ مسجد
کو مسجد بنایا جائے “۔
المختصر! عصر حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی مساجد کو ذکر الہی کے
ساتھ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کا اہم مرکز بھی قرار دیں نیز مسجد کو کسی
ایک لائحہ عمل کے لئے مخصوص نہ کریں ورنہ یہ کٹھ ملائیت اور دقیانوسی ذہنیت
کی علامت بن جائیگی ۔آج پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی ذات سے متنفر
ہونے کا سب سے بڑا سبب انکی محدود ذہنیت ،دقیانوسی طرز فکر اور کٹھ ملائی
نظام ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نظام کو درست کریں اور مذہب اسلام
کے آفاقی فلسفہ کو دنیا کے سامنے قرآن اور تعلیمات رسول کی روشنی میں پیش
کریں نا کہ اپنے ذہنی تناظر اور قیاس آرائیوں کی روشنی میں ۔یہ طریقہ کار
ہمارے لئے بھی سودمند ہے اور اسلامی آئین کی بقا کے لئے بھی ۔ |