جب سے لاہور کے چھ سالہ معصوم معین کی مسجد کی
چھت کیسا تھ جھولتی برہنہ نعش کی تصاویر دیکھی ہیں دل و دماغ میں کہرام
برپا ہے ۔آنکھیں اندوہناک مناظر پر اشک آلود ہیں۔بے چینی ہے کہ ختم ہونے کا
نام نہیں لے رہی ۔ جذبات کا الفاظ میں اظہار مشکل ہورہا ہے ۔تب سے خود
کلامی میں مصروف ہوں ۔اس سوچ میں ہوں کہ کیا کوئی انسان ایسا کرسکتا ہے ؟
ایسا فعل جس کو کرتے ہوئے انسان تو کیا شیطان بھی پناہ مانگے ۔لیکن اس سفا
ک درندے کو نہ ہی بچے کی عمر کا کچھ خیال آیا ، اور نہ ہی اُس کی معصومیت
اس کے ماتھے پر شکن لاسکی ، نہ ہی خدا کے گھر کی عظمت اس کے دل میں ڈر پیدا
کرسکی ، اور نہ ہی عظیم الشان منصب و مرتبہ اُسے ایسا کرنے سے روک سکا ۔جب
معصوم زین کو ہوس کا نشانہ بنا کر بھی اس کا جی نہ بھرا تو درندہ صفت انسان
نے اس معصوم بچے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے مسجد کی چھت کیساتھ لٹکا دیا
۔اور یوں ٹیوشن کی غرض سے گھر سے نکلنے والے دوسری جماعت کے طالب علم معصوم
معین کو ایک درندہ صفت انسان کی ہوس نے نگل لیا ۔ایسا کرنے والا کوئی عام
انسان نہ تھا بلکہ مقا می مسجد کا امام تھا ۔اور یہ انتہائی قبیع فعل کرنے
کے بعد بھی اس کے قدم نہیں ڈگمائے اور معصوم معین کو پھانسی پر لٹکا کر نام
نہاد مولا نا اسی مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کروا رہا تھا ۔ کیا غضب ناک
منظر ہوگا ۔ مسجد کے ایک کمرے میں اس معصوم کی لاش لٹک رہی تھی اور اسی
مسجد میں اسی قاتل اما م کی اتباع میں نماز جمعہ پڑھی جارہی تھی ۔
ابھی چند روز قبل سانحہ پشارو رونما ہوا ۔جس میں 142 بچوں کو درندگی کا
نشانہ بنا کر ہلا ک کردیا گیا ۔ ملک کے طول و عرض میں اس بربریت کیخلاف
احتجاج ہوا ۔ ملک کے کونے کونے سے اس کی مذمت اور دہشتگردوں کو سر عام
پھانسی دینے کا مطالبہ سامنے آیا ۔سیاسی اور عکسری قیادت نے چند روز میں
قومی ایکشن پلان پر متفق ہوئی اور 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس ایکشن
پلان کی منظوری بھی دے دی گئی ۔ لیکن لاہور میں معصوم معین کے ساتھ
ہونیوالی درندگی پر سب خاموش ہیں ۔کسی نے مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا ۔
کیا اس درندے نے انسانیت کی روح کو شرمندہ نہیں کیا ؟ پھر سب کیوں خاموش
ہیں ؟ کیا یہ پاکستانی نہیں ہے ؟ کیا یہ کسی ماں کا بیٹا نہیں ہے ؟ کیا
معین کی ماں کا دکھ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی ماؤں کے دکھ سے
کسی طور کم ہے ؟ پھر یہ منافقت کیوں ؟سچ پوچھیے تو معاشرے کی اس منافقت اور
دوغلے پن نے میرے دل و دماغ پر خوف کے پہرے بیٹھا دیے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قصوار کون ہے؟ مسجد میں امام مقرر کرنے کا کیا
معیار ہے ؟امام مسجد کا معاشرے میں کیا مقام ہے ؟اس کا ذریعہ معاش کیا ہوتا
ہے ؟ اور یہ تنخواہ کون ادا کرتا ہے ؟سب سے اہم سوال مولوی کس معیار کے
مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ ان مدرسوں کی حالت کیا ہوتی ہے؟صرف غریب
کے بچے ہی کیوں ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں؟تعلیم حاصل
کرنے کے بعد کیا انہیں ملازمت کے مواقع دستیا ب ہوتے ہیں؟پاکستان میں مسجد
میں امام مقرر کرنے کا کوئی معیار نہیں جو داڑھی والا اور چند قران کی
سورتیں یاد کر لے آسانی سے کسی گاؤں یا شہر کی مسجد میں امام مقرر ہوسکتا
ہے ۔اس میں قصور اسے مقرر کرنے والوں کا ہے ۔اگر مقامی لوگ باقائدہ تحقیق
سے کسی کو امام مقرر کریں گے تو اس میں ایسے لوگوں کا انتخاب ممکن نہیں جو
امام مسجد بن کر فساد بر پا کریں ۔خیر امام جیسا بھی ہواچھا یا برا یہ ایک
حقیقت ہے کہ امام مسجد کو معاشرے میں وہ عزت نہیں دی جاتی جس کا وہ حقدار
ہے ۔کتنے دُکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ امام مسجد کیلئے کو معقول ذریعہ معاش
نہیں ، وہ محلے کے بچوں کو قرآن پڑھا کر کچھ رقم حاصل کرتا ہے جو اس کے گزر
بسر کے لئے ناکافی ہوتی ہے ۔معاشرے کی فرمائش ہوتی ہے کہ آج کا امام مسجد 4
سے 5 ہزار ماہانہپر گزارہ کرے ۔اس خرچے میں اسے مسجد کی تما م دیکھ بھال
اور اس کی صفائی ستھرائی کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے ، اور اس تنخواہ اور
ملازمت کو برقرار رکھنے کے لئے بھی اسے مسجد کمیٹی کے ہر فرد کو خوش کرنا
پڑتا ہے ۔ معاشرے کے اس طرز عمل سے آئمہ کرام میں مایوسی پھیلتی ہے اور وہ
انتہائی اقدام کا سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ہم غور کریں توپورا معاشرہ
اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار نظر ائے گا ۔
حالات جیسے بھی ہوں ، لاہور میں معصوم معین کیساتھ پیش آنے والے واقعے یا
اس طرح کی کسی بھی درندگی کاکوئی جوا ز پیش نہیں کیا جاسکتا۔اس طرح کے
واقعات انسانیت کی بدترین تذلیل اور ذمہ داروں کو سر عام پھانسی دی جانی
چاہیے ۔یہاں پر یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ایسے نام نہاد مولویوں کے خلاف آواز
اٹھانا اسلام کے خلاف سازش گردانا جاتا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ گناہ گناہ ہے
، وہ بے شک مولوی کرے یا کوئی اور ۔مساجد اﷲ کے گھر ہیں ۔ کوئی مسلمان کہیں
بھی ۔ خاص طور پر اﷲ کے گھر میں ایسے فعل کو کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔ ان
کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے جو کہتے ہیں کہ ایسے واقعات میڈیا میں آنے
سے اسلام بدنام ہوتا ہے ۔
ایسے واقعات صرف دینی مدرسوں تک محدود نہیں ہیں سکولوں اور دیگر مقامات میں
جہاں کوئی غریب، بے آسرا بچہ یا بچی کسی ظالم شخص کے ہاتھ چڑھ جانے تو ایسے
ایسے واقعا ت سامنے آتے ہیں کہ انسانیت کی روح کا نپ اٹھتی ہے ۔ایسے واقعات
میں اضافے کی بنیادی وجہ نظام انصاف میں موجود خامیاں ہیں۔آج تک اس طرح کے
شاید ہی کسی مجرم کو سزا ہوسکی ہو ۔ ایسے مجرم عموماََ قانون کے ہاتھ آتے
ہی نہیں، اور اگر آ بھی جاہیں توطویل عدالتی کاروائی ان کو اچھا خاصا وقت
فراہم کردیتی ہے ۔پیشتر تو گواہ نہ ہونے کی صورت میں جلد ی ضمانت پر رہا ہو
جاتے ہیں ۔دنیا کے دوسرے تمام ممالک میں اس طرح کے کیسز کے لئے ڈی این اے
ٹیسٹ کو بنیادی شہادت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں اسلامی
نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت
کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ان واقعات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ
مدرسے اور یونیورسٹیاں اس معیار کے ڈگری ہولڈرز پیدا نہیں کررہے جو آگے جا
کر نسل نو کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کر سکیں ۔آج کل
مدرسوں اور یونیورسٹیوں نے بے شما ر پروگرامز شروع کروا رکھے ہیں ۔لیکن ان
کے پاس نہ ہی مقررہ کورسز کے لئے کلاس رومز ہوتے ہیں اور نہ ہی دیگر
سہولیات ۔ زیا دہ تر یونیورسٹیوں میں یہ مسئلہ عام ہے کہ ان کے پاس فیکلٹی
پوری نہیں ہوتی ۔اس صورت میں یونیورسٹی یا مدرسے سے ڈگری حاصل کرنے والوں
کو نوکری کی حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔ خاص طور پر مدرسوں سے فارغ
التحصیل طلباء کو دین دنیا دونوں کی تعلیم دی جانی چاہیے ۔ تاکہ وہ اپنا
گزر بسر بہتر انداز سے کر سکیں ۔ایسے واقعا ت میں عموماََ وہ عالم یا استا
د ملوث ہوتا ہے جو اپنی زندگی سے مطمعین نہ ہوں ۔
مسئلے کا حل یہ ہے کہ کوئی بھی استاد یا قاری رکھنے سے پہلے مکمل تحقیق کر
لیں ۔ بچوں سے اس کے بار ے میں پوچھیں ۔مختلف طریقوں سے اس کی نگرانی کریں
۔ بچوں سے پوچھنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں ۔ بہت اچھا ٹریک ریکارڈ نہ
رکھنے والوں کو شعبہ تعلیم سے منسلک نہیں کرنا چاہیے ۔آئمہ کرام ، استادوں
کی حالت بہتر بنانے کے لئے سب مل کر ان کی مدد کریں ۔ خاص طور پر امام مسجد
اگر مقامی نہ ہو تو اس کی فیملی کی رہائش کا بندوبست کرنا بھی مقامی لوگوں
کی ذمہ داری ہے ۔نظام انصاف میں موجود خامیوں کو دور کر کے اس طرح کے
واقعات میں ملوث ملزمان کو فوری اور بلا امتیاز سزائیں دینے سے اس طرح کے
واقعات میں کمی آسکتی ہے ۔ |