چارلی ہیبڈو کی نئی جسارت

فرانسیسی مزاحیہ جریدے کا عملہ اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے باوجود باز نہ آیا ۔ ایک بار پھر اس نے گستاخانہ خاکے شائع کر دیے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ گستاخانہ خاکوں پر مبنی یہ جریدہ 7 لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس جریدے کے عملے نے 50 لاکھ کاپیاں شائع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ عام جریدہ اگرچہ صرف فرانسیسی زبان میں ہوتا تھا ، لیکن گستاخانہ خاکوں پر مشتمل یہ جریدہ انگریزی اور عربی سمیت 16 زبانوں میں شائع کیا جائے گا ، جو دنیا بھر کے 25 ممالک میں فروخت ہوگا ۔

یہ ہے چارلی ہیبڈو کا نیا "کارنامہ" ، جس پر پوری مسلم دنیا سرا پا احتجاج ہے ۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تقریبا پوری مسلم دنیا غم اور غصے میں مبتلا ہے ۔ مسلم دنیا کے تمام بڑے بڑے ادارے اپنے اپنے انداز میں ان گستاخانہ خاکوں کی مذمت کر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ احتجاجات کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے ۔ پاکستان میں قومی اسمبلی میں گستاخانہ خاکوں کے بارے میں مذمتی قرار داد منظور ہو گئی ہے ۔ اس قرار داد میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس طرح کے مواد کی اشاعت کے خلاف کار روائی کرے ۔ العربیہ کے مطابق : "قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ''یہ توہین آمیز کارٹونز تہذیبوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ایک سازش ہیں۔چارلی ہیبڈو میں توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت اظہار رائے کی آزادی کے منافی ہے اور دین کا مضحکہ اڑانے کے لیے شائع کیا جانے والا مواد قابل مذمت ہے''۔قومی اسمبلی میں موجود ارکان نے اس قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری دی ہے۔" وزیرِ اعظم نے اس ضمن میں کہا ہے کہ عالمی برادری اشتعال انگیز مواد کی حوصلہ شکنی کرے ۔ کہا جارہا ہے کہ اس مذمتی قرار داد کی کاپیاں ملک میں موجود تمام غیر ملکی سفارت خانوں ، اقوام ِ متحدہ ، او آئی سی اور فورن مشنز کو بھیجی جائیں گی ۔

اس کے ساتھ ساتھ ارکان اسمبلی نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف احتجاجی مارچ بھی کیا ۔ جس کی قیادت وزیر ِ مذہبی امور اور ڈپٹی اسپیکر نے کی ۔ اس موقع پر سردار یوسف نے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ توہین آمیز خاکوں کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ یہ اظہار ِ رائے کا غلط استعمال ہے ۔ عالم ِ اسلام کے تمام ممالک اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں ۔

اگرچہ مسلمانوں کے دانشور ، علماء اور دیگر لوگ اپنے اپنے انداز میں مذمتی بیان دے رہے ہیں ، لیکن جس بیان نے سب سے زیادہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی ہے ، وہ پوپ فرانسس کا آزادی ِ اظہار ِ رائے کے بارے میں بیان ہے ۔ کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہہ دیا کہ آزادی ِ رائے کی بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں ۔ دوسروں کے مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی ۔ روزنامہ ڈان کی افیشیل ویب سائٹ کے مطابق : "سری لنکا سے فلپائن جاتے ہوئے ہوائی جہاز کے اندر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پوپ فرانس کا کہنا تھا کہ ہر مذہب کی ایک عزت اور تکریم ہوتی ہے اور آزادی اظہار رائے کی بھی کچھ حدیں متعین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'آپ کسی کو بھی اشتعال نہیں دلا سکتے، آپ کسی کے ایمان کی توہین نہیں کر سکتے۔'انہوں نے مثال دی تھی کہ 'اگر میرا بہترین دوست ڈاکٹر گیسپری میری ماں کے بارے میں برے جملہ کہے تو وہ جواباً مکے کی توقع کر سکتا ہے'۔"

حیرت انگیز طور پر امریکا اور اسٹریلیا نے چارلی ہیبڈو کے عملے کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے عمل کی حمایت کی ہے ۔ امریکا کے محکمہ خارجہ نے چارلی ہیبڈو کی طرف سے شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کی مذمت یا تنقید کرنے سے سراسر انکار کر دیا ہے ۔ امریکا کی محکمہ ِ خارجہ کی ترجمان میری ہرف نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا : "کسی کی ذاتی رائے سے قطع ِ نظر ہم چارلی ہیبڈو کے اس طرح کی چیزوں کو شایع کرنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں ۔" اسٹریلوی وزیر ِ اعظم ٹونی ایبٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اس کارٹون کی اشاعت کی حمایت کرتے ہیں ۔ انھوں نے اس حمایت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کارٹون میں معاف کرنے کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے ۔ اسٹریلوی وزیر ِ اعظم نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اگر چہ مذکورہ جریدے کی ہر اشاعت کو پسند نہیں کرتے ۔ البتہ اس کارٹون کی اشاعت کی حمایت ضرور کرتے ہیں ۔

یورپ میں کلیسا کا عمل دخل بہت محدود ہے ۔چارلی ہیبڈو کا عملہ پوپ فرانسس ، جو بلا شبہہ عیسائیت کی دنیا میں ایک اتھارٹی رکھتے ہیں ، کی بات کو یک سر نہیں مانے گا ۔ البتہ امریکا اور اسٹریلیا کی حمایت اس عملے کے جذبات کو ضرور جلا بخشے گا ۔ اس لیے وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا ۔ اور اس طرح کی سر گرمیاں جاری رکھے گا ۔ جس سے امن ِ عالم کے تہہ و بالا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ حالاں کہ اسے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر انسان کے عقائد کا احترام اس کا بنیادی حق ہوتا ہے ۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے عقائد کا احترام ہر دم ملحوظ رکھا جائے ۔ ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جس شخصیت کے ساتھ اس کا جذباتی لگاؤ ہے ، اس کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کرے ۔

چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا تو پیرس میں ایک ملین مارچ ہوا ۔ جس میں 40 ممالک کے مسلم ، عیسائی اور یہودی رہنماؤں نے شرکت کی ۔ اس ریلی میں فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند ، برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل ، اسرائیلی وزیر ِ اعظم بنیامین نیتن یاہو ، اور حیرت انگیز طور پر فلسطینی صدر محمود عباس ، اردن کے شاہ عبد اللہ دوئم اور ترک وزیر ِ اعظم احمد داؤد دوغلو نے شرکت کی ۔ یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ مراکش کے وزیر ِ خارجہ صلاح الدین میزور نے اس مارچ میں اس وجہ سے شرکت نہیں کی کہ ریلی کے کچھ شرکاء نے گستاخانہ خاکوں کے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے ۔

کیا ہی اچھا ہو کہ مسلم دنیا کے تمام حکمران بھی ایک ایسی ریلی کا انعقاد کریں ۔ جس میں اقوام ِ عالم سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ تمام پیغمبران ِ کرام علیہم السلام اور تمام مذاہب کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں ۔ تاکہ کوئی بھی آزادی ِ اظہار ِ رائے کے نام پر گستاخی کا مرتکب نہ ہو اور تہذیبوں کے تصادم سے بچا جا سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دیا جائے کہ مسلمان ، چاہے جیسے بھی ہوں ، اپنے آقاعلیہ السلام کی شان میں گستاخی کا ایک بول ، کجا گستاخانہ خاکے ، بھی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔اس لیے مسلمانوں کے جذبات کے احترام کو یقینی بنایا جائے ۔ میرے خیال میں مسلم دنیا کے حکمرانوں کے لیے اس طرح کی ایک ریلی کا انعقاد ذرا بھی مشکل نہیں ہوگا اور ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان یورپی اقوام سے یہ مطالبہ بہ آسانی منوا سکتے ہیں ۔ مگر اس کے لیے اتحاد شرط ہے ۔
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 146062 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More