اگرچہ آج کا موضوع ‘بیوفائی‘ ہے
لیکن چونکہ بیوفائی کا تعلق محبت سے ہے لہٰذا آغاز کلام ‘محبت‘ سے کیا جائے
گا محبت بے وفائی کی اور بے وفائی محبت کی ضد ہے اس لئے جہاں ذکر بیوفائی
کا ہوگا وہیں یقینی طور پر محبت کا تذکرہ بھی کیا جائے گا یعنی اس تذکرے
میں مقدم محبت ہی ہوگی بیوفائی نہیں وہ اس لئے کہ پہلے محبت ہوتی ہے اور
پھر بیوفائی (حالانکہ سمجھا جائے تو محبت کبھی بےوفا نہیں ہوتی) جب دو محبت
کرنے والے یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنے محبوب سے وابستہ توقعات پر پورا
نہیں اتر پاتا تو بیوفائی وجود میں آتی ہے جس کے نتیجے میں شکوے شکایات کے
بالآخر دو محبت کرنے والوں کے راستے جدا ہو کر دونوں کی محبت جدائی پر ختم
ہو جاتی ہے
محبت ایک بے غرض جذبہ ہے اور جہاں غرض نہ ہو وہاں غرض کے پورا نہ ہونے کا
شکوہ بھی نہیں ہوتا اور اگر محبت میں شکوہ ہو جائے تو پھر وہ محبت نہیں
بلکہ خود غرضی ہوتی ہے جذبہ محبت بے غرض ہی رہے تو پھر کسی کو کسی سے
بیوفائی کا شکوہ بھی نہ رہے محبت کرو تو پھر بے غرض ہو کر اور بے لوث محبت
کرو یہی محبت ہے اور یہی وفا شعاری ہے جو اپنے جذبوں میں سچا ہو اس کی محبت
میں کوئی غرض کوئی کھوٹ نہیں ہوتا اور اسی کی محبت کامیاب بھی رہتی ہے جو
محبت میں خود غرضی کا قائل نہیں ہوتا
محبت یہ نہیں کہ کوئی اپنے محبوب سے امیدیں، اغراض یا توقعات وابستہ کر لے
اور پھر محبوب ان توقعات پر پورا نہ اتر سکے تو اپنے محبوب پر بیوفائی کا
الزام لگا کر گلے شکوے کرنا سراسر توہین محبت ہے
محبت کا دعویٰ کرنے اور محبت کرنے میں فرق ہے
محبت تو سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر کسی کو چاہنے کا نام ہے اور چاہت کی
بنیاد بے غرضی ہے خود غرضی نہیں جب آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو کسی کے کہنے
پر یا کسی سے پوچھ کر نہیں کرتے بلکہ جو آپ کو اچھا لگتا ہے پسند آتا ہے
اپنی ظاہری یا اخلاقی خوبیوں کی وجہ سے اپنی پروقار شخصیت کی وجہ سے یا
اپنی خوبصورتی و خوب سیرتی کی وجہ سے تو اس میں آپ کے اپنے دل کی رضا ہوتی
ہے جس سے آپ محبت کرتے ہیں اس کے سر پر کوئی احسان نہیں ہوتا کہ آپ کسی سے
محبت کرنے کا دعویٰ کرنے کے بعد ہر معاملے میں اپنے محبوب کے حقدار بن
بیٹھیں اور آپ یہ چاہنے یا سمجھنے لگیں کے وہ آپ کا اور آپ اس کے ہیں باقی
سارے جائیں بھاڑ میں ۔۔۔ نہ یہ محبت نہیں خود غرضی ہے کہ آپ اپنے علاوہ
اپنے محبوب کے ساتھ کسی اور کی دوستی کا سایہ تک بھی برداشت نہ کرسکیں جیسی
محبت آپ کسی سے کرتے ہیں وہ بھی ویسی ہی محبت آپ سے بھی کرے اور اگر وہ
ایسا نہیں کر پاتا تو پھر آپ اس پر بیوفائی کا الزام لگانے کے مجاز نہیں کہ
اسے سنگ دل بے رحم بے مروت یا بیوفا جیسے القابات سے نوازنے لگیں
لفظ بیوفا ہر فرد کی قوت برداشت میں نہیں سما سکتا خاص طور پر ان لوگوں کے
لئے تو یہ لفظ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جو بے وفا نہیں بلکہ مخلص اور باوفا
ہیں لیکن وہ دوسروں کی خود سے وابستہ امیدیں ان کی خود ساختہ خواہشات کے
مطابق پوری نہیں کر پاتے یا ان کے لئے مناسب ہی نہیں کے وہ اپنے چاہنے
والوں کی ہر خواہش کو اس مروت میں پورا کر سکیں کہ کوئی ان سے اتنی چاہت
اور مروت رکھتا ہے تو کیوں نہ ان کی خوشی کے لئے وہی کچھ کرتے جائیں جیسا
وہ چاہتے ہیں نہیں تو کسی بیچارے کا محبت بھرا دل ٹوٹ جائے گا
عموماً کسی کو محبت ایسے ہی افراد سے ہوتی ہے جو واقعتاً چاہے جانے کے قابل
ہوتے ہیں ان میں ایسی صفات اور ایسی خوبیاں ہوتی ہیں جو دوسروں کو متاثر کر
کے ان کے لئے دوسروں کے دل میں جذبہ محبت پیدا کر نے کا باعث بنتی ہیں
ضروری نہیں کہ یہ خصوصیات ظاہری حسن و خوبی ہو بلکہ زیادہ تر اخلاقی و
روحانی خوبیاں ہی انسان کی شخصیت کو مسحور کن بناتی اور ان میں حسن و کشش
پیدا کرتی ہیں ایسے لوگ کسی ایک کے محبوب نہیں ہوتے بلکہ ان سے ملنے والا
ہر فرد انہیں عزیز رکھتا ہے اور وہ سب کے ساتھ ایک طرح کا رویہ یا سلوک
رکھتے ہیں ان کی محبت اور حسن خلق بلا تفریق سب کے لئے یکساں ہوتا ہے لیکن
چند نادان یا خود غرض لوگ ہر شے پہ ہر فرد پہ اپنا ہی اختیار یا حق سمجھنا
چاہتے ہیں
اب یہ محبت کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ ان لوگوں سے ایسی امیدیں وابستہ
کرنا چھوڑ دیں جنہیں محبوب رکھتے ہیں جن کا پورا کرنا ان کے محبوب کے لئے
مناسب نہیں یا اختیار میں نہیں آپ تو سوال کردیں گے لیکن آپ کے سوال کا
جواب نہ دے پانے پر آپ کے محبوب کو جو تکلیف جو پریشانی اٹھانا پڑتی ہے آپ
کو اس کا اندازہ نہیں اور وہ کون ہے جو خود اپنے ہاتھوں اپنے محبوب کو
پریشانی کا تحفہ دینا پسند کرے گا یقیناً کوئی اپنے محبوب کو خود اپنے
ہاتھوں پریشانی سے دو چار نہیں کرنا چاہے گا بلکہ اپنے محبوب کی ہر پریشانی
کا خود مداوا کرنا چاہے گا لیکن اگر کوئی کسی سے محبت کا دعویٰ کرنے کے
باوجود اپنے محبوب کو بیوفا کا خطاب دیتا ہے تو بیوفا محبوب نہیں وہ خود ہے
اس کی اپنی محبت میں کھوٹ ہے یا اس کی محبت محض محبت کا دعویٰ ہے حقیقی
معنوں میں محبت نہیں بیوفائی کا شکوہ تو وہی کرتا ہے نہ جسے محبوب سے اپنی
وابستہ امیدوں کے پورا نہ ہونے کا قلق ہو اور سچی محبت تو وہ ہے جو بے لوث
اور بے غرض ہے تو پھر بیوفا تو محبوب کو بیوفا کہنے والا ہوا محبوب تو کبھی
بیوفا نہیں ہوتا بلکہ اس کی وفا شعاری ہی دوسروں کے دل میں ان کے لئے جذبہ
محبت پیدا کرنے کا جذبہ بیدار کرتی ہے انہیں دوسروں کے لئے محبوب شخصیت
بناتی ہے تو پھر ۔۔۔۔ کسی کو بیوفا کہنے سے پہلے اپنی محبت اپنے خلوص اور
اپنی وفا کا بغور جائزہ لیکر اپنی محبت کی حقیقت جان کر ہی اندازہ ہوگا کہ
بیوفا کون ہے اور بیوفائی کیا ہے تو کوئی آپکو بے وفا نہ لگے
کسی کو بیوفا کہنے کے بجائے اپنے ہر معاملے کو خود سلجھانے، اپنی ذمہ
داریوں کو خود نبھانے اور اپنے اندر وفا شعاری خود بیدار کرنے کی کوشش کریں
اپنی مدد آپ کریں جو ذمہ داریاں آپ کی ہیں انہیں خود نبھائیں نہ کہ دوسروں
کے کاندھوں پر لاد کر یہ چاہیں کہ وہ آپ کے حصے کے تمام کام خود کرتے رہیں
جب جہاں اور جو کام بھی چاہیں آپ اپنے دوستوں یا چاہنے والوں سے کہیں اور
وہ سر جھکا کر کرتے چلے جائیں اور جہاں کہیں کوئی امید یا کوئی چاہت پوری
نہ کر سکیں آپ انہیں اپنی محبت یا دوستی میں بیوفائی کے الزام سے بلیک میل
کرنا شروع کر دیں یہ تو پھر آپکی دوستی ہے نہ محبت یہ الزام بیوفائی سراسر
زیادتی والی بات ہے جس کیوجہ سے آپ اپنے اچھے مخلص اور سچے دوستوں سے محروم
ہو سکتے ہیں سو خود اپنے جذبوں میں سچائی خلوص اور نیک نیتی تلاش کریں اور
خود کو قابل ستائش، قابل تعریف ہر دلعزیز، پسندیدہ یا محبوب شخصیت بنائیں
کسی کو بیوفا نہ کہیں اپنے اندر وفا تلاش کریں |