آفتوں کی کہانیاں جو حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں

انسان ہمیشہ سے ہی زمین پر زندگی کے خاتمے کے تجسس کا شکار رہے ہیں اور اس حوالے سے متعدد پیش گوئیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ اب قیامت تو اللہ کے طے کردہ دن ہی آنی ہے مگر ناولوں اور فلموں میں ایسے خیالات کو اکثر پیش کیا جاتا ہے جس میں دنیا سے زندگی کا خاتمہ ہوتے دکھایا جاتا ہے جو کہ اکثر سائنس فکشن تھیمز سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ مگر ان ہزاروں لاکھوں خیالات میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو دنیا کے لیے واقعی قیامت بن کر بھی سامنے آسکتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ ایسے خیالات ہیں جن کا حقیقی شکل اختیار کرلینا کوئی ناممکن چیز نہیں۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ دنیا میگزین کی شائع کردہ ہے-
 

ہائپر کین (انتہائی شدید نوعیت کا مفروضی سمندری طوفان)
جاپان کے ایک کارٹون شو ’’انوسینٹ وینس‘‘ میں دکھایا گیا تھا کہ پوری دنیا بار بار آنے والے ہائپر کین سمندری طوفانوں میں گھر کر رہ جاتی ہے۔ ان طوفانوں کے نتیجے میں پانچ ارب افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ دنیا بھر کی معیشتیں اور حکومتیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔مگر دہشت زدہ کردینے کے لیے یہ حقیقت کافی ہے کہ ہائپر کین نامی یہ سمندری طوفان نظری اعتبار سے بالکل ممکن ہے۔ یہ بات میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ فار ٹیکنالوجی کے ایک پروفیسر نے دریافت کی جس نے ہی ان طوفانوں کو ’’ہائپر کینز‘‘ کا نام دیا تھا۔ اس طرح کے طوفان سمندری درجہ حرارت 48.8 ڈگری تک بڑھ جانے کی صورت میں ہی آسکتے ہیں جن سے اٹھنے والی لہریں 64 کلومیٹر اونچی ہوسکتی ہیں اور کچھ تصورات یہ بھی ہیں کہ ایسا ایک طوفان زمین پر اب تک ریکارڈ کیے جانے والے سب سے بڑے سمندری طوفان سے 8 گنا بڑا ہوسکتا ہے۔ اس کے دوران چلنے والی ہوا کی رفتار 1200 میل فی گھنٹہ تک ہوسکتی ہے جو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کرسکتی ہے۔ مسئلہ صرف ایک ہائپر کین کا نہیں بلکہ یہ ایک سلسلہ ہوگا جو اس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک سمندری درجہ حرارت کم نہیں ہوجاتا۔

image


دَم توڑتا سورج
سائنس فکشن فلم ’’سن شائن‘‘ میں سال 2057 کا ایک تخیلاتی منظر پیش کیا گیا تھا کہ کیو بالز نامی پارٹیکلز سورج میں داخل ہوکر اس کی سطح کو کھا جاتے ہیں۔ اس فلم کے لیے سائنسی مشیر کا کام کرنے والے ماہر طبعیات برائن کوس کے بقول کیو بال کا نظریہ قابل عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ سورج کی اندرونی سطح کا تباہ ہونا تو ناممکن ہے مگر اس نظریے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی کائنات کے بارے میں کتنا کم جانتے ہیں۔ اگر سورج آہستگی سے مرنے لگے تو ہمارے کرہ ارض پر سب سے پہلے روشنی کا مسئلہ پیدا ہوگا، جیسا ابھی بھی پیدا ہونے لگا ہے اور ماضی کے مقابلے میں سورج کی شعاعیں زمین پر کم چمکتی ہیں۔ اگر زمین تک سورج کی روشنی میں کمی آئے گی تو مختلف حصوں میں سردی بڑھ جائے گی جس سے پانی کے بخارات بننے کا عمل بھی سست پڑجائے گا اور بارشیں کم ہونے سے قحط سالی بڑھے گی۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں سورج کی روشنی کم ہو رہی ہے اور زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے مگر ایسا کچھ عرصے تک ہی ہوگا اور اس کے بعد ہر چیز ٹھنڈی ہوتی چلی جائے گی اور ہم آئس ایج (برفانی دور) میں داخل ہوجائیں گے۔

image


آتشی بگولا
’’دیز فائنل آورز‘‘ نامی ایک آسٹریلین فلم میں دکھایا گیا تھا کہ ایک دُم دار ستارہ شمالی بحر اوقیانوس میں زمین سے ٹکراتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں زمینی سطح سے تہہ تک یعنی اوپر سے نیچے تک شدید آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے دوران زمین کے رہائشی اپنی زندگی کے آخری گھنٹے جشن مناتے ہوئے گزارتے ہیں کیونکہ آگ کی دیوار ان کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے۔ایسا کئی فلموں میں دکھایا جاتا رہا ہے اور ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایسا زمین پر پہلے بھی ہوچکا ہے۔کولوراڈو بولڈر یونیورسٹی کی ٹیم نے تحقیق کے بعد اس بات کو کہا تھا کہ دُم دار ستارے یا شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا جس سے آگ کی دیوار پیدا ہوئی جس سے درجہ حرارت 1500 ڈگری تک پہنچ گیا اور یہ دیوار ہوا کے ساتھ آگے بڑھتی چلی گئی اور دنیا بھر میں اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بارہ گھنٹے کے اندر جلا کر خاک کردیا اور ایسا ہزاروں لاکھوں سال قبل ڈائنوسارز کے عہد میں ہوا۔تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ زمین پر کسی اتنے بڑے سیارچے کے ٹکرانے کا خطرہ 2880 تک نہیں۔

image


عالمگیر سیلاب
اسٹیفن بیکسٹر کے 2008 میں شائع ہونے والے ناول ’’فلڈ‘‘ میں ایک ایسے سیلاب کی داستان بیان کی گئی تھی جس میں پوری دنیا غرق ہوجاتی ہے، شروع میں ہر ایک کا خیال تھا کہ ایسا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہورہا ہے مگر ایسا بہت تیزی سے ہونے لگا اور پانی کی سطح بہت بلند ہوگئی تو اندازہ ہوا کہ اس سیلاب کی وجہ کچھ اور ہے اور وہ تھی سمندری تہہ، جس میں زلزلوں سے زمین کے اندر چھپے ذخائر کا منہ کھل گیا اور بہت زیادہ پانی دنیا کو غرق کرنے لگا۔ دنیا کا سیلاب میں غرق ہونا تو حضرت نوحؑ کے واقعے سے ثابت ہے تاہم وہ تو عذاب الہیٰ تھا اور اس ناول میں جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ بھی کوئی افسانوی خیال نہیں۔درحقیقت زمین کی سطح میں ساڑھے چھ سو کلو میٹر گہرائی میں پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ پوشیدہ ہے جتنا سات سمندروں میں بھی نہیں جو کہ ایک معدنیات کے حصار میں بند ہے جو کسی زلزلے کے نتیجے میں کھل جائے تو کیا نہیں ہوسکتا؟ سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق اس جگہ اتنا پانی ہے کہ دنیا کے سمندروں کو تین بار بھرا جاسکتا ہے تو تباہی کا اندازہ خود لگالیں۔

image


دماغی لہروں میں انتشار
اسٹیفن کنگ کے 2006 کے ناول’’ سیل‘‘ میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا کا ہر موبائل فون ایک ہی وقت بجنا شروع ہوجاتا ہے اگر لوگ فون کو اٹھاتے تو ان کی دماغی لہروں میں انتشار پیدا ہوتا اور زومبیز (زندہ مردوں) میں تبدیل ہوجاتے اور ایک دوسرے پر حملہ کرکے قتل کردیتے۔ پھر سب لوگ فون اٹھا کر زومبیز بن جاتے ہیں جن پر ایک نامعلوم فرد کنٹرول کرنے لگتا ہے۔تو کیا ایسا حقیقی دنیا میں بھی ممکن ہے کہ ایک موبائل ہماری دماغی لہروں کو منتشر کرسکے؟ تو کچھ سائنسی تحقیقی رپورٹس کے مطابق ایسا پہلے ہی ہو رہا ہے ایک آسٹریلین یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ایک فون کا سگنل ٹھیک فریکوئنسی پر لوگوں کے رویے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ سر کے قریب رکھا ہو تو یہ لوگوں کے لیے سونا مشکل بنا دیتا ہے اور ابھی تو سائنسدانوں نے موبائل فونز کے دماغ پر اثرات کے بارے میں جاننا شروع کیا ہے۔اگر موبائل کی فریکوئنسی دماغ کے جذبات اور دھڑکن کنٹرول کرنے والے نظام پر اثرانداز ہوئی تو جسم میں ایڈرینالین نامی ہارمون کی مقدار بڑھنے سے غصہ بڑھنے لگے گا اور انسان کے اندر خودکشی کا رجحان پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

image


جرثوموں کا حملہ
مائیکل کریکٹون کے 1969 میں شائع ہونے والے ناول پر 1971 میں ایک فلم ’’دی اینڈرومیڈا اسٹرین‘‘ تیار کی گئی اور 2008 میں ایک ٹی وی سیریز بھی نشر ہوئی، جس کی کہانی میں دکھایا گیا تھا کہ ایک سیٹلائٹ ایری زونا کے قریب ایک چھوٹے قصبے میں گرتا ہے جس سے ایسے جرثومے تیزی سے پھیلنا شروع ہوجاتے ہیں جو خون کو گاڑھا کر کے انہیں لوتھڑا بنا دیتے یا انسان کو دیوانگی کا شکار کردیتے۔ تو کیا خلا سے کسی طرح کا وائرس زمین کے باسیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟ تو اچھی خبر تو یہ ہے کہ ابھی تک ایسے شواہد تو کہیں نہیں ملے کہ زمین سے ہٹ کر کہیں بیکٹیریا یا وائرس وغیرہ پائے جاتے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ خلاء کو دریافت کرنے والے ماہرین کو اس کا حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ماہرین کے خیال میں انسانی جسم زمینی امراض کے خلاف تو اپنے اندر دفاع کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے مگر ایک خلائی وائرس چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو درحقیقت انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ کارڈف یونیورسٹی کے ماہرین فلکیات کے تو خیال میں ایسا ہو بھی چکا ہے جب شہاب ثاقب کی دھول کے نتیجے میں لوگ بیمار ہوئے اور اسپینش فلو کی وباء پھیل گئی جس کے نتیجے میں 1918 میں کم از کم دو کروڑ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

image


عالمی قحط
کرسٹوفر نولان کی 2014 میں ریلیز ہونے والی سائنس فکشن فلم ’’انٹرسٹیلر‘‘ میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا سے خوراک کا خاتمہ ہونے لگتا ہے اور مٹی کے طوفان زمین کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نظام شمسی پر نیا سیارہ ڈھونڈنے کی مہم شروع ہوتی ہے جہاں انسانوں کو بسایا جاسکے۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ مٹی کے طوفان یا آندھی فصلوں کو سنگین نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں مگر ایسا بڑے رقبے پر نہیں ہوتا تو کیا ایسا عالمگیر سطح پر ممکن ہے؟تو جان لیں کہ بہت بڑے مٹی کے بگولے پہلے ہی چین اور شمالی افریقہ کے کچھ حصوں میں تباہی مچا رہے ہیں جبکہ ایک ہی جگہ جانوروں کے حد سے زیادہ چرنے کے باعث زرعی زمین بنجر ہوکر رہ جاتی ہیں۔آبادی میں اضافے کے نتیجے میں خوراک کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے اور ہمارے خوراک کے وسائل میں تبدیلی کی ضرورت ہے جس کے بغیر مٹی کے طوفان بدترین شکل اختیار کر کے دنیا بھر میں پھیل جائیں گے اور کھانے کی اشیاء کی پیداوار مزید کم ہوجائے گی۔

image

ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے والا وائرس
ڈینی بوائل کی زومبیز پر فلم ’’28 ڈیز لیٹر‘‘ (28 days later) میں دکھایا جاتا ہے ایک ایسا چھوت کا وائرس عام ہوجاتا ہے جو لوگوں کو ظالم قاتل بنا دیتا ہے اور یہ وائرس کسی کے کاٹنے یا خون بہنے سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے۔ اس طرح کا وائرس کتوں کے کاٹنے سے ریبیز کی جدید شکل لگتا ہے مگر ربیز کا اثر بھی دس دن سے ایک سال تک سامنے آتا ہے تاہم اصل خطرہ اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ربیز وائرس تبدیل ہوکر کوئی اور شکل جیسے فلو وائرس میں ڈھل جائے۔خوش قسمتی سے ربیز اور انفلوائنزا بالکل مختلف ہیں اور ایک دوسرے کی شکل اختیار نہیں کرسکتے مگر ڈینی بوائل کی فلم میں بھی وائرس کوئی قدرتی نہیں تھا بلکہ یہ ایک زیرزمین لیبارٹری کا کارنامہ تھا۔سننے میں چاہے ناممکن لگے مگر ایسا بالکل ہوسکتا ہے اور میامی یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق فلو وائرس کو ریبیز کے ساتھ ملا کر زیادہ وبائی مرض کی شکل دی جاسکتی ہے اور اگر اس میں خسرہ اور دماغی ورم کے وائرسز کے عناصر کو شامل کرلیا جائے تو یہ کسی فرد کو ایسے بخار میں مبتلا کردے گا جو اسے جارحیت پسند بنادے گا اور وہ قاتل عفریت کی شکل اختیار کرلے گا۔

image

انسانی ساختہ وائرس
فلم’’ ٹوئیلو منکیز‘‘ میں ایک انسانی ساختہ وائرس انسانی آبادی کا بڑا حصہ ختم کردیتا ہے اور باقی بچ جانے والے افراد زیرزمین رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس وقت دنیا میں ایسا کوئی وائرس نہیں جو انسانوں کی بڑی آبادی کا بیشتر حصہ ختم کردے یہاں تک کہ ایبولا بھی مگر اگر کوئی ایسا وائرس تیار کرلیا جائے جیسا اس فلم میں تیار کیا گیا تھا تو؟ بری خبر یہ ہے کہ سائنسدان ایسا پہلے ہی کرچکے ہیں مثال کے طور پر نیدرلینڈ کے ایراسموس میڈیکل سینٹر کی ایک تحقیقی ٹیم نے ایچ ون این ون وائرس کو زیادہ جدید شکل دے کر خطرناک حد تک متعدی بنا دیا جس کے نیولے کی نسل کے ایک جانور پر تجربات بھی کیے گئے۔خوفناک امر یہ تھا کہ متاثرہ جانوروں کی دس نسلوں بعد یہ مرض ہوا کے ذریعے دیگر صحت مند جانوروں کو بھی اس کا شکار بنانے لگا جس کے بعد سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ دنیا کے خطرناک ترین امراض میں سے ایک ہے کیونکہ ایچ ون این ون بمشکل ہی کسی ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتا ہے مگر ایسا ہوجائے تو وہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ ہوا کے ذریعے اس کا پھیلاؤ انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے اور اگر یہ انسانی ساختہ وائرس غلط ہاتھوں میں لگ جائے تو وہ اسے وباء کی شکل میں پھیلا کر کروڑوں افراد کو ہلاک کرسکتا ہے۔

image

الیکٹرو میگنیٹک (برقی مقناطیسی) دھڑکن
یہ 2012 کی بات ہے جب ’’ریوولوشن‘‘ نامی ایک ٹی وی سیریز میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا میں چلنے والی تمام برقی مصنوعات اچانک کام کرنا بند کردیتی ہیں اور ہر چیز بند ہوجاتی ہے اور پھر کبھی نہیں چلتی۔ایسا ہوتے ہی دنیا بھر میں معاشرے اور حکومتیں منہدم ہوجاتی ہیں اور دنیا 19 ویں صدی کے زمانے میں واپس پہنچ جاتی ہے اور زندگی کا خاتمہ ہونے لگتا ہے۔خوفناک امر یہ ہے کہ یہ کوئی افسانوی خیال نہیں بلکہ ایسا بالکل ممکن ہے اور دو طریقوں سے برقی مصنوعات کو ہمیشہ کے لیے روکا جاسکتا ہے، ایک تو برقی مقناطیسی دھڑکن جو کسی جوہری ہتھیار کو زمین کے مدار میں پھاڑنے کے نتیجے میں پھیل سکتی ہے اور اس کے لیے کسی بہت زیادہ طاقت کے وارہیڈ کی بھی ضرورت نہیں۔بس کسی چیز کے ذریعے اسے بالائی خلاء میں لے کر پھاڑنا ہے جس سے ممالک کے برقی گرڈز تباہ ہوکر رہ جائیں گے اور یہ خطرہ پایا جاتا ہے کہ چھوٹے ممالک جیسے شمالی کوریا بڑی طاقتوں کو اس طرح کے حملے کے ذریعے منہ کے بل گرانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ قدرتی ہے جو شمسی طوفانوں کے نتیجے میں زمین کو نشانہ بناسکتا ہے جس سے جوہری دھماکے جیسے ہی اثرات مرتب ہوں گے اور زمین کے متعدد حصے مہینوں یا برسوں تک بجلی سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس وقت انسان بجلی کا بہت زیادہ عادی ہوچکا ہے اور ہر چیز ہی الیکٹریکل گرڈ سے منسلک ہے اور اس پر پڑنے والے اثرات شہری آبادیوں کے رہائشیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ اس سے زندگی کا ہر شعبہ ہی متاثر ہوگا جیسے بینکنگ، مواصلات اور بنیادی اشیاء جیسے پانی و خوراک کا حصول وغیرہ۔ یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے کہ امریکی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے 2004 اور 2008 میں اپنی رپورٹس جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا ہونے کی صورت میں نوے فیصد امریکی شہری امرض، قحط اور معاشرے کے منہ کے بل گرنے سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

People have always had a morbid curiosity with the end of life on Earth. There are Biblical stories like Noah’s Ark that have natural disasters wiping out most of humanity. After World War II, the very real fear of nuclear annihilation brought out many books and movies that speculated about what the end of the world may look like if the bombs were dropped. In modern days, the fear has shifted toward environmental problems.