اقدار کا زوال

معاشرتی اقدار وہ تمام رویے ، رہن سہن کے انداز ، لباس ، رسم و رواج ہیں جو کسی بھی معاشرے میں رائج ہوتے ہیں ۔یہ اقدار سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں ۔اقدار معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں ،یہ معاشرے کا ایک عمومی رویہ ہے ہر معاشرے اور ہر مذہب کی اپنی الگ اور مخصوص اقدار ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے ایک معاشرہ دوسرے معاشرے کی نسبت ممتاز ہوتا ہے ۔۔اقدار ہی معاشرے میں کسی مخصوص رویے یا کام کو قابل ِ قبول یا قابل ِ اعتراض بناتی ہیں ۔اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ایک معاشرے کی اقدار دوسرے معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتی ۔بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک معاشرے میں جو رویہ قابل ِستائش ہے وہ دوسرے معاشرے میں قابلِ مذمت ہوتا ہے ۔اس تمام رویے کے ذمہ دار مخصوص معاشرے میں بسنے والوں کی سوچ ، ذہنی اور اخلاقی اقدار ہیں ۔ معاشرتی اقدار کا قانون کی صورت میں کہیں لکھا ہونا بھی ضروری نہیں کیونکہ یہ اقدار معاشرے کی روح میں رچی بسی ہوتی ہیں ۔ اقدار کی پابندی بالکل اسی طرح کی جاتی ہے جیسے کسی ملک کے آئین اور قانون کی ۔یہ اقدار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا معاشرتی تبدیلیوں کے باعث تبدل ہوتی رہتی ہیں۔یہ تبدیلیاں مثبت بھی ہوتی ہیں اور منفی بھی ۔ ان تبدیلیوں کا مثبت یا منفی ہونا بھی معاشرے میں رائج اقدار پر منحصر ہے ۔ان اقدار کے برعکس کام کرنے والوں کومخالفتوں کا سامنا بعض اوقات معاشرتی بائیکاٹ کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے ۔ ۔ ہر نسل چاہتی ہے کہ اس کی اقدارااگلی نسل میں منتقل ہو ں ۔معاشرتی اقدار میں مذہب کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔ہر مذہب کے ماننے والوں کے رہن سہن میں فرق اور بعض اوقات تضاد بھی ہوتا ہے ۔ہر مذہب لباس کے معاملے میں کچھ قواعد وضع کرتا ہے ۔گویا ہر معاشرے اور مذہب میں لباس کی بھی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ لباس ہی ہے جو ایک معاشرے کو دوسرے معاشرے سے الگ کرتا ہے ۔اسلامی اقدار میں عورت کی ایک اہم حیثیت ہے ۔عورت کے احترام کی خاطر اسے پردہ میں رہنے اور بوقتِ ضرورت اگر کا م کاج کرنا پڑے تو خود کو ڈھانپ کر باہر نکلنے کا حکم دیتا ہے ۔اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مرد ہو یا عورت دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سیکی پیروی نہ کریں اور ادنیٰ مشابہت سے بھی اجتناب کریں ۔ حضوپاک ر ﷺ کا ارشاد ہے "مشرکیں جو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ان سے اپنے ظاہر وباطن کو الگ رکھو "۔

مغربی تہذیب کی یلغار ہماری تہذیب پر بہت بری طرح اثر انداز ہوئی ہیں ۔اس یلغار نے ہماری تہذیب کو بڑی حد تک متاثر کیا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں بہت سی معاشرتی روایات دم توڑ رہی ہیں وہاں اسلامی اقدار بھی زوال پذیر ہو تی جا رہی ہیں ۔وہ عورتیں جو لباس اور دوپٹے کا خیال رکھتی تھی اب زیاد ہ سے زیادہ عریانی کو پسند کرتی ہیں۔ان دم توڑتی اقدار میں لباس اور بالخصوص دوپٹہ بھی ہے ۔ نئی تہذیب کی دلدادہ خواتین دوپٹے سے بے بہرہ ہو چکی ہیں ۔ اور ماڈرن کہلانے کے لیے آج کی عورت خود کو زیادہ سے زیادہ عریاں کرنا پسند کرتی ہیں اور ہمارے معاشرے کا مرد ایسی ہی خواتین کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔اور اس رویے کو معاشرے میں عام کرنے میں اہم کردار میڈیا بھی اداکر رہا ہے ۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صبح ہوتی ہے تو سوائے سرکاری ٹی وی چینل اور چند ایک پرائیوٹ چینل کے ،ہمارے ملک کے بیش تر چینلز پر مارننگ شوز کے نام پر ناچ گانا ، نیم عریاں ٹی وی اینکرز ، ستاروں کا حال بتانے والوں کے ساتھ ٹی وی پر نظر آتیہیں ۔ شوز ایک سے دو گھنٹوں پر محیط ہوتے ہیں اور ان تمام مارننگ شوز میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے ناچ گانا ۔ایک ٹی وی اینکر سے میری بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ" ہم وہی دکھاتے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں"۔ان کا یہ کہنا ہمارے معاشرے کی اخلاقی پسماندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔بجائے اس کے کہ دن کے آغاز میں تلاوت قرآن یا دینی تعلیمات کے پروگرام پیش کئے جائیں ہر چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ناچ گانے، عریانی یا نجومیوں کا سہارا لے رہا ہے جو کہ اسلام کے منافی ہے ۔ ان چینلز کو کنٹرول کرنے والا ادارہ پیمرا چینلز کے اس عمل پر ایک خاموش تماشائی بنا نظر آتا ہے ۔ ہمارے ملک کے برعکس ہر ملک ، یہاں تک کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں صبح کی نشریات کا آغاز ان کی مذہبی تعلیمات سے ہوتا اوران کا ہر چینل چاہے وہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ اپنے دن کا آغاز مذہبی پروگراموں سے کرتے ہیں اور ان کی صبح کا پہلا گھنٹہ مذہب کے لیے مختص ہو چکا ہے ۔

یہاں تک کہ ٹی وی چینلز میں علماء کا انٹر ویو کرتے ہوئے بھی خواتین اکثر و بیشتر مغربی لباس میں ملبوس ، دوپٹے کے نام پر کپڑے کی ایک دھچی یا دوپٹے سے عاری ہوتی ہیں ۔ دین کی تعلیم اور ملک میں اسلامی نظام عام کرنے کا دعوی ٰ کرنے والی جماعتوں کے ارکان ان خواتین پر کسی قسم کا کوئی کدغن نہیں لگاتے۔ چاہے وہ مذہبی جماعتوں کے نمائندے ہوں یا کوئی اور ،اینکرز کے اس طرح کے لباس پر کوئی احتجاج نہیں کرتا۔جو لوگ ملک میں خلافِ راشدہ کا نظام لانے کی بات کرتے ہیں وہ بھی ان اینکرز کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں ۔مغربی لباس میں ملبوس یہ اینکرز گھنٹوں علماء کرام ، اسلامی سیاسی جماعتوں کے ارکان سے انٹرویو کرتی ہیں یا ٹاک شوز کرتی ہیں ۔ لیکن ان پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی جاتی ۔ اگرعلمائے کرام اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ احتجاج کے طور پر یہ شرط رکھ دیں کہ وہ ایسے کسی پروگرام میں جس کی اینکر مغربی لباس میں ملبوس ہو یا بنا دوپٹہ کے نیم برہنہ ہو شمولیت اختیار نہیں کریں گے تو یقینا حالات میں بہتری آئے گی ۔چینلز بھی اس بات کا خیال کرنا شروع کر دیں گے ۔صرف ٹاک شوز نہیں بلکہ ٹی وی ڈراموں میں بھی مغربی لباس کی ترویج کی جارہی ہے اور دوپٹہ آہستہ آہستہ غائب ہوتا جارہا ہے جسکی وجہ سے معاشرے میں ایک عجیب سوچ پنپ رہی ہے کہ جو شخص پینٹ شرٹ میں ملبوس ہو گا اور جو عورت بے پردہ دوپٹہ سے عاری ہوگی وہ تعلیم یافتہ کہلائے اس کے برعکس اگر کسی مرد کی داڑھی ہوگی چاہے وہ دنیاوی تعلیم میں چاہے کتنا ہی آگے کیوں نہ ہو وہ دقیانوسی کہلائے گا ،اسی طرح جو عورت پردہ کرتی ہو گی وہ تعلیم سے بے بہرہ ،پچھلی صدی کی مخلوق اور دقیانوسی کہلائے گی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے خیالات کی جڑیں مضبوط سے مضبوط ہوتی جا رہی ہیں ۔ معاشرے میں منفی تبدیلی آ رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہا ہے ۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے ۔ کسی بھی پروگرام کے دوران چلنے والے اشتہارات میں عریانی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ انسان اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ سب دیکھتے ہوئے شرم سار ہو جاتا ہے ۔ اور یہ اشتہارات مذہبی پروگراموں اور سیاسی مذاکروں میں بھی چلتے ہیں ۔ان اشتہارات اور پروگراموں پر پیمیرا کو ایکشن لینا چاہیے کیونکہ اس قسم کے لباس اور اقدار کی تشیہرسے ہماری اگلی نسل میں پردہ اور اسلام سے بیزاری کے جذبات پنپ رہے ہیں ۔اور کمسن بچے جب اس قسم کے اشتہارات دیکھنے ہیں تو ان کے ذہنوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل نسل میں اسلام مخالف اور اپنی تہذیب سے بے زاری جیسے خیالات کوپنپنے سے روکیں اور لباس کے معاملے میں پابندی عائد کی جائے کہ ایسا کوئی فیشن ٹی وی میں نہ دیکھایا جائے گا جس سے نئی نسل پر برے اثرات مرتب ہوں ۔یاد رکھیے ! ہم اپنے بچوں کو جس ثقافت کا بچپن سے عادی بنائیں گے بڑے ہو کر وہی ثقافت ان کو اچھی لگے گی اور اتنا ہی اپنی طرف کھنچے گی۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164314 views i write what i feel .. View More