فیس بک ٗ سوشل میڈیا اور اسلام

 حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اﷲ تعالی نے پتھروں کی بارش کیوں کی ؟ یہ کہانی ہم قرآن پاک میں بھی پڑھتے ہیں اور اسلامی کتابوں میں بھی اس کا تفصیل سے ذکر موجود ہے کہ دنیا میں ایک قوم ایسی بھی آئی ہے جس نے قانون فطرت کے برعکس اپنی تسکین کے لیے ایسے ناپسندیدہ راستے اختیار کیے۔ جس پر چلنے سے اﷲ اور اس کے نبی نے انہیں منع فرمایا تھا۔ تخلیق آدم کی اپنی ایک حقیقت ہے اﷲ تعالی نے عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کرکے مرد اور عورت کے مابین محبت اور چاہت کا ابدی رشتہ استوار کیا ہے ۔اﷲ نے عورت کو مرد کالباس اورمرد کو عورت کامحافظ بنایا ہے ۔ مرد اور عورت کو اس لیے پیدا فرمایا تاکہ کائنات میں انسانوں کا وجود قیامت تک برقرار رکھا جاسکے پھر عورت مرد کے لیے تسکین اور راحت کا باعث بھی بنایا اور تخلیق انسانیت کا موجب بھی۔ کائنات میں بیلنس رکھنے کے لیے اﷲ نے کچھ قوانین مرتب کیے اور ان قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہر قوم پرنبی ٗ پیغمبر اور رسول دنیا میں آئے اور رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حضرت محمد ﷺ سب سے آخری نبی ہیں ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی دنیا میں ہدایت کا پیغام لے کر نہیں آئے ۔ نبی کریم ﷺ پر اﷲ تعالی نے قرآن پاک جیسی عظیم اور مقدس کتاب نازل فرمائی ۔ یہ ہدایت کا سرچشمہ بھی ہے اور مکمل ضابطہ حیات بھی ۔اس میں انسانی حیات اور پوری کائنات کے لیے رہنمائی کے اصول وضع کیے گئے ہیں ۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ قرآن پر ایمان نہ رکھنے والے غیر مسلم اور کفار بھی اس مقدس کی حقانیت کو سائنسی تحقیق کی روشنی میں تسلیم کرنے لگے ہیں ۔دنیا کے کچھ مذاہب دنیا کی زندگی کو ہی حتمی قرار دیتے چلے آئے تھے ۔انسان کی پیدائش کے کیمیائی اور طبیعاتی وجود پر تحقیق کرنے والے امریکی سائنسدانوں نے قرآن کے تصور موت و حیات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کو آسمان سے نازل کیاگیا ہے جبکہ موت کے بعد بھی زندگی ہے ۔امریکہ کے ایک فزیالوجسٹ ڈاکٹر الس سلور نے کتابی شکل میں شائع کی جانے والی اپنی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ انسان زمین میں نہیں بلکہ کہیں اور سے آیا ہے زمین پر انسان کی آمد کسی دوسرے سیارے یا آسمان سے آیا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے اپنی کتاب میں بے شمار مثالیں اور ثبوت پیش کیے ہیں اورکہا ہے کہ بلاشبہ اس کی یہ تحقیق مسلمانوں کی آخری کتاب قرآن مجید کی روشنی میں کی گئی جو 100سچ ثابت ہوئی ہے امریکی سائنسدان نے قرآن میں موجود آیات کا ترجمہ پڑھا جس میں زمین اور آسمان کی تخلیق کے علاوہ انسان کی تخلیق کے بارے میں بھی آیات موجود ہیں ۔جس پر انہوں نے متاثر ہوکر تقریبا 10 سال تک سائنسی انداز میں اس کی تحقیق کی اور بالاخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن پاک میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل سچ ہے انسان کی تخلیق اور اس کی موت ایک ایسی نادیدہ طاقت کے پاس ہے جواسے پیدا بھی کرتاہے اور اسے زندہ بھی کرے گا۔ رابرٹ لانزا کیمطابق موتکے بعد جب انسان کی روح پرواز کر جاتی ہے تو جسم میں کئی گھنٹے تک جان موجود ہوتی ہے جس کی طبی دنیا نے بھی تصدیق کی ہے ۔

اﷲ نے کا ہم پر بہت کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا فرمایا اور سب سے افضل نبی حضرت محمد مصطفے ﷺ کی امت میں شامل بھی فرمایا ۔ہمیں ایسا انبیاء کے امام حضرت محمد ﷺ میسر آئے جو زندگی کی آخری سانس تک بھی امتی امتی پکارتے رہے ۔آخری لمحات میں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اﷲ آپ سے آپ کی آرزو جاننا چاہتا تھا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری یہی خواہش ہے کہ میری زندگی میں میری امت کی بخشش کی ضمانت دے دی جائے ۔کہانی تو خاصی طویل ہے لیکن مختصریہ کہ اﷲ تعالی نبی کریم ﷺ کی آدھی امت کو جسمانی وصال سے پہلے ہی بخش دیا تھااور آدھی امت کی بخشش روزقیامت آپ کے سپرد کردی گئی آپ ﷺ جسے چاہیں بخشش دیں ۔

اپنی اس خوش قسمتی پر تو ہمیں ناز کرنا چاہیئے تھا اور ہمیں اپنی زندگیوں اور دنیاوی معاملات کو نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بنانا چاہیئے تھالیکن ہم نے وہ راستہ اختیار کرلیا جو جنت کی بجائے دوزخ کی طرف جاتا ہے ۔ایمان کے دو حصے ہیں اﷲ تعالی اور اس کے تمام انبیاء کرام ٗمقدس کتابوں پر کامل ایمان ۔ اسی طرح اگر انسان کی بنیاد ٹھیک بھی ہو لیکن اس پر اعمال کی صورت میں عمارت صحیح تعمیر نہ کی جائے تو زمین بوس ہوجاتی ہے ۔ مفتی محمد سلیمان قادری فرماتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ہر مسلمان جنت میں ضرور جائے گالیکن اپنے اپنے اعمال کی سزا اور جزا بھگت کے ۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ مرنے کے فورا بعد جنت میں پہنچ جائے گا لیکن جس مسلمان کے اعمال اچھے نہیں ہوں گے اور اس کی زندگی گناہوں میں گزر ی ہوگی اس کو اپنے گناہوں کا حساب دینا ہوگا ۔

عورت اورمرد کے رشتے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی طرح آج کے دور ہم جنس پرستی عروج پر دکھائی دے رہی فطرت کے برعکس یہ کشش ہمیں نہ صرف نبی کریم ﷺ سے دور کردے گی بلکہ قبر کو آگ سے بھرنے کے مترادف بھی ہے افسوس تو اس بات کا ہے ہم ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے ہیں اور ایک ایسے اندھے کنویں میں گرنے کی جستجو کررہے ہیں جہاں سے شاید کوئی بھی نہ ہمیں نکال سکے ۔جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے پوری دنیا کو ایک گاؤں کی شکل دے دی ہے اسی طرح فیس بک نے بھی 8 ارب انسانوں کو ایک لڑی میں پرو کر واقعی ایک کارنامہ انجام دیا ہے ۔فیس بک کس کی ایجاد ہے اور کس نے اپنی تحقیق سے اسے پوری دنیا میں ہردلعزیز بنادیا ہے اس سے مجھے کوئی سرو کار نہیں لیکن اس وقت میرا موضوع اپنی نوجوان نسل کاانتہائی تیز رفتاری سے بگڑتا ہوا مزاج ہے جس کو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فیس بک نہ صرف نوجوان لڑکیوں اورلڑکوں کے ملاپ کی آمجگاہ بن چکا ہے بلکہ انتہائی شریف اور مہذب گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکے اس پر اپنے اپنے جسم اور لباس کی نمائش کرنا فخر تصور کرتے ہیں ۔انسان جتنا بھی نیک سیرت اور مذہبی کیوں نہ ہو خوبصورتی سب کو بھاتی ہے اس لیے فیس پر خوبصورت لڑکیوں اورلڑکوں کے جال سے بچنا بہت مشکل دکھائی ہوچکا ہے ہر شخص ایک دوسرے کو گناہ کی دعوت دیتا ہوا دکھائی دے رہاہے لیکن جدید موبائل کے تیز رفتار نٹ ورک نے فیس بک کوہر انسان کی جیب تک پہنچا دیا ہے ۔ میں اس وقت حیران ہوتا ہوں کہ لاہور ٗکراچی ٗ سیالکوٹ ٗ گوجرانوالہ ٗ ملتان ٗ حیدر آباد ٗکراچی ٗ پشاور ٗ راولپنڈی ٗ فیصل آباد جیسے شہروں میں ہم جنس پرستوں(Guy) کے گروہ جنم لے چکے ہیں ۔جبکہ گرلز اور بوائے کالجز اور ہوسٹلز میں بھی ہم جنسی پرستی کی خبریں سننے کو برابر مل رہی ہیں ۔۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ معاشرے میں پہلے بھی ہم جنس پرستی کی لعنت کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے اور بطور خاص پشاور جیسے شہر میں تو کئی مرد حضرات لڑکوں سے نکاح کرنے کے لیے باراتیں بھی لے جاتے دیکھے گئے ہیں ۔ لیکن فیس بک پر جس طرح شہر شہر خوش شکل اور تعلیم یافتہ نوجوان کسی شرم اور پردے کے بغیر انتہائی آزادانہ ماحول میں ہم جنس پرستی اور جنسی جرائم میں ملوث ہورہے ہیں وہ واقعی لمحہ فکر ہے۔اگر کسی کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ کہہ کر خاموش کروا دیتا ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں مجھے نہ سمجھایا جائے۔ کوشش کے باوجود مجھے روزگار نہیں ملا ۔ مجبوری کے عالم میں نے یہ راستہ اختیار کیا اب میں پیسے لے کر لوگوں سے بدفعلی کرتا اور کرواتا ہوں اور میرا یہ پیشہ بن چکا ہے ۔

ایک اور تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ ماڈلنگ اور اداکاری کی آڑ میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں پھر شیشے میں اتار کر انہیں ایسے امیرزادوں کے سپرد کردیاجاتاہے جو ان کی عزت آبرو کی قیمت ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ماڈلنگ کے لیے لڑکوں اورلڑکیوں کو اشتہارکے ذریعے بلانے والے ادارے سے جب رابطہ کیاتو حیرت انگیز انکشافا ت سننے کو ملے ۔ اندر کے ایک شخص نے بتایا کہ ہم ماڈلنگ کا صرف اشتہار دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارا کاروبار لڑکیوں اورلڑکوں کو جنسی تسکین کے لیے بڑے بڑے لوگوں کو فراہم کرنا ہے ہم ایک لڑکی یالڑکے کو فراہم کرنے کے بیس سے تیس ہزار روپے لیتے ہیں اور دونوں پارٹیوں سے ملاقات کروا کے فارغ ہوجاتے ہیں باقی معاملات لینے اور دینے والے خود طے کرتے ہیں۔پھر فائیو سٹار ہوٹلوں میں انہیں لے جاکر رات رات بھر انسانیت کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں وہاں کام کرنے والے نے بتایا کہ ہم جنسی طاقت پیدا کرنے والی ادویات بھی امریکہ سے خود منگواتے ہیں جن کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے جتنا وقت لوگ جنسی تسکین حاصل کرناچاہتے ہیں وہ ہم سے ادویات خریدلیتے ہیں۔ پولیس جتنے بھی چھوٹے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز اور پارکوں پر چھاپے مار کر غریب لڑکیوں اور لڑکوں کو تو پکڑ کر ان سے رشوت کے طور پر ہزار وں روپے وصول کرکے چھوڑ دیتی ہے لیکن فائیو سٹار ہوٹلوں میں رنگ رلیاں منانے والوں کو پولیس پورے پروٹوکول کے ساتھ انجوائے کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے پولیس کے کسی اہلکار کی جرات نہیں کہ وہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں دن رات ہونے والے جنسی جرائم کو بھی گرفت کرسکیں ۔

گویا اس دور میں واقعی نیکی کرنا بہت مشکل اور گناہ کرنابہت آسان ہوتا جارہاہے ۔پہلے لڑکے اور لڑکی کوملنے کے لیے بہت مشکل راستوں سے گزرتا پڑتاتھا لیکن فیس بک نے نوجوان نسل کی یہ مشکل اس حد تک آسان کردی ہے کہ لڑکیاں خود کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ کون ہمیں لائق کرے گا ۔ اگر میں آپ کے پاس ہوں تو آپ مجھے بہن بنائیں گے بیوی بنائیں گے یا محبوبہ ۔ شرم و حیا کا تو جنازہ ہی نکل چکا ہے اس قدر بے باکی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ایک لڑکی کو میں نے فیس بک پر دیکھا جو پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ میں گھر میں اکیلی ہوں کون میرے پاس آئے گا ۔ اور اپنے اپنے انداز میںComments کرنے والوں کی قطار لگی ہوئی تھی کہ میں بھی آرہاہوں ۔ بے راہ روی کی جوآگ فیس بک اور انٹرنٹ پر بھڑکائی جارہی ہے اس کے نتائج معاشرے میں نہ صرف سامنے آرہے ہیں بلکہ ہر گھر کی دہلیز تک اس آگ کے شعلے پہنچتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں پھر ہماری آنکھیں بند ہیں۔

ابھی 17 جنوری 2015ء کے نوائے وقت میں ایک حیرت انگیز خبر شائع ہوئی ہے ۔ تفصیل کے مطابق لاہور سے ملحقہ شہر رائے ونڈ کی ایک پرائیویٹ اکیڈمی کے کلاس روم میں دو لڑکیوں کی نعشیں برآمد ہوئیں۔ پولیس کے مطابق دونوں نے نشہ آور گولیاں کھاکر خودکشی کی تھی ۔ یہ دونوں لڑکیاں نہ صرف گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج میں ایف ایس سی میں ایک ہی کلاس میں زیر تعلیم تھیں بلکہ آپس میں بہت گہری محبت کرتی تھی جس کادونوں لڑکیوں کے والدین کو بھی علم تھا ۔یورپ میں تو لڑکی ٗ لڑکی سے اور لڑکا ٗ لڑکے سے شادی کا رواج عام ہوچکاہے لیکن پاکستان میں ابھی کچھ اخلاقی قدریں باقی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں سہلیوں میں زندگی میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ ملنے کی بنا پر خود کشی کی ہے ۔اس سے پہلے لاہور کے ایک معروف گرلزکالج کے باتھ روم میں دو لڑکیوں کی بالکل ننگی نعشیں ملی تھیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان دونوں لڑکیاں نے جنسی تسکین حاصل کرنے والی ادویات کا حد سے زیادہ استعمال کررکھا تھاجو موت کا باعث بنا ۔اسی طرح کا ایک مقدمہ لاہورہائی کورٹ میں بھی چند سال پہلے زیر سماعت رہ چکا ہے ۔فیصل آباد کی دو لڑکیاں ایک دوسرے کو اتنا پیار کرتی تھی کہ گھر والوں کے مرضی کے برعکس وہ جدا ہونے کانام نہیں لیتی تھیں انہوں نے آپس میں شادی کرنے کافیصلہ بھی کرلیا تھا اس مقصد کے لیے فیصل آبادکے کلینک سے ایک لڑکی نے اپنے تین آپریشن کروا کر مرد بننے کی جستجو بھی کی اور دوسری لڑکی سے باقاعدہ نکاح بھی کرکے اکٹھے رہنا بھی شروع کردیا تھا ۔جب یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں پہنچا تو وہ لڑکی جو لڑکا بنی تھی اس کے والد نے عدالت کو بتایا کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ دونوں لڑکیاں ہیں۔ پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کے مطابق ان کی شادی کیسے ہوسکتی ہے ۔ جب عدالت نے طبی معائنہ کروایا تو والد کی بات سچ ثابت ہوئی لیکن دونوں لڑکیاں ایک دوسرے کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرتی تھی بعد میں پتہ نہیں اس مقدمے کاکیا فیصلہ ہوا لیکن معاشرے کے بگڑتے ہوئے مزاج کی ایک ادھوری تصویر ضرور تھی ۔

اسی طرح کاایک اور کیس تھانے اور کیس سیشن جج کی عدالت میں پہنچا ۔ انگلینڈ میں ایک پاکستانی نوجوان زیر تعلیم تھا وہ فارغ التحصیل ہوکر جب لاہور پہنچا تو گھر والے اس کی شادی کااہتمام کرنے لگے ۔ اس لڑکے نے انکار کرتے ہوئے صاف لفظوں میں والدین کو بتایا کہ اس نے انگلینڈ میں ایک لڑکے کے ساتھ شادی کرلی ہے اور وہ انگلینڈ میں میاں بیوی کی حیثیت سے بہت عرصہ اکھٹے رہتے بھی رہے ہیں۔یہ حیرت انگیز انکشاف والدین کے واقعی تشویش کا باعث تھا انہوں علمائے کرام سے رابطہ کیا اورلڑکے کو سمجھایا کہ اسلام میں لڑکا ٗ لڑکے سے شادی نہیں کرسکتا بلکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے لیکن وہ لڑکا اپنی بات پر قائم رہا۔ سیشن کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا پتہ نہیں اس کاکیا فیصلہ ہوااخبارات میں پھر اس کی تفصیل شائع نہیں آئی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین "اسلام" ایسی خرافات سے بچنے کی ہرممکن تلقین کرتا ہے ۔ہم جس نبی ﷺ کی امت ہیں وہ ہماری بخشش کے لیے زندگی کی آخری سانس تک اﷲ تعالی سے التجائیں کرتے رہے لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود اپنے بدکرداری ٗ بدفعلی اور جنسی تسکین کے غیر فطری راستے اختیار کرکے نہ صرف اپنے نبی کریم ﷺ کی ناراضگی مول رہے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی خراب کررہے ہیں ۔پھر ایڈز جیسی بیماریاں جو پہلے امریکہ اور یورپ میں تباہی پھیلاتی رہی ہیں اور ہزاروں انسانوں کو موت کی وادی میں اب تک دھکیل چکی ہیں کیا ہم خود ایسی موذی بیماریوں کو غیر فطری تسکین حاصل کرکے دعوت نہیں دے رہے ۔پھر ہمارا ایمان ہے کہ موت کے بعد بھی ایک نہ ختم ہونے والی زندگی ہے جس میں موت نہیں آئے گی ہر شخص کو سزا اور جزا بھگتنی ہوگی ۔ کیا یہ ہمارے بدترین اعمال موت کے بعد والی زندگی کو تباہ کرنے کا باعث نہیں بنیں گے ۔ہم کس منہ سے نبی کریم ﷺ سے شفاعت کے طلبگار ہوں گے ہم کس طرح اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے ۔ لیکن ایسے گناہ کا ارتکاب کرنے والی نوجوان نسل کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے وہ اندھوں کی طرح آگے سے آگے جنسی تسکین حاصل کرنے کیلیے بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔

اسلام میں نہ صرف عورتوں کو جسمانی اعضا کو پردے میں رکھنے کی سخت ترین تاکید کی گئی ہے حتی کہ زمین پر نرمی سے پاؤں رکھنے کے لیے بھی کہا گیا تاکہ پاؤں کی چھنکار کی آواز غیر محرم مرد کے کانوں تک پہنچ کر اسے گناہ پر مائل نہ کردے اسی طرح مرد کو بھی حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی نگاہیں نیچی کرتے ہوئے چلنے کی تلقین فرمائی گئی ہے لیکن فیس بک پر اور انٹر نٹ نہ صرف بے لباس مرد جا بجا دکھائی دیتے ہیں بلکہ اپنے جنسی اعضا کی نمائش اور پیمائش کرتے ہوئے غیر فطری کاموں میں خود کو دانستہ مصروف عمل دکھانا چاہتے ہیں جو نہ صرف ان کے لیے سخت ترین گناہ کا موجب بھی ہے بلکہ دیکھنے والوں کو بھی گناہ کی طرح مائل کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ پہلے والدین عزیز و اقارب سے ڈرلگتا تھا کہ کہیں انہیں نہ ہوجائے لیکن آج کی نوجوان نسل تو والدین کو چھوڑ کر کسی سے بھی ڈرنے کا تصور دل میں نہیں لاتی بلکہ قدم قدم پر خود بھی دوسروں کو گناہ کی ترغیب دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ میں نے سیالکوٹ کے ایک ایسے نوجوان کو کہا کہ تمہیں اس بات کا علم نہیں کہ تم کیا کررہے ہو اسلام میں اس کی کتنی سخت سزا ہے اس نے مجھے یہ کہتے ہوئے لاجواب کردیا کہ اب گناہ گناہ نہیں رہا بلکہ فیشن اور فن بن گیا ہے اب سیکس معاشر ے میں عام ہوچکا ہے۔میں نے کہا کیا آپ اپنی بہن بھائی اور ماں باپ کو بھی ایسا کرتا ہوا دیکھنے کی جرات کرسکتے ہو ۔ میں نے کہا آپ کیا کہہ رہے ہیں کیا قیامت برپا ہوگئی ہے یہ تو قیامت کی بہت بڑی نشانی ہے ۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ نوجوان نسل کسی بھی ملک کا سرمایہ قرار پاتی ہے کیونکہ اس نے آگے چل کرملک کی بھاگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے اگر ہماری نوجوان نسل ہی جنسی تسکین اور جنسی جرائم میں ملوث ہوکر تباہ ہوگئی تو پاکستان کو کون بچائے گا۔ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ اتنا تیزی سے پھیل رہا ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگانے کو جی چاہتا ہے ۔ خدا خیر ہی کرے یہ جنسی بے راہ روی کی آگ نہ جانے کتنے گھروں کو جلا کر راکھ کردے گی ۔ حکمرانوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ نوجوان نسل یا تو جرائم میں ملوث ہورہی ہے یا جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر اپنی ہی بربادی کا خود سامان کررہی ہے ۔ اس سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ نہ صرف فیس بک پر ایسے ہیجان خیز تصویروں اور سائٹس کو بند کردیاجائے جو دوسروں کو بھی گناہ کی ترغیب کا باعث بن رہی ہیں بلکہ ایسے بیہودہ کاموں میں ملوث نوجوانوں کو برین واشنگ کے لیے اسلامی مراکز میں کچھ عرصے کے لیے بھجوا دیاجائے ۔نائٹ کلبوں ٗ مساج سنٹروں ٗ گیسٹ ہاؤسسز اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں جنسی تسکین کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں حکومت ملازمتوں پر پابندی ختم کرکے نوجوان نسل کے کاروبار اور ملازمت کا اہتمام کرے ۔ اگر حکومت اسی طرح چشم پوشی کا مظاہرہ کرتی رہی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمار ا پاکستان جنسی بے راہ روی اور غیر فطری تسکین کے معاملے میں امریکہ اور یورپ سے بھی آگے نہ بڑھ جائے اور یہ جنسی بے راہ روی کا شکار بیمار ملک نہ بن جائے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.