ماتم کدہ

شہنائی کی گونج نے سب کو بارات کی آمد سے آگاہ کردیا ۔فاروق کے گھر( چائنہ سکیم لاہور ) میں رنگ برنگی روشنیوں اور قمقموں کی برسات تھی فاروق کی بیٹی نرگس کی آج شادی تھی دور و نزدیک سے مہمان آچکے تھے ۔فاروق آج بہت خوش تھا یہ دن دیکھنے کے لیے اس نے نہ جانے کب سے تیاری کررکھی تھی وہ ایک فیکٹری میں ملازم تھا اسے مہینے بعد جو تنخواہ ملتی اس میں سے بھی کچھ نہ کچھ بچا کر وہ جمع کرتا رہا اس کے باوجود کہ اس کی تنخواہ بہت کم تھی لیکن وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنی بیٹی کے لیے دنیا کی ہر نعمت نچھاور کردینا چاہتا تھا ۔گھر میں تین وقت کی بجائے دو وقت کھانا پکتا ۔ لوگ پوچھتے تو کہتا جب میں بیٹی کو اس کے اپنے گھر بھجوا دوں گا تب پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں گا ۔

وقت گزرتا رہا وہ بیٹی کے لیے جہیز اکٹھا کرتا رہا۔ دسمبر 2014 کی آخری عشرے میں شادی کی تاریخ طے ہوئی ۔ پھر وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب فاروق کی بیٹی نرگس کی مہندی کو لگانے کی تقریب کا آغاز ہوا۔ نرگس کی سہیلیاں اور محلے کی عورتیں سب مل جل کر شادی کے گیت گا رہی تھیں نرگس پیلے رنگ کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی نرگس کی ماں فرزانہ بیٹی کی بلائیں لے رہی تھیں ۔ وہ ایک ایک لمحے کو یادگار بنا دینا چاہتی تھی ویڈیو والے مہندی کی فلم بنا رہے تھے عزیز و رشتہ دار سبھی خوب جشن منا رہے تھے ۔ رات گئے تک مہندی کی تقریب جاری رہی ۔ نرگس اپنے ارمانوں اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے تیار تھی ۔سہیلیاں ڈھولک بجا بجا کر اپنی خوشی کا اظہا رکررہی تھیں ۔

رات کے پچھلے پہر مہندی کی تقریب ختم ہوئی تو سب سونے کے لیے اپنے لیے مخصوص جگہ پر لیٹ گئے ۔ لیکن نرگس کو نیند کہاں آنی تھی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی تھی وہ اپنے ہونے والے شوہر خرم کو بہت اچھی طرح جانتی تھی وہ اس کی خالہ کا بیٹا تھا اور بنک میں اچھے عہدے پر کام کرتا تھا اس کے پاس اپنی کار بھی تھی وہ خوش لباس بھی تھا اور ہر دلعزیز بھی ۔ وہ جب اپنی خالہ ( نرگس کی والدہ ) کے گھر آتا تو بہت دیر تک بیٹھا رہتا اس کا واپس جانے کو دل نہیں کرتا تھا کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ رات اسی گھر میں ٹھہر جاتا اگلی صبح جب نرگس اپنے ہاتھوں سے بنایاہوا ناشتہ میز پر آراستہ کرتی تو خرم نہ صرف ناشتے کو انجوائے کرتا بلکہ چوری چوری نرگس کو بھی دیکھتا رہتا ۔ وہ حقیقت میں نرگس کو دل سے چاہنے والا تھا ۔وہ نرگس کو حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا چاہتا تھا ۔اس نے جب اپنی والدہ سے نرگس سے شادی کے حوالے سے بات کی تو والدہ نے رضا مندی کااظہار کردیا لیکن خرم کے والد کہیں شادی کرنے کاارادہ رکھتے تھے چنانچہ انہیں رضامند کرنے کے لیے خرم کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے ۔

بنک میں ہفتے میں دو چھٹیاں ہوتی تھیں اس لیے وہ ہفتے کی صبح ہی اپنے خالہ کے گھر آپہنچتا اور اپنے کزن ریحان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہوجاتا ۔ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت نرگس کے گھر گزارنا چاہتا تھا جب نرگس سے تنہائی میں ملاقات ہوجاتی تو وہ اسے سہانے خواب دکھانے لگتا۔ نرگس نہایت خاموشی سے خرم کی باتیں سنتی رہتی اور بولے بغیر اپنے ذہن میں مستقبل کے تانے بانے بنتی رہتی ۔نرگس خود بھی خرم کو دل و جان سے چاہتی تھی وہ کیوں نہ چاہتی خرم ہے بھی تو لاکھوں میں ایک تھا ۔ ایک لڑکی اپنی زندگی کے جوخواب دیکھتی ہے ان تمام خوابوں کی تعبیر خرم کی شخصیت میں موجود تھی وہ ہنس مکھ بھی تھا ملنسار بھی ۔ وہ ہر دلعزیز بھی تھا اور دوسروں کو اپنا بنانے کا فن بھی خوب جانتا تھا ۔

اگر خرم خوبصورت اور مضبوط قدو قامت کا مالک انسان تھا تو نرگس بھی کسی سے کم نہیں تھی وہ بھی اپنی سہلیاں میں چاند کی طرح الگ پہچان رکھتی تھی ۔کالج میں ہوتی تو کالج فیلو اسے ہر وقت گھیرے رکھتی جب وہ گھر پر ہوتی تو محلے کی سہیلیاں اسے تنہا نہ ہونے دیتیں ۔ وہ خوش لباس بھی تھی اور خوش گفتار بھی ۔ ہر وقت مسکراہٹ اس کے چہرے پر سجی رہتی ۔ وہ چھوٹے کو پیار اور بڑوں کی عزت کرنا خوب جانتی تھی ۔

اس نے لاہور کالج برائے خواتین سے بہترین نمبروں سے ایم اے کیا اور گھر کی خانہ داری میں مصروف ہوگئی ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے باوجود وہ خود کو ایک عام لڑکی ہی تصور کرتی تھی اس نے کبھی غرور نہیں کیا ۔ اس کے باوجود کہ نرگس کے والد کی تنخواہ بہت کم تھی اور نرگس کی والدہ گھر میں سلائی کڑھائی کاکام کرکے جہیز بنانے میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھی لیکن نرگس کو ماں نے شہزادیوں کی طرح پالا پوسا تھا ۔ ماں کی خواہش تھی کہ جہاں نرگس کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیئے وہاں گھر گرہستی کاہر ہنربھی آنا چاہیئے تاکہ سسرال میں جا کر اسے کسی کا طعنہ نہ سننے پڑے ۔ماں اور باپ کی خوشیاں خواب بن کر آنکھوں میں تیر رہی تھیں ۔وہ ان لمحات کے منتظر تھے جب ان کی لاڈلی بیٹی دولہن کا سرخ جوڑا پہن کر اپنے گھر روانہ ہوگی۔

خدا خدا کرے 27 دسمبر کے دن کا سورج طلو ع ہوا ۔نرگس نے آسمان کی طرف دیکھا تو یہ دن اسے پہلے سے زیادہ روشن دکھائی دیا ۔ وہ دل ہی دل میں یہ تصور کررہی تھی کہ آج کادن ماں باپ کے گھر اس کا آخری دن ہوگا ۔ اس کے باوجود کہ میں والدین کو ملنے تو وہ آسکتی ہے لیکن اس کااصلی گھر شوہر کا گھر ہی کہلاتا ہے ۔ بچپن کی باتیں ٗ گڑیوں سے کھیلنا ٗ سکول کی شرارتیں پھر کالج کی سہیلوں کی باتیں سب ایک ایک کرکے اسے یاد آرہی تھیں وہ کبھی کبھار قہقہہ مار کر مسکرا دیتی پھر گہری خاموشی اسے گھیر لیتی ۔ والدین کے گھر سے بیٹیوں کی رخصتی ٗ جنازے کی طرح ہی ہوتی ہے ۔والدین بیٹیوں کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اسے زمین پر پاؤں رکھ کر چلنا سیکھاتے ہیں پھر سکول بھیجتے ہیں کاپیوں کتابوں اور کھلونوں سے کھیلتی ہوئی بیٹی جب جوان ہوتی ہے تو اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی آرزو پروان چڑھنے لگتی ہے ۔

ناشتہ کرنے کے بعد فاروق شادی کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے لگا ۔ اسے بارات کا استقبال گھر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ایک نئے تعمیر شدہ شادی گھر میں کرنا تھا ۔ نرگس کو ایک کمرے تک محدود کردیاگیا تھا اس کمرے میں کسی غیرمحرم مرد کا داخلہ ممنوع تھا ۔ سہیلیاں ہی نرگس کی ضروریات کو پورا کررہی تھیں ۔ جب وہ نرگس کو کسی بات پر چھیڑتی تو نرگس رونے والا چہرہ بنا کر احتجاج کرتی جس پر سہلیاں قہقہہ لگا کر پورے گھر کو معطر کردیتیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا کہ شام ہوگئی ۔ نرگس کو بیوٹی پارلر لے جایا گیا وہاں اس کو دولہن کا روپ دینے کے ساتھ ساتھ اس طرح میک اپ کرایا گیا کہ دیکھنے والوں پر چاند کا گمان ہونے لگتا ۔ ماں نرگس کو دیکھ کر پھولی نہیں سما رہی تھی وہ خوش کیوں نہ ہوتی یہی دن دیکھنے کے لیے تو اس نے رات دن اتنی مزدوری کی تھی کہ اس کی کمر میں درد رہنے لگا تھا اس کی آنکھوں پر نظر کے چشمے بھی لگ چکے تھے کیونکہ آج اس کی لاڈلی بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر جارہی تھی نہ جانے کتنے ارمان دل میں تھے اس دن کو دیکھنے کے لیے ۔

سورج ڈھلتے ہی شام کے سائے زمین پر اتر آئے اب ہر شخص بارات کی آمد کامنتظر تھا فاروق شادی گھر کی انتظامیہ سے مل کر انتظامات کو حتمی شکل دے رہا تھا رات آٹھ بجے بارات کی آمد کا اعلان ہوئی شہنائی نے پورے ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ لڑکیاں بھاگتی ہوئی بارات کے استقبال کے لیے قطار بنا کے کھڑی ہوگئیں ان کے ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کی پتیاں تھیں انہوں نے گیندے کے پھولوں کے گجرے ہاتھوں میں پہن رکھے تھے اور سر پر گلاب کے پھول لگا رکھے تھے ہر چہرہ دکھاخوشی سے تمتا رہا تھا زرق برق جیسے چمکتے دمکتے لباس پہنے ہوئی لڑکیاں دولہے اور باراتیوں کااستقبال کرنے کے لیے تیار تھیں ۔

بارات کے آگے آگے چند نوجوان ڈھولک کی تھاپ پر خوب ناچ کر اپنی خوشی کا اظہار کررہے تھے ۔بینڈ باجے والے نوٹوں کی ویلیں وصول کرکے دھڑادھڑاپنے تھیلے میں ڈال رہے تھے ۔نرگس کے والد فاروق اور دیگر معزز ین استقبال کے لیے شادی ہا ل کے مین دروازے پر کھڑے تھے ۔ آتش بازی کا مظاہرہ زوروں پر تھا جونہی یہ مظاہرہ ختم ہوا تو استقبال شروع ہوا دولہے کے والد اعجاز اور دیگر معززین کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنا کر شادی ہال لایا گیا ۔

یہ شادی گھر ابھی نیا ہی تعمیر ہوا تھا ہر طرف خوبصورت روشنیوں کی جھنکار دکھائی دیتی تھی ۔ مولوی صاحب نے نکا ح پڑھوایا ۔ اس لمحے رات کے دس بج چکے تھے ۔ عزیز و اقارب باری باری دولہا دولہن کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے ویڈیو والے فلم اور کیمرے والے تصویریں کھینچ رہے تھے کہ آسمان پر بادلوں کے آوارہ ٹکڑے گردش کرتے ہوئے دکھائی دیئے ٗ اچانک تیز ہوا بھی چلنے لگی ۔کچھ ہی دیر بعدبارش کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ۔ جس سے ماحول میں کچھ تبدیلی محسوس ہوئی ۔اس کے باوجود کہ شادی ہال کا وقت ختم ہوچکا تھا اور ہال کے مالکان بار بار لائٹیں بند کرکے تقریب ختم کرنے کی جانب اشارہ کررہے تھے لیکن انسان جب حد سے زیادہ خوش ہوجاتا ہے تو پھر اسے کچھ یاد نہیں رہتا ۔لڑکی اور لڑکے ویڈیو کے سامنے تصویریں بنوانے میں مصروف تھے ۔

موسم کے تیور دیکھ کر ابھی نرگس کی رخصتی کے لیے تیاری ہوہی رہی تھی کہ شادی گھر کی وہ دیوار جس کے ساتھ سٹیج بنایاگیا تھا وہ دھماکے سے دولہا اور دولہن کے اوپر آ گری ۔چند لمحوں میں خوشیوں بھرا ماحول درد تکلیف اور سسکیوں میں بدل ہوگیا بچاؤ بچاؤ کی آوازوں نے ماحول کو سوگوار کردیا دیوار گرنے کی دیر تھی کہ چھت بھی مہمانوں پر گر گئی ۔ بجلی بند ہونے اور مسلسل بارش کی وجہ سے کوئی مدد کو نہیں پہنچ پا رہا تھا بارات اور لڑکی والوں کے بیشتر افراد دیوار اور چھت کے نیچے دب چکے تھے اور جو شادی ہال سے باہر تھے اندھیرے کے وجہ سے وہ بھی مدد کرنے سے قاصر تھے ایک شخص نے ریسکو والوں کو ایمرجنسی کال کی لیکن ریسکو والے بھی اس وقت آئے جب دولہن نرگس سمیت چھ افراد جان کی بازی ہار چکے تھے جبکہ دولہا اور بے شمار باراتی شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دیئے گئے ۔وہ پھول اور گلدستے جو فاروق نے اپنی بیٹی نرگس کو دولہن کے روپ میں دیکھنے کے لیے خریدے تھے انہی پھولوں کی چادر اوڑھ کر نرگس باپ اور بھائی کے کاندھوں پر سوار ہوکر قبرستان میں جا سوئی ۔ اس سانحے نے نرگس کے سارے خوابوں کو تنکوں کی طرح بکھیرکے رکھ دیا ۔جب بیٹی کا جنازہ اٹھا تو فاروق اور اس کی بیوی دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے بیٹی ہم تو تمہیں دولہن کے روپ میں اپنے گھر بھیجنے کی آرزو رکھتے تھے لیکن تم تو اس دنیا کو ہی چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا بسی ہو جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔نرگس کی ماں فرزانہ کے بین دلوں کو چیر رہے تھے ہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ نر گس کی سہلیوں کی چیخ و پکار دلوں کو چیر رہی تھی۔ایک دن پہلے کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ شادی گھر جو بہت خوبصورت اور روشنیوں سے منور دکھائی دے رہا ہے اس کی تعمیر اس ناقص ہوئی ہے کہ وہ شادی کی تقریب کو ہی ماتم کدہ میں بدل کے رکھ دے گا ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.