بخشَو پھوپھی

سلطان محمود کوثر ،وادی نیلم،آزادکشمیر

کچے مکان کی عقبی دیوار توڑتے ہوئے ایک پتھر لُڑھک کر احمد جوُ کے دائیں پاؤں کی انگلیاں زخمی کرگیا تو وہ بِلبِلا اُٹھا۔ اور میّت کی نحوست کانفرت بھرے الفاظ میں اظہار کرنے لگا۔ ’’ایہہ مرکے بھی جان نہ چھوڑسی ۔۔۔۔۔ہائے مر گیاں ۔۔۔۔۔ہائے مڑا پَیر ۔۔۔ہائے ۔۔۔‘‘۔ دیوار توڑنے میں مصروف دیگر افراد نے اُسے صبر کرنے ،زخم پر مٹی کا تیل ڈالنے کا ماہرانہ مشورہ دیااور خود جلدی جلدی کدالیں چلانے لگے۔ دیوار توڑکر اس میں سے جنازے والی چارپائی نکالنے جتنا راستہ بنالیا گیا۔ احمد جُو بَڑ بڑاتا ، لنگڑاتا ہو ازخم پر لِیر باندھنے چلا گیاتو موقع ملاحظہ کرنے مولوی جمعہ دین ہاتھ میں عصاپکڑے ایک بازو اور ایک دھاگے کی مدد سے گول گول موٹے شیشے والی عینک جس کی عمر مولوی صاحب کی عمر سے کچھ ہی سال کم ہوگی، ناک پر جمائے وارد ہوئے ۔ ٹوٹی دیوار کو بغور دیکھا اوراثبات میں سرہلاکر مرُید نما شاگردوں کا سہارا لئے جواُنہیں بازوں میں تھامے ہوئے تھے واپس مڑگیا۔

میّت کو غسل دینے کے لئے مولوی صاحب نے ساتھ کے گاؤں سے ایک خُنثّٰی بلانے کا حکم دیاتھا۔ اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ مدعو شخص کو غسل کے فرائض ترتیب سے بیان کرنے میں دِقت ہورہی تھی۔ جس پر وہ مولوی صاحب سے ناصحانہ مُغلظّات سن رہاتھا۔ دراصل مسئلہ تو مرنے والے کی پیدائش کے دن ہی پیدا ہوگیاتھا۔

خدا بخش کی پیدائش کے اگلے روز اُس کے خاندان بلکہ ، گاؤں بھر میں مشہور ہوگیا کہ اسد جُو کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد لڑکا ہے نہ لڑکی ۔ اگرچہ نانیوں دادیوں نے پیدائش کے فوری بعد مشاورت کرکے نومولود کو لڑکوں کے کپڑے پہنادئیے ،گاؤں بھر میں اسد جو کے گھر لڑکا ہونے کی منادی بھی ہوئی اور دودھ میں بنامکھن ملا میٹھا شیرہ بھی تقسیم ہوا۔ نومولود کانام بڑی بوڑھیوں نے مولا بخش رکھا۔ ا گلے چند روز میں اسدجُو کی کچھ بکریوں اور ایک مینڈھے کو شیر نے مار ڈالا۔ خود اسد جُو کو بڑا بخار چڑھ گیا ۔ چنانچہ خاندان والوں نے ذہنی طورپر طے کرلیا کہ سب نومولود کی نحوست کی باعث ہورہاہے۔ اُس سال اخروٹ اور ناشپاتی کی فصل معمول سے کچھ زیادہ ہوئی ۔تو اس پر خوش ہونے اور شکر ادا کرنے کے بجائے گاؤں کے بڑے بوڑھے طرح طرح کے خود ساختہ تحفظات اور خدشات کا اظہار کرنے لگے ۔

اسد جُو اور اس کی بیوی آئے روز بے بسی بھری ندامت کے ساتھ گاؤں والوں سے دبی دبی زبان میں اپنے بچے کی جنس پر طرح طرح کے تبصرے نیچی نظروں سے سنتے رہتے۔ تنہائی میں بارہا دونوں نے خد ا بخش کو چھاتی سے لگا کر آنسوبہائے۔ خاص کر ماں اُسے چومتی رہتی۔ اُنہیں خدا بخش سے دوسرے بچے کی نسبت زیادہ محبت ہوگئی تھی۔ ایسی محبت جس میں پیار کم اور ترس زیادہ تھا۔

وقت گزرتا گیا ۔ ننھا خدا بخش اب لڑکپن کی عمر کو پہنچ رہاتھا۔ اُسے احساس ہورہاتھاکہ کھیلتے وقت بچے اُسے عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس سے الگ ہوکر اکثر کھُسر پھُسر کرتے اور پھر قہقے لگاتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگ جاتے ہیں۔ اُس کا دکھ والدین کو بے چین کیے رکھتاتھا۔ اَسدجُو چاندنی راتوں میں خاردار جھاڑیوں سے بنے بکریوں کے باڑے کے قریب بنے مچان جسے ڈَنگا کہتے تھے، پر منہ آسمان کی جانب کئے اونچی آواز میں ’’ قینچی‘‘ اور ’’ماہیا‘‘ گاتا تواُس کا گلا رُندھ جاتا۔ کبھی کبھار تو وہ واقعی ہچکیاں لے لے کر رونے لگتا۔ خدابخش کی ماں چرخے کی چِیں چِاں والی لے َپر رات گئے پر سوز آواز میں ـ’’ میں صدقے کلمے والے توں، نبیؐ نوری چادر والے توں‘‘ ترنم کے ساتھ پڑھتی تو اُس کی گود میں سررکھ کر سوئے خدابخش کی نیند ماں کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسوؤں سے بار بار ٹوٹتی لیکن وہ ماں کے دُکھ سے بے خبر اپنے ننھے ہاتھ سے منہ رَگڑ، پہلوبدل کرپھر سوجاتا۔

عام طورپر گاؤں برادری میں کسی کی شادی کے موقع پر بچوں کا ناچناگانا بُرا نہیں سمجھاجاتا۔ مگر مولابخش کا ناچنا تومصیبت بن گیا۔ نہ جانے اُس روز اُس پر کیسا جنون سوارتھا۔ وہ ڈھول کی تھاپ پر اتنا ناچا کہ سب منہ میں اُنگلیاں دبا کر رہ گئے۔ اُس روز مولا بخش کو انجانا سا سکون محسوس ہورہاتھا۔ اُ س کا دل باربار ناچنے، اور ناچتے ناچتے پاگل ہوجانے کوچاہتاتھا۔ شادی تو ختم ہوگئی مگرمولا بخش او ر اس کے والدین کے لئے طعنے ، مِیہنٹریں اور پھَبتیاں چھوڑگئی۔

اس روز کے بعدخدا بخش کی ماں ،خصوصاً باپ کا رویہ عجیب ساہوگیا۔ وہ اُسے بات بات پر جِھڑکتے ۔ اپنے آپ کو کوستے اور کبھی کبھار بچے کو تھپڑبھی ماردیتے تھے۔ پہلے پِہل خد ابخش سخت اُلُجھن میں تھا کہ اس سے آخر خطا کیاہوگئی ہے جس پراُ س کے ساتھ یہ روّیہ رکھاجارہاہے۔ پر جب کُھلے کُھلے لفظوں میں اُس کے ہم جماعتوں ،دوستوں نے اُسے باجی ماسی کہنا شروع کردیا تو اُسے بات کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ۔ اسلئے کہ اب وہ زیادہ ایاّنا نہیں رہاتھا۔

گاؤں کے سکول میں بچوں کے لئے وہ سب سے دلچسپ کھلونا تھا۔ ہر بچہ اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے اور گال پر چُٹکی کاٹ کر یا آوازہ کَس کے مز ا لیتا۔ ماسٹر جی شکایت کرنے پر بچوں کو جُھوٹ مُوٹ ڈانٹتے اور زیرِ لب مسکر ادیتے ۔ مدرسے میں تنگ کیے جانے اور باربار شکایت کا مولابخش کے ابا نے یہ حل نکالا کہ اُسے سکول سے ہٹا کر اپنے ساتھ بکریاں چرانے لے جاتا۔ پہلے پہل تو اُسے سخت اُلجھن اور پریشانی ہوتی تھی۔ سکول چھوٹ جانے کا اُسے بہت قلق تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اُس نے حالات سے سمجھوتہ کرنے اور ہرتکلیف ، ہر اذیت برداشت کرنا سیکھ لیاتھا۔ وہ اَبّا سے اب اپنے ساتھ چرواہے لڑکوں کی بد تمیزی اورچھیڑخانی کی شکایت بھی نہ کرتا۔ بلکہ علیحدگی میں چپکے چپکے آنسو بہاکر اپنا بوجھ ہلکا کرلیتا۔ مولا بخش اب ان حالات میں ہِل سا گیاتھا۔

اب کے اُس کا ابّا بیمار رہنے لگا تووہ بکریا ں خود ہی چرانے سنبھالنے لگا۔ جنگل سے واپسی پر لکڑیوں کا بڑا گٹھّا لاتا۔ تاکہ گھر والوں کو خوش رکھاجاسکے۔ وہ زمینداری کے چھوٹے موٹے کام بھی جان مار کر کرنے کی کوشش کرتا۔ تاکہ کوئی اُسے خاندان پر بوجھ نہ سمجھے۔

سویرے سویرے بکریاں لے کر جب وہ پہاڑ پر پہنچتا تو اُسے لگتا کہ جنگل کے اونچے دیودار اور کائل کے درخت جھک کر اُس پر خندہ زن ہیں۔ اور پرندے اُس پر اسہتزا کرتے ، پھڑپھڑاتے، شریر بچوں کی طرح ادھر اُدھر بھاگ جاتے ہیں۔ وہ دیر تک اُن کو گھورتااور سوچتا رہتا کہ آخر ہر کوئی اُسے دیکھ کر کیوں ٹھٹھا اُڑاتاہے۔ پر اس سب کے باوجود اُسے شریر بچوں، ماسٹر جی ، درختوں اور پرندوں اور دوسرے مخول کرنے والوں سے نفرت کے بجائے اُنس ساہوگیاتھا ۔ اُس کا دل چاہتا کہ وہ ہر وقت اونچے ٹیلے پر بیٹھا بانسری کی دُھن پر ’’ ڈوریا‘‘ سناتا رہے اور جنگل جھومتا رہے۔
’’ لِہندی لِہندی لہہ گئی آں، پَا روں آیا کُو نجاں دا ڈَار
ہِک ڈَاروں میں ِنکھڑی، میرا کِتھے گیا نی ِ یار
کم عقلے ماڑئے گلَے دا ڈوریا‘‘

مولا بخش بکریوں کو پانی پلا کر دوبارہ چرنے کے لئے چھوڑ، دوپہر ڈھلے اونچی پہاڑی پر بیٹھ جاتا۔ بانسری ٹھوڑی کے نیچے جما کر وہ چپ چاپ پہاڑ کے دامن میں آباد اپنے اور گاؤں کے وسط میں واقع مدرسے پر نظریں گاڑے چھُٹی کا انتظار کرتا۔ جب اچانک سارے بچوں کا غول اُچھلتے کودتے باہر لپکتا تو مولا بخش کھِل اُٹھتا۔ اُسے ایسا لگتا کہ وہ بچوں کی ٹولے میں خود بھی شامل ہے اور دور سے اِن ننھے ننھے بونوں کو کھیتوں کے بیچوں بیچ اُچھلتے کودتے گھروں کی سمت جاتے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کرتا۔ اُسے لگتا جیسے بوُزنوں کی ٹولیاں اٹھکیلیاں کرتی جارہی ہوں۔ اور جب سارے بچے گھر وں تک پہنچ جاتے تو وہ بوجھل طبیعت کے ساتھ دوبارہ بکریا ں اکٹھی کرنے چل پڑتا۔

وہ جنگل سے واپسی پر ابّاکے ڈر سے بانسری نیفے میں اڑس کرچھُپارکھتا ، جسے اُس نے بڑی محنت سے بجاناسیکھا تھا۔ صرف اُسے اوراسکے رفیق چرواہوں کو معلوم تھا کہ بانسری سکھانے کی اس سے کیاقیمت وصول کی جاتی رہی۔ پھر بھی وہ اپنے استاد سے شاکی نہیں تھا۔ اب یہی بانسری اُسے کشاں کشاں جنگل تک لے جاتی۔ اور جب دور پہاڑ کی اونچی چوٹی پر چڑھ کر وہ اُسے بجاتا تو مولا بخش کو ساری مخلوق گریّاں محسوس ہوتی ۔ بارہا بانسری کی سریلی آواز پر وہ خودبھی آبدیدہ ہوجاتا۔

مولا بخش پہلے کب ’’ پھوپھی مولا بخش‘‘بنا ، اِ س پر تو کسی نے خاص دھیان نہ دیا ۔ مگر پھو پھی کہلانے پر وہ ذرا بھی جِز بِز نہ ہوتا۔ غالباً پھَبتیاں اور ’ ’ بخشو پھوپھی ، بخشو پھوپھی ‘‘ کے آواز ے سُن سُن کر اُ س کا ردِ عمل ظاہر کرنے کاجذبہ ہی ختم ہوگیاتھا۔ وہ جوان لڑکوں کی بے ہُودہ حرکات سے پریشان ہونے کے بجائے بے بس اور نیم مُردہ مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ جاتی۔ اُس نے اب سر پر چادر اوڑھنا شروع کردی ۔ پھوپی اپنے بچپن میں سیکھے ذِکر اذکار ، نماز روزے میں مصروف رہنے کی کوشش کرتی اور موقع پا کر مزاروں کے چکر بھی لگاتی۔ مگر اُسے مائی صاحبہ کے مزار کے اندر جانے سے مجاور خاتون نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ مزار کے اندر صرف خواتین جاسکتی ہیں۔ اور مسجد میں آنے سے مُلا نے باتوں باتوں میں متّنبہ کیاکہ صرف مرد ہی با جماعت نماز میں شامل ہوتے ہیں۔

ماں باپ کے گزر جانے پر پھوپھی قطعی بے آسرا ہوگئی۔ اس کی صحت گرتی جارہی تھی۔ وزن بھی مسلسل کم ہورہاتھا۔ کبھی کبھار اُلٹی کے ساتھ خون بھی آنے لگاتھا۔ جنگل جانا اور گھاس لکڑیاں وغیرہ لانا موقوف ہوگیا۔ مقامی ڈاکٹر نے پھوپھی کے بھائی سے رازدارانہ سرگوشی کی تھی کہ اُسے پھوپھی کے کینسر میں مبتلا ہونے کا شبہ ہے۔ لیکن ڈاکٹر کی توقع کے برعکس بھائی کے چہرے بُشرے پر تشویش کے کوئی خاص آثار نہیں دکھائی دیے۔ اگرچہ بڑا اور زرخیز قطعہ اراضی پھوپھی کی ملکیت تھا۔ مگر وہ اپنے آپ کو بے گھر اور خانماں برباد سمجھتی تھی۔ کسی نے پھوپھی کی گرتی صحت اور گزرتی عمر پر تبصرہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اُسے حج کرلینا چاہیے توپھوپھی کو جیسے اندھیرے میں روشنی کی نَوید مل گئی۔ اُس نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ حج پر جانے کی تیاری شروع کردی۔ اس کے بھائی نے جو پہلے مالی مدد سے انکاری تھا، اچانک ایک روز واری قربان جاتے ہوئے پوری مدد کرنے کا یقین دلادیا۔ کاغذات تیار ہوئے پھوپھی نے اپنی جمع پونجی پیش کی تو رقم کم پڑگئی ۔ اس مرحلے پر بھائی نے خم ٹھونک کر مدد کی اور غیر ضروری طور پر ایک بڑی رقم خرچے کے لئے بھی ساتھ لے لی ۔ نہ جانے کس مقصد کے لئے کئی اشٹام اور دیگر کاغذات پر پھوپھی کے انگوٹھے لگوائے گئے۔ حالانکہ روانگی میں ہفتہ عشرہ باقی تھامگر پھوپھی کا بھائی ابھی سے بہت اوتاوّلا ہورہاتھا۔

اُن دنوں پھوپھی کاکتا جس کا نام اُس نے ’’ بچارا‘‘ (بے چارہ) رکھا تھا، جسے اُس نے ٹکڑے بھورے کھلا کر آوارہ پلّے سے بڑا کیاتھا اور سارا دن پھوپھی کے آگے پیچھے رہتاتھا، رات مُنہ آسمان کی سمت کرکے درد ناک آواز میں دیر تک روتاتھا۔ بچارے کی اس حرکت نے گاؤں بھر کو سخت تشویش میں ڈال دیاتھا۔ کیونکہ اُن کے خیال میں بچارے کا اِس قدر درد ناک آواز میں رونا کسی بڑی پریشانی اورنحوست کی نشانی تھی۔ روانگی کے وقت گاؤں برادری والوں نے ٹھوڑی پکڑ پکڑ کر اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر اپنی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں پرمعافی مانگی تو پھوپھی دھاڑیں مار مار کر روتی او ر سب کو ماں باپ ،بھائی بہن کہہ کر اپنے لئے دعا کرنے کی دردمَند انہ درخواست کرتی رہی۔

بھائی کی معیّت میں پھوپھی حج کے لئے روانہ ہوئی تو وہی گاؤں والے جِن کی باچھیں اُسے دیکھتے ہی کھِل اٹھتی تھیں، مغموم ، نادم اور لُٹا لُٹا محسوس کررہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں اپنے رویّوں پرسخت شرمندہ تھے۔ پھوپھی سب سے الوداع ہوکر بھائی کے ساتھ کراچی روانہ ہوگئی کیونکہ چنددن بعد اُس کے جہاز کی روانگی کا گاؤں والوں کو بتایاگیاتھا۔ ہفتے عشرے بعد بھائی اُسے حج پر روانہ کرکے واپس گاؤں آگیا۔ اب گاؤں کی چاندنی راتیں پھوپھی کی دل نواز بانسری سے محروم، اداس اور گونگی ہوگئی تھیں۔ اور اس کا ہر باسی محسوس کرتا جیسے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی گاؤں اُجڑ ساگیاہے۔ ایسا اُجڑ اُجاڑ جیسے قبرستان۔۔۔۔

فلاحی تنظیم کے رضاکار اس بات پر سخت حیران تھے کہ ملنے والی بوری بند لاشوں میں سے ایک نے پہلے سے اِحرام نُما کفن پہنا ہواتھا جومکمل خُون آلودتھا۔ کیونکہ مقتول کو بوری میں بند کرکے گولیاں ماری گئی تھیں۔ مردہ خانے میں پھوپھی کی لاش گاؤں کے ایک مزدور نے پہچانی جو اپنے کسی گم شدہ ساتھی کی تلاش میں تھانے ، ہسپتال ،مردہ خانے چھانٹ رہا تھا۔ ۔۔۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51345 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More