’’چارلی ہیبڈو کی توہین رسالت ﷺسے خودکش حملے تک ‘‘
کے عنوان پر گذشتہ کالم میں میں نے عرض کیا تھا کہ توہین رسالت ﷺ کے حوالے
سے بعض شرعی اور فقہی مغالطے بھی پیدا کئے جا چکے ہیں مثلاََ کیا ہر غیر
مسلم کو ہر حال میں قتل ہی اس کی سزا ہے؟کیا یہ ہر مسلمان کا ذاتی فرض ہے
کہ وہ توہین کرنے والے سے انتقام لے لیں؟کیا توہین کے مرتکب فرد کا اگر
تعلق غیر مسلم ملک سے ہے تو کیا اس کو قتل کرنا بھی ہر صورت میں واجب ہے
؟سادہ سا مختصر جواب یہ ہے کہ جمہور ائمہ کے نزدیک توہین رسالتﷺ کا مرتکب
ہر حال میں واجب القتل ہے مگر اس کا فیصلہ کوئی فرد جماعت یا تنظیم نہیں
کرسکتی ہے بلکہ اس کا فیصلہ کرنے اور سزا دینے کی مجاز صرف اسلامی عدالت ہو
گی ۔غیر مسلم ممالک میں اسلامی سزائیں نافذ کیسے ہو سکتی ہیں اس کا تصور
محال ہے مگر اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ
وہ متعلقہ ملزم یا مجرم کا معاملہ براہ راست غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ
اٹھا کر انھیں توہین اسلام یا انبیاء علیہم السلام پر روک لگانے کے لیے
سفارتی سطح پر مجبور کرتے ہو ئے سزا دلانے کے لئے آمادہ کریں اور یہ احساس
دلائیں کہ اس طرح کی حرکتیں خوفناک نتائج کی جانب سارے عالم کو دھکیل سکتی
ہیں ۔
اسلام ایک کامل دعوت اور اکمل ترین نظام ہے ۔بدقسمتی سے اس کا نظام عدل
کہیں بھی اپنی کامل شکل میں نافذ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے
مغالطوں کا ایک سیلاب رواں دواں ہے اور بسااوقات یہ مغالطے تخلیق کرنے والے
علماء دین بھی ہوتے ہیں اور اکثر سیکولر اور لبرل کرم فرما ۔پھر یہ سمجھنا
دشوار ہو جاتا ہے کہ اسلام کیا ہے ؟مثال کے طور پر مولانا وحید الدین خان
صاحب نے اسی کے عشرے میں اسی موضوع پر دو سو سے بھی زیادہ صفحات پر مشتمل
کتاب لکھی ہے جس میں جناب نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن ،حدیث ،فقہ اور
اسلامی تاریخ میں شاتم رسولﷺکی سزا کہیں بھی ثابت نہیں ہے بلکہ یہ علماء کا
ذاتی اجتہاد ہے نہ کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ثابت شدہ کوئی سچ یا صحابہ
کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین کا کوئی ایسا عمل ،اور تو اور جناب یہاں تک
لکھتے ہیں کہ شاتم رسولﷺ کی سزا نہ فقہ سے ثابت ہے اور نہ ہی اسلامی تاریخ
سے۔ایسے مغالطے کو جہالت کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ حقائق و شواہد
کو ہی مسخ کردیا جائے ۔سوال خان صاحب کی ’’علمی خیانت ‘‘کا نہیں بلکہ اس
بات کا ہے کہ کیا 1426برس کے اندر اُمت مسلمہ میں ایک بھی عالم دین ایسا
پیدا نہیں ہو سکا جس کی نگاہ ’’جمہور علماءِ اسلام ‘‘کی’’جہالت یا دانستہ
خیانت ‘‘کی تہہ تک جاسکتی !یہاں تک کہ وحیدالدین خان صاحب آف انڈیا اور
ڈاکٹر جاوید غامدی صاحب آف پاکستان کا ’’وورود‘‘اس عالم فنا میں ہوا ۔خان
صاحب الرسالہ جنوری2015ء میں بھی رقم طراز ہیں :فقہ میں اتفاقِ رائے سے یہ
مسئلہ وضع کیا گیا ہے کہ شاتم رسول کو بطور حد قتل کردیا جائے ،مگر قرآن
میں سرے سے اس مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں ۔فقہ میں یہ قانونی دفع شامل کی گئی
کہ ارتداد کرنے والے کو قتل کردیا جائے ،مگر قرآن میں کوئی ایسا حکم سرے سے
موجود نہیں وغیرہ (صفحہ نمبر:27)
ایک جدید تعلیم یافتہ انسان خان صاحب کے ان اعتراضات سے کیا اثر لے سکتا ہے
سوائے اس کے کہ چودہ سو سال میں اہل اسلام دین کو صحیح طور پر نہیں سمجھ
سکے ؟کہ اچانک اعظم گڈھ کے ایک مولوی صاحب کی ’’خوردبین نگاہوں‘‘نے عقلی
اور علمی طور پر’’ کنگال ‘‘نامی اسلاف کی جرأت کا انکشاف فرما کر اُمت کو
گمراہی سے بچا لیا !!!یہی حال ڈاکٹر غامدی کا ہے کہ انھیں ساری خرابی علماء
میں نظر آتی ہے اور بے دریغ دینی اصطلاحات کا استحصال کرتے ہو ئے ان کا خود
ساختہ معنی پہنانیں میں کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔کاش خان
صاحب لکھتے وقت اپنی سانس روک کر دو منٹ کے لئے یہ بھی سوچتے کہ خود نبی
کریم ﷺ نے حضرت ماعز اسلمی ؓ اور حضرت غامدیہ ؓ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا
حالانکہ قرآن سے سنگساری کا حکم ثابت نہیں ہے تو کیا نعوذ باﷲ یہ’ حد‘ قرآن
میں نہ ہونے کی بنیاد پر غیر شرعی یا غیر اسلامی قرار دی جائے گی ۔خان صاحب
صاف طور پر احادیث کا انکار کر رہے ہیں مگر اس کا اعلان بھی نہیں کرتے ہیں
۔حیرت کیجیے احادیث کی اکثر کتابوں میں گستاخ رسولﷺ اور مرتد کے قتل پر
سنداََ،لفظاََور معناََ صحیح ترین احادیث کا ذخیرہ تو موجود ہے مگر خان
صاحب ان کے برعکس قرآن میں الفاظ صریح میں حکم موجود نہ ہونے کو بنیاد بنا
کران کے وجود سے ہی انکار فرما رہے ہیں ۔سنن ابو داؤد،سنن نسائی،مصنف ابن
ابی شیبہ،مصنف عبدالرزاق اور کنزالعمال نے اس پر اسی عنوان سے باب ہی قائم
کئے ہیں اور بلا عنوان صحیح بخاری ،صحیح مسلم سے لیکر مشکوٰۃ شریف تک ایک
بڑاذخیرہ موجود ہے مگر خان صاحب کو نظر نہیں آتا ہے یا آتا تو ہے مگر اپنی
منشاکے برعکس پانے کی وجہ سے قابل اعتنا تصور نہیں کرتے ہیں ۔خدا جانے یہ
کون سی فکر شرعی ہے جس میں پہلے مرحلے پرمخصوص مجموعہ الفاظ و محاورات اور
اصطلاحات ِدعوت اور اس میدان میں امت میں کمزوری کی آڑ میں 1400برس کے
علماء کو ہی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی سعی فرمائی جا رہی ہے ۔خان
صاحب جیسے عالم و فاضل کا یہ حق ہے کہ وہ علماء سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر
یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں ایک علماء کی آرااور اجتہادات سے اختلاف کرنا
دوسرا احادیث کا ہی انکار کرنا جس کی خان صاحب سے امید تو نہیں کی جا سکتی
تھی !براہو اُس مخصوص مائنڈسیٹ کا جس کے لئے خان صاحب دوسرو ں پر رونا رہتے
ہیں مگر خوداسی مرض میں بھی بری طرح مبتلا ہیں کہ وہ جو سمجھتے ہیں حتمی
،صحیح تراور اکمل ہے۔
اس بحث کے بعد ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں اس جرم پر با ضابط
قانون موجود ہے جو بسااوقات سیاسی اور سفارتی تعلقات کی وجہ سے متاثر
ہوجاتا ہے جو ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔رہی بات غیر مسلم ممالک کی جس میں
چارلی ہیبڈوکا صدر مقام فرانس بھی شامل ہے کے متعلق بھی فقہاءِ اسلام نے
بتفصیل بحث کی ہے کہ اگر غیر مسلم ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات قائم ہیں
اورفریقین حالتِ جنگ میں نہیں ہیں تو ہمیں بلند حوصلگی کے ساتھ فریقِ ثانی
کے ساتھ معاملہ اٹھانا چاہئے اور اس کے لئے جائز حدود میں دباؤ بڑھانا
چاہئے کہ وہ ایسے شخص کو سزا دیدیے جس نے نبی کریمﷺ کی توہین کا ارتکاب کیا
ہے ،نہ کہ کوئی اور غلط طریقہ واردات۔سلمان رشدی کے مسئلہ میں علماءِ اہل
سنت کو امام خمینی صاحب کے ساتھ اختلاف اسی بات پر تھا کہ اس بد بخت پر
انعام مقرر کرنے کے برعکس ایران کو سارے عالم اسلام کو ساتھ لیکر برطانیہ
کے ساتھ یہ مسئلہ شدت کے ساتھ اٹھانا چاہئے تھا۔اختلاف یہ نہیں تھا کہ آیت
اﷲ خمینی صاحب نے’’ مسئلہ توہین رسالت‘‘میں خدا نخواستہ کوئی غیر شرعی
فتویٰ جاری کیا ہے جیسا کہ وحید الدین خان صاحب امام خمینی صاحب کے ساتھ
ساتھ اس مسئلے پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب پر بھی اپنی کتاب
’’شتم رسول کا مسئلہ قرآن ،حدیث ،فقہ اور تاریخ کی روشنی میں ‘‘میں خوب
برسے ہیں اور مولانا مرحوم پرامام خمینی صاحب کے فتوے کی تائید کرنے پر
انتہائی سخت تنقیدکا نشانہ بناتے ہو ئے دونوں عالموں کے طریقہ کار کو
مجنونانہ فعل قرار دیا ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ خمینی صاحب کو اس وقت عالم
اسلام میں وہ مقام حاصل تھا کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اس مسئلے میں
ایک رائے پرکھڑا کر سکتے تھے بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پایا اس لئے کہ غیر
مسلم ممالک کا مسئلہ مسلم ممالک جیسا نہیں ہے ۔ معاملہ بالکل واضح ہے کہ
مغربی حکومتوں کے سفارتی دباؤ کے نتیجے میں مسلم ممالک اپنے قوانین پر عمل
کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ایسے مسلم ممالک طاقتور مغربی ممالک کو کس طرح
توہین رسالتﷺ کے مسئلہ پر ہمنوا بنا سکتے ہیں، خمینی صاحب کے وقت سلمان
رشدی کا معاملہ اگر حکمتاََ درست انداز میں ہینڈل کیا جاتا تو معاملے کی
نوعیت بدل سکتی تھی ،اس لئے کہ اس وقت شیعہ سنی اختلافات بھی آج کی طرح ہر
مسئلے پر چھایے ہو ئے نہیں تھے ۔مغربی ممالک میں توہین مسیح کا قانون نافذ
ہے اس میں صرف توسع کی ضرورت ہے اور وہ ’’ضدِ اسلام‘‘میں ایسے کرنے سے
پہلوتی اختیار کرتے ہیں ۔
علماء غیر مسلم ممالک میں توہین رسالت کے مرتکبین کے معاملے میں اس مسئلے
پر بھی متفق ہیں کہ کسی بھی فرد کے لئے یہ نامناسب ہے کہ وہ توہین کرنے
والے شخص کو از خود’’ذاتی طور پر‘‘ سزا دیدے اس لئے کہ اسلام حکومت اور
عدالتی معاملات کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ہاں یہ بات درست
ہے کہ آج تک توہین رسالتﷺ کے مرتکبین کو ذاتی حیثیت میں سزا دینے والوں کی
بھی علماء نے حوصلہ شکنی نہیں کی ہے اور نہ ہی ایسے افراد کے فعل کی مذمت
کی ہے کیوں؟اس کے اسباب سینکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ صرف ایک ہے اور وہ
نبی کریمﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ اُمت مسلمہ کی عقیدت و محبت، مسلمان ہر غلط
حرکت برداشت کرسکتا ہے نبی کریم ﷺ کی توہین نہیں، چاہیے کرنے والا مسلمان
ہو یا غیر مسلم ۔ایک اہم بات علماء کے لیے لائق توجہ ضرور ہے کہ دن بدن یہ
معاملہ سنگین رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے کوئی بھی مغربی شیطان کسی بھی آخری
حد کو چھوتے ہو ئے اُمت مسلمہ کو کسی بھی ناقابل برداشت حادثے سے دوچار
کرسکتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء اس حوالے سے
کوئی متفقہ لائحہ عمل سامنے لائیں اور اس بات پر بھی واضح رائے قائم کریں
کہ ذاتی حیثیت میں’’ توہین رسالت کرنے والے درندوں‘‘ کوسزا دینے کا معاملہ
شرعی طور پر کیا حیثیت رکھتا ہے تاکہ غلط فہمیوں کا غبار چھٹ جائے
۔نوجوانوں ،دینی تنظیموں اور جہادی تحریکات کو بھی اس مسئلے میں علماء کی
متفقہ رائے کا احترام کرنا چاہئے اس لئے کہ یورپ میں رہنے والے کروڑوں
مسلمانوں کی سکونت ،مال و جائداد،عزت و آبرو ایک اچھے اور نیک کام سے بھی
داؤ پر لگ سکتے ہیں جس کی تازہ مثال چارلی ہیبڈوپر حملے کے بعد یورپ میں
مسلمانوں کے خلاف سنگین ردعمل اور ان کے خلاف کئے جانے والے مطالبات کی دی
جاسکتی ہے ۔جرمنی میں باضابط مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنے کا مطالبہ
سامنے آچکا ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ماضی قریب میں یہودیوں کو بھی
عوامی مطالبات کے نتیجے میں انہی ممالک سے انتہائی ذلت اور خوفناک طریقے سے
نکالا جا چکا ہے اور مغربی معاشروں میں تب ایک بھی شخص ان کو اپنے ہاں جگہ
دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ مسلم ممالک کی پتلی حالت ہمارے سامنے ہے یہ لوگ
برما جیسے غریب ملک پر دباؤ ڈالکر مسلمانوں کو تحفظ دلانے میں ناکام رہے چہ
جائیکہ امریکہ،برطانیہ،روس،فرانس ،جرمنی اور چین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر بات کرنا اور اپنا موقف کی تائید کرانا۔
یہودی فتنہ ساز کبھی بھی ایک بڑے حادثے کے ذریعے اُمت مسلمہ کے لئے آگ
بھڑکا سکتے ہیں ۔اس لئے کہ شران کی فطرت اور سرشت میں پڑا ہوا ہے ۔گیارہ
ستمبر کے فتنے پر غور کیجیے کہ اس کے سارے برے اثرات صرف مسلم ممالک پر پڑے
اور ابھی تک کم سے کم افغانستان اور پاکستان ان اثرات سے نکل پانے میں مکمل
طور پر ناکام ہیں ۔توہین آمیز خاکے بنانے میں اس کے سوا کوئی مقصد ’’یہودی
ابلیسوں‘‘کے زیر نظر نہیں ہے کہ مغرب اور مسلم دنیا ایک دوسرے کے آمنے
سامنے کھڑے ہو جائیں اور دونوں قومیں ہردم حا لتِ جنگ میں رہیں اگرچہ آج
بھی صورتحال حالتِ جنگ جیسی ہی ہے مگر اسرائیل اس میں توسیع چاہتا ہے تاکہ
پوری دنیا کی توجہ اس کے مظالم اور جبر سے ہٹ جائے اور کوئی ایک بھی زبان
فلسطینیوں کے حق میں ایک بھی لفظ منہ سے نہ نکال سکے ۔اسرائیل یورپی ممالک
میں فلسطینیوں کی تئیں بڑھتی ہوئی ’’انسانی ہمدردی‘‘سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو
چکا ہے اور اس سے پہلے اس پر مغرب میں بڑھتی ہوئی ’’قبولیتِ اسلام کی
ایمانی تیز رفتارلہر‘‘سے دیوانگی کے دور پڑنے لگے تھے ،تمام تر کوششوں کے
باوجود وہ ناکام و نامراد رہا سوائے اس کے کہ اس نے توہین آمیز خاکوں اور
فلموں سے نفرت کی دیوار کھڑی کردی اورسب سے بڑھکر یہ کہ وہ جہادی تنظیموں
کو اپنے اثر و نفوذ اور ایجنٹوں کی کارستانیوں کے ذریعے وحشیانہ کاروائیوں
پر ابھارنے میں کامیاب رہا، دونوں سے اس کا مقصد مسلمانوں کو وحشی قوم کے
طور پر پیش کرنا ہے اور فی الوقت وہ دھیرے دھیرے اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے
میں کامیاب نظر آتا ہے ۔اس صورتحال سے صراط مستقیم کی طرف لے جانے کا کام
صرف اعلیٰ درجہ کی با صلاحیت قیادت ہی کرسکتی ہے اس لیے کہ یہ مسئلہ مقامی
نہیں بلکہ بین الاقوامی چیلنج کی صورت اختیار کرچکا ہے لہذا ضرورت اس امر
کی ہے کہ امت کے بہی خواہ دیر کئے بغیر سر جوڑ کر ایک جگہ بیٹھ جائیں اور
اُمت کے غیور اور کفن بردوش نوجوانوں کے سامنے واضح لائحہ عمل رکھیں تاکہ
اس امت کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع ہونے سے بچ جائیں اور توہین رسالت پر
روک لگانے کے لے ایک بین الاقوامی قانون تمام مذاہب اور ملتوں کے اتفاق سے
وجود میں آجائے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس لئے کہ ایسا مؤثر بین
الاقوامی قانون ہی اس فتنے کی جڑ کاٹ سکتا ہے۔ |