شہنشاہ دو عالمﷺکی شان میں گستاخی
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’بہت بابرکت ہے وہ
اللہ تعالیٰ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا
ہے‘‘(الملک:۱) ان آیات کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی شہنشاہیت کا بیان
ہے کہ وہ شہنشاہ مطلق ہیں او ر کائنات کے بلا شرکت غیرے حکمران ہیں وہ ایسے
بادشاہ ہیں کہ جنکی بادشاہی کو کبھی زوال نہیں دنیا کے بادشاہ محدود مدت
کیلئے آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں تاریخ میں صرف انکا نام ہی باقی رہ
جاتا ہے مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بادشاہی ازل سے ابد تک قائم رہے گی۔
فرمان الٰہی ہے’’ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے‘‘۔ وہ بادشاہ
بھی ہیں اور بادشاہ گر بھی کسی کو بادشاہ بنادینا یا کسی کو تخت شاہی سے
اتار دینا اسی کا کام ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ آپ فرمادیجئے اے اللہ اے
تمام جہان کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے
اور تو جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے تیرے ہی ہاتھ میں ہیں سب بھلائیاں
بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘(آل عمران:۲۶)
اس نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد الرسول اللہﷺ کو بادشاہ بنایا ہے اور وہ
ایسے بادشاہ ہیں کہ جنکا راج چودہ سو سال گزرنے پر بھی اسی طرح قائم و دائم
ہے جیسا کہ آپکی حیات مبارکہ میں تھا انکی حکومت مسلمانوں کے دلوں پر ہے
جسکا ثبوت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چودہ سو سال سے زائد
کا عرصہ بیت چکا ہے اس دوران جس شخص نے بھی آپکی شان میں گستاخی کا ارتکاب
کیا تو شمع رسالت کے پروانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور حرمت
رسولﷺ پر آنچ نہ آنے دی۔ غازی علم الدّین شہید نے گستاخ رسول راج پال پبلشر
کو جہنم واصل کیا اسی طرح سلمان رشدی اور بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کے
بارہ میں علماء اسلام نے متفقہ طور پرقتل کا فتوٰی صادر کیا۔
اور ڈنمارکے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے جب آنحضرتﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کئے
تو پوری دنیا میں مسلمانوں نے اس کے خلاف مظاہرے کئے اور کئی مسلمانوں نے
جام شہادت نوش کیااور حال ہی میں ایک فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو نے نبی
پاکﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کئے تو پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن
گئے اور پاکستا ن قو می اسمبلی کے ارکان نے متفقہ طور پر اس کے خلاف مذمتی
قراداد مظور کی۔
یہ لوگ فریڈم آف ایکسپریشن یعنی اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ایسا کام
کرتے ہیں حالانکہ مذہبی ہستیوں کی توہین آزادی اظہار رائے کے ضمن میں نہیں
آتی بلکہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہچانا اور ہر مذہب کی مقدس شخصیات
کا احترام کرنا ہی حقیقی اظہار رائے ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کے حکم پر اپنی جانوں
کا نذرانہ پیش کیا۔
قرآن پاک میں نبی پاکﷺ کے حکم کو دل و جان سے تسلیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے
اور جو ایسا نہیں کرتا اسکا ایمان سلامت نہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے
اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے ان میں کر دیں ان سے اپنے
دل میں کسی طرح تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر
لیں‘‘(النّساء:۶۵)
ان آیات کریمہ میں آپکی شہنشاہیت کا بیان ہے کہ وہ جو حکم صادر فرمایءں اس
کو دل و جان سے تسلیم کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ
مدینہ میں ایک یہودی اور ایک منافق جو کہ ظاھر میں مسلمان تھا کسی بات پر
دونوں کا جھگڑا ہو گیا یہودی جو سچا تھا اس نے مناجق سے کہا کہ چل حضرت
محمدﷺ کے پاس اس جھگڑا کا فیصلہ کروانے کیلئے جبکہ منافق نے کہا کہ چل کعب
اشرف کے پس جو یہودیوں کا سردار اور عالم تھا۔ جب وہ نبی پاکﷺ کے پس گئے تو
آپ نے اس جھگڑا میں یہودی کو سچا قرار دیا اور منافق کو جھوٹا ، جب وہ
دونوں باہر آئے تو منافق نے کہا کہ حضر عمرؓ کے پاس چلو جو وہ فیصلہ کریں
گے مجھے منظور ہو گا۔جب وہ آپ کے پاس گئے تو یہودی نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ
نبی پاکﷺ اس سے پہلے اس جھگڑا کا فیصلہ میرے حق میں فرما چکے ہیں۔ حضرت عمرؓ
نے جب یہ سنا تو کہا اچھا یہ بات ہے! ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں اور اندر
تشریف لے گئے تلوار لے کر باہر آئے اور اس منافق کا سر قلم کر دیا اور کہا
کہ جو ایسے منصف کا فیصلہ نہ مانے بالفاظ دیگر جو ایسے شہنشاہ کے فیصلہ کو
تسلیم نہ کرے عمرؓ کا اس کے بارہ میں یہی فیصلہ ہے اس پر مندرجہ بالا آیات
نازل ہو گیءں او ر حضرت عمرؓ کو فاروق کے لقب سے نوازا گیا۔
جب اس منافق کے وارثوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ آنحضرتﷺ کے پس آئے اور
حضرت عمرؓ پر قتل کا دعوٰی کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس
صرف اس لئے گئے تھے کہ وہ شائد اس معاملہ میں باھم صلح کروا دیں یہ وجہ نہ
تھی کہ آپﷺ کے فیصلہ سے انکار تھا تو اس پر یہ آیا ت نازل ہو گیءں’’ ان سے
جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام اور رسول اللہ کی طرف
آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں ‘‘(النّساء:۶۱)
یعنی منافق لوگ کس بیہودہ خیال میں ہیں اور کیسے غلط حیلوں سے کام نکالنا
چاہتے ہیں انکو خو ب سمجھ لینا چاہئے ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب تک یہ
لوگ اے محمدﷺ آپکو اپنے تمام چھوٹے بڑے مالی جانی نزاعات میں منصف اور حاکم
تسلیم نہ کر لیں کہ آپکے فیصلہ سے انکے دل میں کچھ تنگی اور ناخوشی نہ آنے
پائے اور آپکے ہر حکم کو خوشی کے ساتھ دل سے قبول نہ کر لیں اس وقت تک انکو
ہر گز ایمان نصیب نہہں ہو سکتا۔
قرآن پاک میں بہت سی ایسی آیا ت ہیں جن میں آنحضرتﷺ کے ہر حکم کو دل و جان
سے تسلیم کرنے کے بارہ میں کہا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم
اجمعین کی زندگیاں اس بات پر شاہد ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ
ہمیںآپ ﷺ کے ہر حکم پر دل وجان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے خاتمہ
ایمان پر فرمائے آمین! |
|