اب حدیث مرتب ہوئی ہیں اتنے عرصے
بعد تو سوال یہ اٹھتا ہے کے اتنے عرصے تک لوگ کس طرح سے وہ سارے اراکین ادا
کر رہے تھے۔ اگر وہ رسول محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان جو قرآن میں
بتائے گئے ہیں انکے مطابق عمل کر رہے تھے تو کیا انکے بعد آنے والے لوگ
ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ اور اگر لوگوں کے خیالات بدلنا شروع ہو گئے تھے تو
کیا لوگوں نے قرآن چھوڑ دیا تھا۔ کیوں کہ حدیثیں تو تھیں نہیں۔ کیونکہ اسما
الرجال کی وجہ سے احادیث جلا دی گی تھیں۔
اب معاشرہ کی اصلاح کے لیے اور دین کو قائم رکھنے کے لیے کیا کیا جائے
اسلئے بڑی جدو جہد کے بعد احادیث مرتب ہوئیں۔ میرا اختلاف اس بات پر ہے کہ
جو بھی کچھ مرتب کیا اسکو رسول محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے اور انکے
قریبی رفقاء خلفائے راشدین سے نہ منسوب کریں اسکو آپ ایک تفسیر کی کتاب کے
طور پر لیں۔ اس نیت سے نہ پڑھیں اور نہ لوگوں سے کہیں کہ یہ اقوال رسول
محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور سنت محمد ہے کہ جو ان پر یقین نہ کرے
وہ منافق ہے۔ اسلئے کے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین
یہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی ایسی بات
منسوب ہو جو قرآن سے باہر ہو ۔ اب اگر یہ اراکین قرآن میں واضح نہیںہیں
بقول حدیث کے ماننے والوں کے تو پھر کیوں کر رہے ہیں ادا۔۔۔ یہ الله کی
اطاعت اور رسول کی اطاعت تو نہ ہوئی الله نے قرآن میں فرمایا ہے سورہ القمر۔
اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا ہے ہے تو کوئی ہے جو سوچے
سمجھے۔۔۔ اب آتے ہیں اراکین کی طرف
جاری ہے |