شہداءِ پشاور کے والدین سے ایک گزارش

سانحہ آرمی پبلک سکول ایک ایسا د لخراش واقعہ تھا جس نے نہ صرف شہید بچوں کے والدین کے دلوں کو چھلنی چھلنی کر دیا بلکہ ہر اس شخص کو ہلا کر رکھ دیا جو دردِ دل رکھتا ہے‘یقینا ہم سب کے لئے یہ غم فراموش کرناآّسان نہیں لیکن اس کے باوجود میں شہید بچوں کے والدین یا ان کے عزیز و اقارب سے دلّی ہمدری رکھتے ہوئے ایک گزارش کرنا چا ہتا ہوں۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوں جوں ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے ،ہمیں بے شمار نا خو شگوار حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔بعض دفعہ تو ایسے حالات سے بھی سابقہ پڑ جاتا ہے جو بہت ہی اذّیت ناک، المناک اور نا قابلِ فراموش ہوتے ہیں ۔ایسی صورت میں ہمارے پاس دو آپشن موجودہو تے ہیں اول یہ کہ ہم اسے اﷲ کی رضا سمجھ کر ذہنی طور پر قبول کر لیں یا دو سری صورت یہ ہے کہ اسے زندگی بھر کا روگ بنا کر اعصابی شکشت سے دو چار ہو جائیں اور یوں اپنی زندگی بھی تباہ کر دیں۔ذرا سو چئے ۔۔! اگرہم زندگی کے دھکوں اور دھچکیوں کو جذب کر نے کی بجائے ان کی مز احمت شروع کر دیں،تو ہمارا حشر کیا ہوگا ؟اگر ہم بید کی طرح جھکنے سے انکار کر دیں،اور شاہ بلوط کی طرح مزاحمت پر اصرار کریں ، تو پھر کیا ہو گا۔۔؟اس کا آسان جواب یہی ہے کہ ہمارے اندر کشمکشوں کا ایک لا منتنا ہی سلسلہ شروع ہو جائیگا اور ہم اعصابی پریشانیوں کا شکار ہو کر مضطرب اور بے چین رہیں گے۔اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ ہم اپنے دکھوں کو مسکراہٹ کے پردے میں چھپا دیں ۔

ایک دفعہ مجھے ایسی ہی ایک نہایت تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔میں نے اس صورتحال کو ذہینی طور پر قبول کرنے سے انکار کیا، میں نے حماقت کی اور ناگزیر صورتحال سے الجھ پڑا، نتیجہ کیا ہوا ْ۔۔۔میری راتیں بے خوابی کے جہنم میں تبدیل ہو گئیں آخر ایک سال اذّیت سہنے کے بعد ایک خاتون کی آپ بیتی نے میرے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ میں با لکل بدل گیا اور اﷲ کے فیصلہ پر صابر و شاکر ہو کر خوشگوار زندگی گزارنے لگا۔خاتون نے مجھے بتایا کہ ہم میاں بیوی کو اﷲ تعالیٰ نے ایک بیٹے کی نعمت اور ایک بیٹی کی رحمت سے نوازا تھا اور ہم ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔بیٹے کو پاک فوج میں جانے کا بڑا شوق تھا ،ایف ایس سی کرنے کے بعد وہ آرمی میں کمیشن لینے میں کامیاب ہوا اور پی ایم اے کاکول ٹرینینگ کرنے چلا گیا۔ میرا خاوند بیٹے کے اس کامیابی پر خوشی سے پھو لے نہیں سماتا تھا مگر-

قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ چھ ماہ کے بعد میرے خاوند کو دل کا دورہ پرا اور اﷲ کو پیارے ہو گئے ۔بیٹا کاکول سے پاس آؤٹ ہو ا تو اس کی پہلی پو سٹنگ سیالکوٹ کر دی گئی۔ایک سال گزرا تو پاک بھارت جنگ چھڑ گئی، میں اپنے بیٹے کی حفاظت کی دعا ئیں مانگنے لگی، ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ آپ کا بیٹا جامِ شہادت نوش کر گیا ہے۔یہ سن کر مجھ پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اس کی اچانک موت نے میری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا، میری دنیا زیر و زبر ہو گئی،میرے زندگی میں تمام دلچسپیاں ختم ہو گئیں۔میں روز قبرستان جا کر اپنے بیٹے کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر رویا کرتی تھی میری رگ رگ میں تلخی اور مایوسی بھر گئی تھی ہر وقت میرے آنکھوں کے سامنے میرے بیٹے کی زندگی گھوم رہی تھی۔میں سوچتی تھی، اﷲ نے میرے بیٹے کو شہادت کے لئے کیوں منتخب کیا ؟ایک دن جب میں صندوق میں سے کپڑے نکال رہی تھی تو مجھے اپنے بیٹے کا وہ خط مِلا جو اس نے اپنے والد کے وفات کے بعد مجھے لکھا تھا۔اس نے لکھا تھا ’’ والد صاحب کے انتقال سے آپ کے زندگی میں جو خلاء پیدا ہوا ہے ،اسے پر کرنا یقینا ممکن نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ آپ اس صدمہ کو برداشت کر لیں گی آپ کا ذاتی فلسفہ اس سلسلے میں آپ کی مدد کرے گا،میں وہ ساری خوب صورت حقیقتیں کبھی نہیں بھول سکتا جو آپ نے مجھے سکھائی تھیں ،میں جہاں کہیں بھی جاؤنگا، مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ آپ نے مجھے مسکرانا اور جو کچھ بھی پیش آئے، اسے مردوں کی طرح قبول کرنا سکھایا ہے۔‘‘میں نے اس خط کوبار بار پڑھا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا بیٹا یہاں کہیں میرے پاس ہی ہے اور مجھ سے باتیں کرکے کہہ رہا ہے ’’ امّی جان ! جو کچھ تم نے مجھے سکھایا تھا خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتی ؟ اس کے بعد میں نے مختلف سرگر میوں میں دلچسپی لینا شروع کر دی، میں نے مختلف کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھا، میرے اندر ایک ایسی تبدیلی آ گئی جس کی مجھے امید نہیں تھی میں نے ماضی پر آنسو بہا نا چھوڑ دیا اور یوں میری زندگی نارمل اور خو شگوار بن گئی۔مشہور فلاسفر ولیم جیمز کا کہنا ہے ’’ دنیا میں ہر بیماری کی دوا یا تو موجود ہے۔۔ یا نہیں ہے ! اگر کوئی دوا ہے تو اس کو حاصل کر نے کی فکر کرو اور اگر نہیں ہے تو صبر کرو ‘‘ اب جو بچے ہم سے بچھڑ گئے ہیں ،جو جنّت کے پھول بن چکے ہین ان کا واپس آنا تو ممکن نہیں،اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس پر قنا عت کیا جائے۔دماغی سکون بد ترین چیز کو قبول کرنے سے حاصل ہو تا ہے ۔الحمدﷲ۔۔، ہم سب مسلمان ہیں ،ہماراا عقیدہ ہے کہ دنیا میں انسان کا آنا اور جانا انسان کے مرضی پر نہیں ، اﷲ کے مرضی پر منحصر ہے۔ لہذا میری آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ میں شہید ہو نے والے بچوں کے والدین اور عزیز و اقارب سے یہی ایک گزارش ہے کہ وہ اﷲ کے مر ضی پر صابر و قانع رہیں اور کسی کام میں مشغول رہ کر اپنے ذہن سے پریشانی نکالنے کی کو شش کیجئے،کیونکہ کثرتِ کار تفّکرات کی بہترین دوا ہے۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284343 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More