میں کشمیر کی اک زندہ نسل ہوں

 Coulmniest Aashifa Ji
ایک حادثہ نے میری پوری زندگی بدل دی یہ آبیتی حقیقت پہ مبنی ہے یہ بات سچ ہے کہ وقت اور حالات انسان کو کچھ سکھا کر ہی جاتا ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں مجھے میرے والدین نے بہت لاڈ و پیار سے پالا ہے ،میرے ماں باپ نے مجھے ہر سہولیات فراہم رکھی اور مجھے ہر وقت قرآن پڑھنے اور نماز کا پابند ہونے کی تلقین کیا کرتے تھے لیکن ماں باپ کی لاکھ کوششوں کے باوجود میں زندگی کا صحیح مطلب نہ سمجھی اور اپنے ماں باپ کی انمول نصیحتوں کو خاطر میں لاتے ہوئے جدید دور کے فیشن میں چور ہو کر رہ گئی اپنی زندگی کو مغربی تہذیب کے طور پر گذارنے میں فخر محسوس کرنے لگی ۔پردہ کیا چیز ہے اسے سمجھنے کی کبھی کوشش تک نہ کی ۔لیکن وقت کے ہاتھوں میںایک دن حادثے کا شکار ہو گئی ،میں وہ دن کبھی بھی بھول نہیں پاﺅں گی جس دن میری زندگی ایک نئے موڑ پہ آگئی تھی وقت نے ایک ایسے مقام پہ لاکھڑا کر دیا کہ مجھے اپنی زندگی کا صحیح مقصد معلوم ہوگیا۔یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا جب میں گھر میں اکیلی سوئی ہوئی تھی او میرے والدین کسی تقریب میں دعوت پہ گئے تھے اچانک میے آنکھ کھلی دیکھا تو تو چاروں اطراف سیلاب کا منظر تھا ۔میں یہ سب بھیانک منظر دیکھ کر بے حد گھبرا گئی میری سمجھ میں کچھ بھی آ رہا تھا کہ آخر میں کیا کروں، کسے پکاروں،میں بے یارو مدد گار اپنے حالات پر بے بس تھی اور خدا سے اتنا ہی مانگ رہی تھی کہ اے اللہ مجھے بچا لے....اللہ بے نیاز ہے میرے نافرنیوں کو بھول کر پھر بھی مجھے بچا لیا۔ میں چیخ چیخ کر مدد مانگ رہی تھی کوئی ہے جو مجھے بچائے اتنے میں اللہ کے کرم سے چار فرشتہ نما نوجوان لڑکوں نے میرے پکار سنی اور مجھ سے کہا کہ ہم پہ بھروسہ رکھو اور ہمارے ساتھ چلو....جانے کو تو میں نہیں جاتی........لیکن میرے پاس اس سیلابی آفت سے بچنے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا میں ڈری سہمی سی اُنکے ساتھ چل پڑی.... ایک نوجوان لڑکے نے مجھے کہا کہ آپ میرے گھر چلو میں نے بھروسہ کیا اور اس کے ساتھ اس کے گھر چلی گئی ۔میں اُس کے گھر پہنچی تو دیکھا تو وہ گھر صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا ۔ کافی وقت گذرتے مجھے بہت زیادہ بھوک بھی لگی تھی اس نوجوان نے مجھے کھانے کےلئے سیب دئے میں اُن سیبوں کو ایسے کھانے لگی جیسے میں جنموں جنموں سے بھوکی تھی ۔انھوں نے مجھے پہننے کے لئے پوشاک دی میں پہلی بار کسی کا اتارن پہن رہی تھی جو پوشاک انھوں نے مجھے پہننے کو دی وہ پوشاک ہمیشہ میرے والدین مجھے پہننے کو کہا کرتے تھے لیکن میں اُن کی بات کو نہیں مانتی تھی ۔آج زندگی کے جینے کا احساس ہو رہا تھا اور اپنی زندگی کے اصل مقام سے آگاہ ہو رہی تھی ۔زندگی جینے کا اصل مقصد کیا ہے میں اس بات کو محسوس کر رہی تھی مخمل میں سونے والے بیٹی آج زمین میں سو رہی تھی ، تھکی ماندی مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا جب آنکھ کھلی تو اس گھر میں سب لوگ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے ۔میں نماز پڑھتی لیکن میں نماز پڑھنا ہی نہیں آتا تھا میں کافی شرمندہ ہو گئی اور دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی کہ کاش میں نے اپنے والدین کا مانا ہوتا کہ کہتے تھے کہ بیٹی نماز پڑھ لیکن میں منع کرتی تھی اگر میں نے اپنے والدین کی بات مانی ہوتی تو آج مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی۔میں نے اپنے آپ سے عہد کر لیا کہ آج کے بعد میں اپنی زندگی کو بدل کر رکھ دوں گی ، نماز پڑھوں گی ،قرآن سیکھوں گی اور دین اسلام کے طور طریقے کو مکمل طور پہ اپناﺅں گی ۔جیسے ہی حالات میں کچھ سدھار ہوا وہ لوگ مجھے میرے والدین کے پاس لے گئے۔ میرے والدین نے جب مجھے حجاب میں دیکھا وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی اللہ کا یہ کونسا کرشمہ ہوا کہ آپ نے حجاب پہنا پردے کی اہمیت کو سمجھا تو میں نے اپنے والدین سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اللہ نے مجھے غفلت سے جگا دیا۔مجھے میرے رب نے صحیح زندگی گذارنے کا سلیقہ عطا فرمایا اب میں نماز کی پابند ہوگئی ہوں اور قرآن پاک بھی پڑھنا سیکھ رہی ہوں۔یہ سن کے میرے والدین مجھے پہلے سے زیادہ لاڈ پیار کرنے لگے اور گلے لگا کر مجھے دعاﺅں کی سوغات دینے لگے ۔اسلئے میں اپنی آبیتی آپ تمام لوگوں کے سامنے لا رہی ہوں بالخصوص ان لڑکیوں کے لئے جو مغربی تہذیب میں چکنا چور ہو کر دن بدن زندگی کے صحیح مقام سے آگاہ ہونے کے بجائے تباہی و برباد کے راہ پہ جا رہے ہیں جہاں اُن کی آخرت محفوظ نہیں۔اللہ پاک تمام نوجوان لڑکیوں کو پردہ کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین
 
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 33375 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More