پٹرول کو مہنگائی کی ماں کہا جا
تا ہے اگر پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو تو پانی کی قیمت بھی بڑھ جا تی ہے کم
از کم 70%مہنگائی پٹرول کے مہنگا ہونے سے ہو تی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے
کیے جانے والے وعدوں میں عوام سے کیا گیا ایک وعدہ مہنگائی کو جڑ سے اکھا ڑ
پھینکنے کا بھی تھا جسے شاید حکومت نے پورا کر دکھایا ہے اور مہنگائی کی
ماں ہی کو مار ڈالا ہے اور اپناسب سے بڑا وعدہ پورا کرکے عوام کی روز مرہ
زندگی کو مفلوج کر دیا ہے شاید شیر کی پیا س ابھی بجھی نہیں ہے وہ بجلی ،گیس
کھا کر اکتا گیا تھا جس کے لئے ہاضمے کے طور پر پٹرول پینا پڑا اب شاید
انرجی ڈرنک کے طور پر عوامی خون پیے گا ویسے اب عوام کے پاس یہی کچھ بچا ہے
۔ ۔ ۔
اگر غور کیا جا ئے تو دھرنے کے دنوں میں تمام طرح کے بحرانوں سے ملکی فضا
پاک رہی ہے جب تک دھرنے والے اسلا م آباد میں براجمان رہے تب تک عوام کو ہر
طرح کا اضافی ریلیف اور سبسڈی ملتی رہی ،بلکہ ملکی معیشت کو بھی دوام بخشا
جا رہا تھا اور چا ئنہ سے تقریبا ً 25کے قریب ایسے معاہدے بھی کر دیے گئے
جن سے معیشت میں خاطر خواہ مضبوطی متوقع تھی ،حیران کن امر یہ کہ ان دنوں
بجلی کی پیداوار اس قدر تھی کہ پورے ملک کی بجلی بھی آ رہی تھی اور موجودہ
حکومت ایسے کام کر رہی تھی کہ تحریک انصاف کے تبدیلی والے نعرے کے مصداق
حکومت حقیقی تبدیلی لے ہی آ ئے گی ،لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا دھرنوں کے
اٹھتے ہی حکومت نے پھر اسی روایتی چال میں چلنا شروع کر دیا تازہ مثال
پٹرول کا بحران پیش خدمت ہے ،
قارئین محترم !پاکستان ایسا ملک ہے جو اپنی گاڑی کو دھکا لگوانا جا نتا ہے
اور وہ دھکا صرف فضل خدا ہی ہے وگرنہ موجودہ سیاستدان حکمرانوں نے کو ئی
کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ملکی مفادات کیسا تھ سیاست ،سیاست کھیل کر اس نہج پر
پہنچا دیا ہے کہ اگر قائداعظم کو دوبارہ زندہ ہونے کا مو قع ملے تو وہ ملک
ہم سے لیکر انگریز سرکار کو واپس کریں گے اور معذرت کریں بھی کریں گے اس
قدر حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے ،
جب ملک ایسی حالات میں ہو کہ ملک دشمن عناصر ہمارے گلے محلوں کا رخ کر چکے
ہوں ،ہمارے معصوم بچوں پر حملے کرکے ہماری نسلیں ختم کرنے اور ملک کے
مستقبل کو تاریک کرنے کی گھنا ؤ نی سازش اپنے عروج پر ہو ،ہمارا ہمسایہ ملک
ہماری سرحد پر فائرنگ کرکے ہمیں اپنا ازلی دشمن ہونے کا احساس دلا رہا ہو،
ملکی دشمن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ہمیں توڑنے کا عزم کر رہے ہو ں، جہاں
معصوم بچے اور ما ئیں خوراک او ر پانی کی قلت سے سسک سسک کر مر جائیں ،ایسی
صورتحال میں قو میں اور ترقی یافتہ قوموں کے لیڈر سیاست نہیں کرتے اور نہ
ہی سیاست بچا تے ہیں ان حالات میں ریاست بچائی جا تی ہے ایسے حالات ہی
عالمی لیڈروں نیلسن منڈیلا، لینن ،ماؤزے تنگ ، اور ابراہم لنکن جیسے رہنما
جنم لیتے ہیں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ملکی مفادات کے ساتھ سیاست کا
کھیل کھیلنے والوں اور ملکی سا لمیت پر حملہ کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ
کیا جا تا ہے مگر صد افسوس کہ ہمارے ایک عام آ دمی سے لے کر کھرب پتی
ساستدان نے ابھی تک اپنی ذات سے باہر نکل کر ملک کے لئے کچھ کرنے کا سوچا
ہی نہیں ہے یہاں پر ہر کوئی اپنے معیاراور اپنی سطح پر بے ایمانی ،کرپشن کو
پروان چڑھانے میں لگا ہوا ہے کبھی ہم میں سے کسی نے یہ سوچنے کی کو شش ہی
نہیں کی کہ ایٹم بم گرائے جانے کے بعد اپنا پورا فوجی نظام تباہ ہوجانے کے
بعد بھی جاپان آج دنیا کا مضبوط ترین معاشی ملک کیسے بن گیا ؟ایسامضبوط
ترین کہ جسے 2007تک فوجی نظام اور وزارت دفاع کی ضرورت ہی پیش نہ آ ئی اور
ہر گھر میں جاپانی مصنوعات نے جگہ بنالی ،ترقی ایٹم بنانے سے نہیں ہو تی
،ترقی دنیا کی بہترین فوج کے ہونے سے نہیں ہو تی،ترقی دنیا کا بہترین نہری
نظام رکھنے سے نہیں ہو تی ،ترقی قدرت کے دھات کے ذخائر رکھنے سے نہیں ہو تی
،ترقی تو بہترین قیادت سے ہوتی ہے ،ترقی تو ہمیشہ ایک قوم اور ہمہ جہت عزم
سے ہو تی ہے ترقی ہمیشہ ذاتی مفادات پر ملکی مفا دات کو ترجیح دینے سے ہو
تی ہے ،ترقی ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کے لئے ایک ہو نے
سے ہو تی ہے ،ترقی وہی معاشرہ ،وہی خطہ کرتا ہے جس میں اختلاف ہمیشہ ذات سے
نہیں نظریے سے کیا جا تا ہے لیکن یہاں ہمیشہ ذاتی اختلافات کی بنیاد پر
ملکی مفادات کو نظرانداز کیا گیا ۔ یقین کیجئے قا رئین کرام! ہم خود کو
بدلیں گے تو یہی سیاست دان جو اس وقت ملکی دولت سے ہاتھ صاف کر رہے ہیں یہی
ملک کے لئے کام کریں گے ہمیں کرنا صرف اتنا ہے کہ خود کو بدلنا ہے احتساب
کے دائرہ کار کو ملکی سطح تک لے کر جا نا ہے ۔ |