ناقص تبلیغ اور روک ٹوک کا اژر

آج کل لوگ اول تو دین سیکھتے نہیں مگر جب سیکھتے ہیں تو چند باتیں سیکھتے ہیں وہ بھی اسلئے کہ دوسروں کے خلاف باتیں impose کر سکیں.

اس لۓ نہیں کہ وہ خود راہ ہدایت کے متلاشی ہیں.

قوم اتنی شریف کہاں ہے!

دین کہنے سے مراد صرف دین نہیں بلکہ وہ تمام اچھی باتیں اور اصول ہیں جو اپنی دنیاوآخرت بہتر کرنے کے لۓ کارآمد ہیں.

چند اچھی اچھی باتیں سیکھ کر خود عمل پیرا ہونے سے پہلے تبلیغ کے لۓ کمر بستہ ہو جاتے ہیں وہ بھی صرف لوگوں کو زیر کرنے کے لۓ اور اکثر ان باتوں میں اپنا انوکھا نقطہ نظر شامل کر کے مطلب بھی تبدیل کر دیتے ہیں. وہ کیا تبلیغ جس سے لوگ گمراہ ہوں! صرف خود کو بڑا دکھانے کے لۓ اور اپنی راۓ دوسروں پر مسلط کرنے کے لۓ تبلیغ شروع کر دی جاتی ہے (چاہے چار لفظ ہی آتے ہوں) جبکہ ایسی تبلیغ سے لوگ الٹا دین سے دور ہونے لگتے ہیں. یہ بہت سستا اور نازیبہ طریقہ ہے ڈھارس بندھانے کا، لوہا منوانے کا، سکہ جمانے کا، لوگوں سے برتر کہلوانے کا اور لوگوں کو نفسیاتی طور پر زیر کرنے کا، ظاہر ہے انکے باطنی مقاصد یہی ہوتے ہیں... چاہے ظاہر کچھ اور ہی کیوں نہ کریں. ہر وقت یہ نہ کرو، وہ نہ کرو لگاۓ رکھتے ہیں اور دین کو لوگوں کے لۓ ناگوار اور کڑوا بنا دیتے ہیں.
رنگینیء گفتار سے محصور ہے محفل
اور غایت گفتار ,``` خدا دیکھ رہا ہے.

انسان اللہ تعالٰی کی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے یعنی اس میں خدا کی بہت سی خصوصیات کا کچھ حصہ پایا جاتا ہے (جو اللہ کا عطا کردہ ہوتا ہے) اس لۓ انسان چاہتا ہے کہ اسکی عزت ہو، اسکا ادب ہو، اور لوگ اسے بڑا سمجھیں. اس وجہ سے وہ دوسروں پر غالب آنے کی خواہش رکھتا ہے. (جن میں ایمان نہ ہو وہ تو ایسا ہی کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے تکبر سے منع کیا ہے، عاجزی اور مساوات کو پسند کیا ہے) اکثر لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ عالموں کی محفل میں بیٹھ کر مفتی بن جاتے ہیں، جہاں سیاسی discussion چل رہی ہو وہاں politician بن جاتے ہیں. چاہے keyboard استعمال ہی نہ کرنا آتا ہو، computer lab میں جا کر خود کو master of computer بنا لیتے ہیں. یہ سب مثالیں ہیں جو وضاحت کرتی ہیں. انسان اب ہرفن مولا تو ہوتا نہیں. ایک وقت میں ایک یا دو جگہ کمال حاصل کرسکتا ہے. مگر خود کو ہرفن مولا pretend کرنے میں مزا بہت آتا ہے. کیا بات ہے! جھوٹے طریقے سے ہر جگہ محفل لوٹنا اور اپنی واہ واہ کروانا. ظاہر ہے برائ میں attraction تو ہوتی ہے. جن میں ایمان نہیں وہ تو لفنگی electron کی طرح attract ہوجاتے ہیں جبکہ جن لوگوں میں ایمان کا potential ہوتا ہے وہ تو اس attraction کو repulsion میں بدل سکتے ہیں.

اب یہ فطرت تو ہے انسان کی کہ وہ خود کو بڑا دکھاتا ہے مگر کوئ مجبوری نہیں ہے. اللہ نے انسان کو حدود عطا کی ہیں اور ایک قوت جس کے تحت وہ اس فطرت کی نفی کر سکتا ہے. مگر اکثریت بوجہء جہالت اس قوت کا استعمال نہیں جانتی.

لوگوں کو حق بات ضرور بتائیں مگر اس انداز سے نہیں کہ دوسرا سمجھے کہ آپ اسے taunt کر رہے ہیں. شائستگی اپنائیں. جبکہ دوسرے شخص کو بھی برا نہیں ماننا چاہئے. اس پر میرے استاد نے بہترین مثال دی:
اگر ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جا رہا ہو اور اسکی قمیص کے پیچھے کیچڑ لگی ہو، اور دوسرا شخص اسے اس بات سے آگاہ کر دے (شائستگی کے ساتھ) تاکہ بادشاہ اس سے ناراض نہ ہو، تو پھر کیا پہلے شخص کو اسکا شکریہ ادا کرنا چاہئے یا اس سے برا مان کر لڑنے لگ جانا چاہیۓ؟ یقینن شکریہ ادا کرنا چاہیۓ. اب اسی مثال میں بادشاہ کی جگہ اللہ تعالی کو اور کیچڑ کی جگہ کسی بھی عیب کو substitute کر دیں. یقینن آپ سمجھ جائنگے کہ آپ انسانوں کو عرش پر شرمندہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اسکا اجر بھی پائیں گے مگر آپکے دل میں خلوص ہونا چاہئے کوئ اور مقصد نہ ہو. لحظہ ایک بار ضرور سوچیں کہ کہیں آپکا ایسا کوئ برا مقصد تو نہیں؟ خود احتسابی سے کام لیجئے .

دوسری طرف کچھ لوگ over clever بھی ہوتے ہیں جو بات سنتے ہی سمجھتے ہیں کہ یہ بندہ میری بے عزتی کرنا چاہ رہا ہے جبکہ دوسرے کا یہ مقصد نہیں ہوتا. وہ تو اس کام کے عادی ہوتے ہیں کہ ہر بات کے آٹھ دس مطلب نکالنے ہیں اور ان میں سے جو سب سے برا مطلب ہو وہی consider کر کے یا تو برا مان جاتے ہیں یا لڑائی شروع کر دیتے ہیں. ایسوں سے تو بات بھی نہیں کرنی چاہیے. کسی سے بدگمانی کرنا بھی گناہ ہے بیشک کسی مفتی سے پوچھ لیجئے.

کچھ لوگوں پر تو کسی پرتاثیر بات کا اثر ہی نہیں ہوتا. دراصل ان کا دل سخت ہوتا ہے لحظہ کسی بات کا اثر قبول نہیں کر پاتے. ویسے دل سخت اور مردہ ہوتا کیسے ہے؟ اس کے متعلق بہت سی احادیث اور صحابہ کے اقوال ہیں جن سے بنیادی مفہوم یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص زیادہ بولتا ہے، زیادہ مزاق کرتا ہے، زیادہ ہنستا ہے. اسکی شرم، اسکا ضمیر ختم ہو جاتے ہیں، عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں اور دل مردہ ہوجاتا ہے. ایسے لوگوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ پرتاثیر بات کا اثر قبول کرینگے. وہ تو بس اپنی دنیا میں جیتے ہیں.

علاوہ ازیں آج کل تو کوئ قرآنی آیت کوئ حدیث یا کسی صحابی کا قول سن کر بھی لوگ ناک چڑھانے لگتے ہیں. اوۓ اے کی مولوی پڑاں شروع کر دتا؟ (دل کہتا ہے زباں کہے نہ کہے) .کیونکہ یہ باتیں تو اکثر لوگوں کے خلاف ہی پڑنی ہوتی ہیں، کیا کریں؟ آج کا انسان ہے ہی اتنا برا. اوپر سے وہ آدمی جسکے خود کے قول وفعل میں تضاد ہوتا ہے، آجاتا ہے دوسروں کو فتوے دینے! وہی باتیں کہ اللہ نے یہ حکم دیا اور تم یہ کر رہے ہو، نبی نے یہ حکم دیا تم یہ کر رہے ہو! میں ایسے لوگوں کو یہ باور کراتا چلوں کہ دن گزر جائیں گے اسکے بعد بھی ایسی باتیں جاری رہینگی کیونکہ لوگ اسلام کے ہرہرقانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں. لحظہ اس میں کوئ بڑی بات نہیں کہ آپ لوگوں کی برائیاں گنوا دیتے ہیں. بڑی بات تو اس میں ہوتی کہ آپکے پاس جتنا علم ہے اسے دوسروں کی غلطیاں نکالنے کی بجاۓ اپنی ہدایت کے لۓ استعمال کرتے. مگر وہ کیا ہے کہ اس کام میں مزا نہیں آتا نا...!

باتیں اچھی کر لیتے ہیں مگر اپنا انداز اور character ٹھیک کر لیں ( خود بھی تو عمل کریں!( تو شاید کوئ آپکی بھی سن لے.

اول الذکر لوگوں کی وضاحت کی جاۓ تو ناک اسلۓ چڑھاتے ہیں کیونکہ وہ باتیں ہوتی ہی اتنی کھری ہیں کہ انکے آگے کوئ جواب ہی نہیں بنتا، جبکہ ہوتی وہ انکے خلاف ہیں. اب خود کو defend نہیں کر پاتے. پھر بھی ہدایت حاصل نہیں کرتے (وہ کیا ہے نا کہ اس میں مزا نہیں آتا).... اسکی بجاۓ وہ کہنے والے کے قول و فعل میں تضاد تلاش کرنے لگتا ہے یا اسکی ذات میں کوئ اور عیب تلاش کرنے لگتا ہے (مزا تو اس میں آتا ہے... بعض لوگ تو اتنے برے ہوتے ہیں کہ صحیح بات کو بھی غلط کہ دیتے ہیں صرف اپنا defence کرنے کے لۓ.
A man who extract out
contradictions from a clause of zero contradiction,
is the guilty man as for such persons....
Every Truth is a Lie

دوسری طرف وہ لوگ جو چند قرآنی آیات اور احادیث کا اپنی پسند کا مطلب بنا لیتے ہیں اور غلط کاموں میں انہیں اپنے دفاع کے لۓ استعمال کرنے لگتے ہیں. کوئ انہیں کچھ غلط کرتا دیکھ کر اعتراض ظاہر کرتا ہے تو کہتے ہیں "لا اقراہ فی الدین" یعنی دین میں کوئ جبر نہیں... کوئ شراب پینے سے روکے "لا اقرہ فی الدین!" نعوذبی اللہ. وہ برا کام تو الگ مگر اس آیت کی جو بے حرمتی وہ کر بیٹھتے ہیں اسکا الگ انجام! باقی ان کا ضمیر مردہ ہوتا ہے جبکہ دوسرا آدمی یہ جواب سن کر لاعلمی کے باعث اس کے خلاف واضح دلیل نہیں دے پاتا. معلوم ہوتا ہے کہ دودھ کا دھلا تو یہاں کوئ نہیں ہے.

اکثر عوام نہیں چاہتے کہ ان پر کوئ ٹوپی اور داڑھی والا حکمران مسلط ہو کیونکہ وہ ان سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ سختیوں کے دور کی شروعات کر دینگے. دراصل آج کل کے اکثر علماء دور کے تقاضے سامنے رکھے بغیر شرعی قوانین نافذ کرنے لگتے ہیں جبکہ ان پر عمل کرنا اس نافرمان عوام کے لۓ (غالبن معاشرتی اور نفسیاتی طور پر) بہت دشوار گزرتا ہے. ایسے بہت سے ضوابط جن پر دور نبوی(ص) میں عمل کرنا آسان تھا، آج لوگوں کے لۓ مشکل معلوم ہوتا ہے. وہ قوانین نافذ ضرور کرنے چاہئیں مگر پہلے اکثریت لوگوں کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرکے درجہ بدرجہ نافذ کئے جانے چاہئیں. اگر علماء psychology، human behaviour اور دیگر mind sciences کا علم بھی حاصل کرلیں تو وہ اپنا کام بہترین انداذ میں سرانجام دے سکتے ہیں جبکہ عوام کو بھی کوئ دقت نہیں ہوگی. یہ بھی ایک aptitude ہوتا ہے کہ آپ اپنی بات کا دوسرے پر کتنا اثر ڈال سکتے ہیں. انکو رسوا نہ کریں. انکی غلطیاں نہ نکالیں یا کوئ بڑی غلطی ہو تو indirect طریقہ استعمال کریں. اگر کسی کو کچھ برا کرتے دیکھیں تو محفل میں اسکی اصلاح کرنے کی کوشش نہ کی جاۓ... کچھ دن چھوڑ کر جب وہ آدمی آپکو اکیلا ٹکر جاۓ تب سلام دعا کر کے ان باتوں کا ذکر کر دیں. تب بھی خیال کریں کہ ایسا طریقہ نہ اپنائیں کہ "اسلام علیکم! آپ جہنمی ہیں"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر اپ زمانے کی اصلاح کرنے کے شوقین ہیں تو لوگوں کو ندامت، رسوائ سے جتنا ہو سکے اتنا بچائیں, پرتاثیر بات کریں اور لوگوں کے ذہنوں کا علم رکھیں. یا آپ کا مقصد خود کو دوسروں پر مسلط کرنا ہے تو.... اب بندہ کیا کہے آپکو!... اپنے دل میں خلوص بیدار کریں اور اپنے مقاصد اچھے رکھیں. خود احتسابی اپنائیں، خود کو سنواریں، اللہ کی حدود میں رہیں اور دوسروں کو اسی کا درس دیں. مزید یہ کہ اپنی طرف سے باتیں نہ گڑھیں کہ دو لفظ کتاب کے اور چار لفط اپنے. اور آیت یا حدیث کا صحیح مطلب جاننے کے لۓ فقہا مہینوں research کرتے ہیں. آپ دو منٹ میں فیصلہ کر دیتے ہیں کہ جی اسکا یہ مطلب ہے اور فقہا کے خلاف بات کرتے ہیں. یہ اچھا نہیں! اور اپنی پسند کا مطلب بنانے والے سخت عزاب کے لیے تیار رھیں۔
M. Irfan
About the Author: M. Irfan Read More Articles by M. Irfan: 17 Articles with 27464 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.