آ پ صلی ا للہ علیہ و آ لہ و سلم
کے ز ما نے میں جب کبھی رسول کر یم پر و حی نا ز ل ہو تی تو پہلے آپ اسے مر
دا نہ ا جتما ع میں سنا تے پھر ز نا نہ ا جتما ع میں خا ص عو رتو ں کو سنا
تے بار بار عو ر تیں سوا ل کر تیں اور جو با ت سمجھ میں نہ آ تی اس کی و ضا
حت چا ہتیں یہ ہی و جہ تھی کہ اسو قت خوا تین میں بھی اسلام میں د لچسپی بڑ
ھتی گئی اور قرآن مجید کو حفظ کر نے کا رواج عہد نبو ی سے ہی چلا آ رہا ہے
اور د لچسپ با ت یہ ہے کہ ان میں عو ر تیں بھی شا مل تھیں حضر ت ام ورقہ ر
ضی اللہ تعا لی عنہا کا ذکر حد یث کی کئی مستند کتا بو ں میں ہے لکھا ہے کہ
یہ حا فظہ تھیں اور ر سول ا کرم نے ان کو ان کے محلے کی مسجد کا اما م مقرر
فر ما یا تھا راوی کہتے ہیں “میں نے اس بو ڑ ھے مو ذن کو د یکھا ہے جو اس
مسجد میں پنج و قتہ ا ذان د یا کر تا تھا (اور ظا ہر ہے کہ وہ بھی ا قتد ا
کر تا تھا) اس با رے میں فقہا نے بڑی بحثیں کیں ہیں کہ عو رت کی ا ما مت جا
ئز ہے یا نہیں ۔ کو ئی کہتا ہے کہ ا م ور قہ کا وا قعہ ا بتدا ئے اسلام سے
ہے بعد میں منسو خ ہو گیا مگر ا یسی کو ئی حد یث نہیں ملتی جس میں ام ور قہ
کو بعد میں امامت سے مما نعت کر دی گئی ہو کو ئی کہتا ہے کہ “یہ ا نفرا دی
اور خصو صی ا جا زت ہے“حضرت عمر کی ر شتہ دار شفا ء بنت عبد اللہ کے متولق
معلو م ہو تا ہے کہ ا نھو ں نے ز ما نہ جا ہلیت ہی میں لکھنا پڑ ھنا سیکھ
لیا تھا حد یث کی کتا بو ں میں ذ کر ہے کہ شفا بنت عبد اللہ ہی نے ا م ا
لمو منین حضر ت حفصہ ر ضی ا للہ تعا لی عنہا کو لکھنا پڑ ھنا سکھا یا اور
اس پر رسول ا کرم بہت خوش تھے اور د یگر ا زواج مطہرا ت میں بھی مو ر خو ں
نے لکھا ہے کہ ان میں سے متعدد کو پڑ ھنا آ تا تھا اور وہ قر آن مجید کی
تلا وت میں مشغو ل ر ہا کر تیں تھیں بلا زر ی نے حضر ت عا ئشہ کے متعلق خا
ص کر یہ لکھا ہے کہ ا نھیں پڑ ھنا آ تا تھا لکھنا نہیں آ تا تھا اور یہ کہ
وہ ہمیشہ قر آن مجید خود بھی پڑ ھتیں اور لڑ کیو ں کو بھی اسکی تعلیم د یا
کر تیں بعض اوقات تو مرد بھی ان سے مسئلے مسا ئل پو چھنے آ یا کر تے دو سرے
مذا ہب کی کتا بو ں میں عور ت کا ذ کر ہی نہیں آ تا ا گر آ تا بھی ہے تو ان
کی برا ئی کر نے کے لیئے اور قرآن مجید میں ایک پو ر ی ہی سورت سورہ نساء
ہے اور سورہ مر یم بھی ہے ا چھی عو ر تو ں کی مثا لو ں میں “فر عون کی ملکہ
آ سیہ“اور مر یم بنت عمرا ن کا بار بار ذکر ہے قرآن میں حضرت حوا کا ذ کر
سبق آ موز ہے اس میں حضرت حوا کا کو ئی قصور نہیں ہے شیطا ن نے حسد سے حضرت
آدم کو بہکا یا شیطا ن نے ان دو نو ں کو گمرا ہ کیا ان دو نو ں نے اس شجر
ممنو عہ کا پھل کھا یا قرآن مجید کے ا ٹھا ئیسو یں پا رے کا آ غاز بھی د
لچسپی سے خا لی نہیں قد سمع اللہ۔“ا للہ نے اس کی با ت سن لی جو ا ے محمد
تجھ سے ا پنے شو ہر کے متعلق جھگڑ تی اور ا للہ سے فر یاد کر تی ہے“ یہا ں
بھی عورت کی کو ئی برا ئی نہیں ہے بلکہ عورت ہی پر ا للہ کو ر حم آ تا ہے
اور مرد کے خلا ف ا سکی شنوا ئی کر تا ہے اور ما ں کو با ُ پر تر جیح د ی
گئی ہے نو شتہ تقد یر کو نا م د یا گیا ہے “ام الکتاب“ (کتاب کی ما ں )اس
سے بھی ز یا دہ د لچسپ اور معنی خیز لفظ “ا م ا لقر ی“(شہرو ں کی ما ں)جو
شہر مکہ کا لقب ہے آ خر میں حضرت بلقیس کا بھی ذ کر کیا جا سکتا ہے قر آ ن
مجید میں ذ کر ہے کہ یہ یمن میں ر یا ست صبا کی حکمرا ن تھیں اور مسجد شو
ری کی مدد سے حکو مت کر تیں تھیں حضر ت سلیما ن علیہ ا سلام کی دعوت پر ان
سے ملنے بیت ا لمقدس گئیں اور و ہا ں ان کے ہا تھ پر ا سلام بھی لے آ ئیں
غر ض قرآن مجید کے مطا بق عورت سما ج کے بلند تر ین مر تبے یعنی با د شا ہت
تک پہنچ سکتی ہے اور قرآن اسے برا نہیں قرار د یتا تحقیق :- ڈا کٹر محمد
حمید اللہ |