صنف نازک کامیاب راہوں کی ضامن

تحریر: شریں علی عباسی

ہر باشعور شخص یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ ایک کامیاب معاشرے میں عورت کا اپنا اہم کردار رہا ہے۔ عورت پاؤں کی جوتی نہیں بلکہ بڑی قابل عزت ہستی ہے۔ اسلام نے عورت کو کس قدر عزت دی ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت عورت (ماں) کے قدموں کے نیچے رکھی ہے۔ اسلام کلی مساوات اور عدل وانصاف کی تبلیغ دیتا ہے اور بچوں پر رحم و شفقت کے سلسلہ میں اسلام نے بیٹی ہو یا بیٹا اولاد جیسی بھی ہو اس میں تفریق نہیں کی۔ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک پر کے مطابق کہـ:
سورۃ المائدہ میں ارشاد فرمایا کہـ: ’’عدل کرو یہی بات تقویٰ سے نزدیک ترہے‘‘۔ لڑکی کو لڑکے سے کمتر سمجھنے کی غلط ذہنیت کوختم کرنے کے لیے اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت پر بہت زور دیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے بیٹی کو اﷲ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جس آدمی کے گھر دو لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی پرورش کرے حتیٰ کہ وہ جوان ہوجائیں تو ایسا آدمی بالکل اسی طرح میرے ہمراہ جنت میں داخل ہوگا، جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہیں۔ (ترندی)

بیٹی کا اس قدر مقام رکھا گیا کہ اس بیٹی کی اچھی تربیت کرنے والے کو جنت میں مقام مل جاتا ہے اور مقام بھی ایسا اعلیٰ کہ تمام انبیاء کرام کے سردار جناب محمد رسول ﷺ کے ساتھ میں۔ کون ایسا بد بخت ہوگاکہ جو اس جنت کو قبول کرنے سے انکاری ہوگا،مگر شرط یہ ہے کہ اس جنت میں جانے کے لئے بیٹیوں کی تربیت اور ان سے شفقت مثالی ہو۔

اسلام سے پہلے اہل عرب بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔ اول توبیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا کرتے یا پھر جب بیٹیاں چلنے پھرنے کے قابل ہوتیں تو باپ انھیں کسی بہانے سے جنگل میں لے جاتے اور کسی گڑھے میں پھینک کر مٹی میں دفن کردیتے۔ اہل عرب کا یہ ظالمانہ عمل اﷲ تعالیٰ کو اتنا ناگوار گزرا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سخت مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’اور جب اس لڑکی جو زندہ دفن کردی گئی ہو پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی‘‘۔ یہاں پوچھنے کا مقصد اس بچی کی گواہی ہے اور ایک کمال سرزنش ہوگی ورنہ اﷲ تعالیٰ سب دیکھتا، سنتا اور جانتا ہے۔

آج خواتین اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیوں؟ یہاں خواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں سندھ سمیت پاکستان کے تمام صوبوں میں خواتین پر ظلم کی انتہا کردی جاتی ہے۔ کوئی بھی ان ظالموں کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر مرد یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ شوہر کا بیوی پر کنٹرول ہے۔ کیا اسے کنٹرول کہا جائے گا یا اپنی کمزوری کی انتہا کہ ایک نازک کلی مسل کر خود کو طاقتور سمجھا جائے۔ عورت جس کو سر کے تاج کا لقب ملنا چاہے تھا اسے ہمارے ہمارے معاشرے کی تنگ نظری اور نیچ سوچ نے پاؤں کی جوتی سمجھ لیا ہے۔ جب چاہو پہنو پہن کر توڑ دو پھر نئی جوتی۔ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرو اور پھر کسی کچرے کے کوڑے دان میں پھینک کر چلے جاؤ۔

غریب علاقوں کے باسیوں کی بیویوں اور بیٹیوں پر پنجاب میں چوہدریوں کا راج ہے اور سندھ میں وڈیروں کی من مانی ہورہی ہے۔ آخر خواتین کے تحفظ کے لئے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا۔ خواتین پہ ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔مگر صہیونی این جی اوز کو اگر نظر آتی ہیں تو وہ خواتین جن کو منظر عام پر لا کر وطن عزیز کو بدنام کیا جاسکے۔ کیا وہ حقوق نسواں کی ذمہ داری کا حق اسی طرح ادا کر رہی ہیں کہ ان کو یہ معلوم تک نہیں ہوتا کہ روز نا جانے بھوک اور پیاس کی ماری کتنی ہی خواتین اپنی عزتوں کو سودے کر ڈالتی ہیں۔
ایوانوں میں حقوق نسواں کے بہت سے قوانین پاس ہوئے مگر المیہ ہے کہ ان پہ عمل درآمد کون کریگا؟ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ خود بل منظور کرنے والے ناجانے کتنی کلیوں کو مسل کر ایوانوں میں آتے ہیں۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟؟ کبھی عورت کو گھر قید کیا جاتا ہے یا پھر کبھی مار پیٹا جاتا ہے۔ کبھی رحم یار خان میں بیٹوں نے اپنی ماں کو قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی شکارپور میں بہنیں بھائیوں کے عتاب کا شکار ہوجاتی ہیں اور جب عدل و انصاف کی بات آتی ہے تو لین دین کر کے معاف کر دیا جاتا ہے۔

خواتین کو بنیادی تعلیم نہیں مل رہیں۔ آج بھی بلوچستان ، سندھ، پنجاب کے نواحی علاقے اور خیبر پی کے بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں پر اسکول نہیں ہیں یا پھر اسکول تو ہیں تاہم وہاں پر تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر اکثریت ان میں سے بند پڑے ہوئے ہیں ۔ جن میں گرلز پرائمری اسکول شامل ہیں۔ اسی طرح تو اکثریتی علاقوں میں ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکا اگر تعلیم یافتہ ہو تو ایک خاندان تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور اگر ایک عورت تعلیم یافتہ ہو تو کئی خاندان تعلیم یافتہ بن جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک خواتین کے بنیادی مسائل، وسائل اور ان پر ہونے والے مظالم کو ختم نہیں کیا جائے گا یہ معاشرے اپنی قدریں نہیں پا سکے گا اور نہ ہی ہمیں کسی روشن مستقبل کا خواب دیکھ سکیں گے۔
 
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.