عاصمہ عزیز، راولپنڈی
انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس کے علم اور عقل کی بنیاد پر دیا گیا
ہے۔ ورنہ خواہشات اور احساسات تو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں۔ بھوک لگنے اور
درد کی شدت سے وہ بھی اپنے انداز میں احتجاج کرنا جانتے ہیں۔ تاہم سوال یہ
ہے کہ علم اور عقل کیا ہے؟ علم صرف یہ نہیں کہ انسا ن دنیاوی ڈگریوں کا
پلندہ اکھٹا کر کہ جذبات کی رو میں بھٹکتا چلا جائے۔ دنیا کی تعلیم جب تک
انسان میں صحیح اور غلط، جائز اور ناجائز کا شعور بیدار نہ کرسکے تو وہ
تعلیم بے فائدہ ہے۔
ایک ڈگری یافتہ شخص کو ڈاکو اور چور بننے میں شاید وقت نہیں لگے گا، لیکن
حرام و حلال جائز اور ناجائز کا شعور رکھنے والا دنیاوی اعتبار سے کم علم
انسان کو شاید چور بننے میں کافی وقت درکار ہوگا۔ علم اور عقل یہ ہے کہ
انسان اپنے نفس اور خواہشا ت کی پیر وی کیے بنا اﷲ کی رضا اور خوشنودی کے
مطابق عمل کرتا چلا جائے۔ اﷲ کی خوشنودی صرف چند عبادات کر کے حاصل نہیں کی
جاسکتی۔ آج کا انسان پانچ وقت کی نماز پڑھنے، روزے رکھنے اور کچھ مذہبی
رسومات کو ہی عبادت سمجھتا ہے۔ باقاعدگی سے نمازپڑھنے اور روزے رکھنے سے
عبادت کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ اگر عبا دت کا مطلب نما ز پڑ ھنا اور روزے
رکھنا ہی ہوتا تو پھر نما ز اور روزے کی ادائیگی کے بعد زندگی کی دِ قت ختم
ہو جانی چاہیے تھی۔
عبا دت کا مفہوم بندہ بننا اور بندگی کے ہے۔ یعنی انسان جب اﷲ کا بندہ بنتا
ہے توہر وہ کام کرتا ہے جو اس کا رب چاہتا ہے اور اﷲ نے انسان کو اپنی
عبادت کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں سے بھی حسن سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا
ہے۔ انسانوں کی مدد اور اگر غلطی کوتاہی ہو جائے تو ان کو معاف کرنا اور
اسکی تمام مخلوق سے محبت کرنا یہ سب اﷲ کی محبت و رضا حا صل کرنے کے راستے
ہیں۔
اگر زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد اپنی ذمہ داریوں کو پیسے
کی بجائے عبادت سمجھ کرادا کرنا شروع کردیں تو شاید غریب اور امیر کے تصور
میں کافی حد تک کمی واقع ہو جائے۔ معاشرے میں بدعنوانی اور کرپشن جیسے بہت
سے مسائل حل ہوجائیں۔ مگر مال و دولت کی اس دوڑ میں ہر شخص ایک دوسرے کو
تکلیف پہنچاتا اور اپنے مقاصد کو پورا کرتا دیکھائی دے رہا ہے۔ صورتحال اس
قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ اپنے چند روپوں کی خاطر کسی کے ہزاروں کا بھی
نقصان ہورہا ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا۔
ہمارے معاشرے کا مقدر کچھ ایسے افراد بن گئے ہیں جن کی گفتار ان کے کردارکی
چغلی کھاتی دیکھائی دیتی ہے۔ عملی زندگی میں جہاں کہیں انسا نیت سے حسن
سلوک اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا حق ادا کرنے کی باری آتی ہے تو اس وقت
اسلام اور اس کی تعلیما ت کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑتے
ہیں۔ قوم کے مفادات کو داؤ پر لگا کر اپنے بینک بیلنس بڑھانے میں سیاسی
لیڈر کوئی کمی نہیں کررہے تاہم ان پر انگلیاں اٹھانے والے بہت سے عملی
مسلمان ہونے کے دعویدار بھی یہی کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ بھر ی محفل
میں ایک دوسرے کی بڑھا چڑھا کی برائیاں کرنا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔
موجودہ دور کے لوگ نہ تو کسی کے مال کے خیر خواہ ہیں اور نہ ہی کسی کی عزت
کے۔
دوسرے کے کمر میں چھراگھونپتے وقت ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے اوپر بھی ایک
ایسی ذات ہے جو ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کو اچھے سے جانتی ہے۔ اگر آج ہم
اپنے مفادات کی آڑ میں دوسروں کے آرمانوں کا خون کریں گے، ان کی عزت خراب
کریں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھری محفل میں ہمارا پردہ چاک نہ کردے۔
معاشرے میں ہماری عزت اور مقام سب خاک میں نہ مل جائے۔ ایسے ہی لوگوں کے
بارے میں آپ ﷺ نے فر ما ی: ’’میر ی امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن
نماز کیساتھ، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا (لیکن) اس نے کسی کو برا بھلا
کہا ہوگا، کسی پر بہتان با ندھا ہو گا ، کسی کا نا حق مال کھایا ہوگا اور
کسی کو ناحق قتل کیا ہوگا ، کسی کو مارا ہوگا۔ پھر ان لوگوں کواس کی نیکیاں
مل جائیں گیں اور اگر اس کی نیکیاں اس کے گناہ کے بدلے میں ادا کرنے سے
پہلے ختم ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی خطائیں اس پر ڈال دی جائیں گی اور پھر
اسے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
ہمارے دنیاوی امتحان بہت ہوتے ہیں تاہم ہمارا اصل امتحان ہی یہیں ہے کہ
دنیا میں ہم کس طرح دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کس طرح اپنی
دنیا کو دین کے تابع کرتے ہیں۔ کیسے اﷲکے ذکر اور عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی
دی ہوئی صلاحیتوں کو اچھے طریقے سے استعمال کر کے انسانیت کی خدمت کرتے
ہیں۔ جب تک ہم اﷲ کی دی ہو ئی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرتے رہیں گے
اور انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر وشکر کرتے رہیں گے تو شاید پھر
ہم اس مالک کائنات کی عبادت کا حق کچھ حد تک ادا کر پائیں گے۔
چاہتے تو سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا پیدا تو کر قلب سلیم |