تھر دیہی ترقیاتی منصوبے کے بانی
ڈاکٹر کھٹو مل کا کہنا تھا کہ فوج اور سول سروسز ، اب کچھ تبدیلی آئی ہے ،
تھرپارکر کا ایک ہندو ڈاکٹر فوج میں کیپٹن بن گیا ہے۔ سندھ میں ہندو اقلیت
کو تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو ہندوؤں اور
مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے ، تھر میں دو ہزار قصبے ہیں لیکن اسکول صرف
پندرہ ہیں ، میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ نوجوان کراچی یا حیدرآباد
چلا جاتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ اپنی برادری کو سہارا دینے کے لئے واپس
نہیں آتے۔"ڈاکٹر کھٹو مل کے مطابق باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے تھر
میں صورتحال تبدیل ہوئی ورنہ ہندو مسلمان مل جل کر رہتے رہے ہیں اور دونوں
دیوالی اور عید میں مذہبی جذبات کا خیال رکھتے رہے ہیں ، قصائی اور مسلمان
ہندوؤں کے جذبات کا خیال کرکے گائے کی قربانی نہیں کرتے تھے۔ مٹھی میں بڑا
گوشت نہیں ملتا تھا ، لیکن جب تھرپاکر میں کوئلہ ملا تو باہر کے لوگوں کی
وجہ سے حالات بدل گئے۔مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے حوالے سے ان کا ماننا ہے
کہ"میں سمجھتا ہوں پاکستان میں ایک حقیقی تقسیم ہے ، وہ جو انگریزی بول
سکتے ہیں اور وہ جو انگریزی نہیں بول سکتے ، جس کے پاس دولت ہے وہ ملک میں
کہیں بھی پھل پول سکتا ہے۔"پاکستان کے عیسائی گستاخ رسول ایکٹ کے بدرجہ
مخالف ہیں، مغربی دنیا بھی ان کی ہم نوا دکھائی دیتی ہے۔دیار مغرب کا ایک
دانشور طبقہ اس ایکٹ کا موئد ہے ، لیکن بی بی سی ٹیلی وژن کی ایک پروگرام
سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی بی سی ناظرین معقولیت پسند ہیں۔ وہ گستاخ مسیح ایکٹ
کے حامی ہیں اور اسے مزید سخت بنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی لحاظ سے بھی گستاخ
مسیح کی ذرا بھر بھی گنجائش نہ رہے اور مجرم کی کماحقہ گرفت کی جاسکے۔ یہ
روداد لندن کے مشہور ہفت روزہ ’ میتھو ڈسٹ ریکارڈر‘بابت ۱۷؍مارچ ۱۹۹۶ ء
میں جریدہ کے مستقل کالم نگار میلکم مور کی ترتیب دہ ہوئی ہے۔بی بی سی کے
ناظرین اور اہالیان ِ برطانیہ کے رویہ سے گستاخ رسول ﷺ ایکٹ کی حمایت کا
خوش کن پہلو عیاں ہے ۔ واضح ہو کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں حیات مسیح پر
بننے والے فلموں کا خاصا حصہ قبل اعتراض اور دل آزار ہوتا ہے جس کی مخالفت
میں مسلمانوں کا پیش پیش ہونا قبل فخر ہے ، معقولیت اور سلیم لطبع عیسائی
بھی ایسے احتجاجی جلسوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ مذکورہ رودار یہ ہے۔گستاخ
مسیح ایکٹ ، ’ یہ لوگ ٹی وی پروگراموں میں گستاخی مسیح پر بھی نالاں ہیں بی
بی سی نے پوچھا کہ کیا متعلقہ قانون کو سخت بنایا جائے ؟․ یہ سوال اس طرح
پیدا ہوا کہ ۱۹۸۹ ء میں بنائی گئی ایک فلم Visionog Ecstasy کو برطانوی
فلم سنسر بورڈ نے گستاخی مسیح کی بنیاد پر رد کردی تو فلمساز نے انسانی
حقوق کے یورپی کمیشن کے یہاں اپیل کردی ، مختلف مسیحی و مسلم افراد سے رائے
لی گئی‘۔"نارمن پائپر نے فلم دیکھ کر کہا کہ ایک مسیحی ہونے کے ناطہ اسے"
سخت صدمہ پہنچا ہے"۔اس کی رائے میں ہر مذہب کو لوگ اسے دل آزار قرار دیں گے،
ایک مسلمان عورت نورجہاں نے فلم کو جذبات مجروح کرنے والی قرار دیا اور کہا
کہ کچھ حصے ناقابل نمائش تھے ، میں تو آنکھیں بند کرلیتی تھی".۔سلمان رُشدی
پر فتوی سے مسلمانوں کے جذبات کے احترام میں اور حال ہی میں ایک لباس پر
ڈیزاینر کی طرف سے قرآنی الفاظ کو ٹی وی اور پریس میں دکھائے جانے پر
استسلسلنے وسعت پکڑی کی مسلمان جس چیز کو دل آزار سمجھیں ، اس پر بھی
کنٹرول کیا جائے۔اکسفورڈ کے دینی رہنما نے کہا کہ ا گر آرٹسٹ اور مصنفین
ایسے معالات میں خود احتسابی کریں تو یہ برا نہیں ہوگا ، اس کا اپنا خیال
تھا کہ" اگرچہ گستاخ مسیح کا موجودہ قانون بعض معنوں میں غیر معیاری ہے
لیکن اسے ختم کرنے کا مطلب یہ منفی اشارہ ہوگا کہ ہماری سوسائٹی میں مذہب
کو کچھ مقام حاصل نہیں ہے"۔اکثر عیسائیوں کی رائے بھی یہی ہے۔
لاہور میں قائم عیسائی ادارہ "سالوشن آرمی"افغان جہاد میں براہ راست ملوث
تھا اور ا سنے افغان خانہ جنگی میں مختلف دھڑوں کی مدد کی۔36عیسائی
نوجوانوں نے خودد کو مسلمان ظاہر کرکے افغان مجایدین کی دو تنظیموں سے
تربیت حاصل کی، اب انہوں نے طالبان کی طرز پر اپنی تنظیم " کرسچین
طالبان"تشکیل دی جو پاکستان میں عیسائیوں کے خلاف ہونے وا لی کاروائیوں کا
توڑ کرے گی۔ صحافیوں کے کام میں رکاؤٹ ڈالنا سراسر غنڈہ گردی ہے۔ شہباز
کلیمنٹ بھٹی نے پنے ساتھیوں کے ساتھ جریدہ’ کرسچین ٹائمز‘ کے چیف ایڈیٹر پر
قاتلانہ حملہ کیا اس کے خلاف تعزیرات ِ پاکستان کی دفعات ۱۴۸، ۱۳۹،۴۵۲،۵۰۶
کے تحت مقدمات درج ہوئے۔ یہ کرسچین لبریشن فرنٹ کے سربراہ وہی شہباز بھٹی
ہیں جنہوں نے کلنٹن کے پاک بھارت دورہ سے قبل انہیں خط لکھا تھا کہ "پاکستان
مسلم دہشت گردوں کا ملک ہے جس میں عیسائیوں کا برا حال ہے ، یہاں آکر ان پر
دباؤ ڈالیں ! "سینٹ انتھونی چرچ لاہور میں دوران عبادت تین مسیحی افراد نے
مسلح ہوکر چرچ کی بے حرمتی ، مذہبی کتابوں کی توہین کی اور شرکا ء عبادت کو
ہراساں کیا ان دہشت گردوں کے لاف پہلے بھی متعدد سنگین قسم کے مقدمات درج
ہیں۔پاکستان میں اقلیت کے نام پرحقوق مانگنے والے اپنے مطالبات میں کہتے
ہیں کہ اقلیتی افراد کو کلیدی اسامیوں پر فائز کیا جائے ، صوبائی کابینہ ،
مرکزی وزارتوں ، بلدیاتی اداروں ، غیر ممالک میں بھیجے جانے والے وفود ،
کھیلوں کی ٹیموں ، ہائی کورٹ کی ججوں کی اسامیوں میں اقلیتوں کو نمائندگی
دی جائے ، اقلیتی افراد بھی صوبائی وزرا اعلی ، گورنر ، وزیر اعظم اور صدر
مملکت منتخب کئے جائیں ، اسلامی قوانین منسوخ کئے جائیں آئین سے قراداد
مقاصد کی بالادستی ختم کی جائے ، اسلامی نظریاتی کونسل توڑ دی جائے ، طریق
انتخاب رائج کیا جائے ، ملک کا اسلامی تشخص ختم کرکے پاکستان کو سیکولر
اسٹیٹ ڈکلیئر کیا جائے ، عیسائی بچہ پیدا ہونے پر اس کا پانچ فیصد وظیفہ
لگنا چاہے ، حکومت کے زیر اہتمام چلنے والے اسکولوں میں سرکاری خرچ پر
عیسائی اساتذہ مقرر کیے جائیں جو عیسائی بچوں کو بائبل کی باقاعدہ تعلیم
دیں ، میٹرک کے امتحانمیں حافظ ِ قرآن کیلئے ۲۰ نمبروں کی خصوصی رعایت ختم
کی جائے یا عیسائی بچہ اپنی مذہبی تعلیم کا سرٹیفیکٹ پیش کردے تو اسے بھی
امتحان میں ۲۰ فیصد اضافی نمبر دئیے جائیں۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی
نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔
16"کروڑ عیسائیوں کی نمائندہ تنظیم ’ ورلڈ ایو نجیلی کل‘ کی ایک رپورٹ کے
مطابق اقلیتں دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت اور امتیاز کا شکار ہیں" ۔برطانیہ
میں سیاہ فام اور دوسرے اقلیتی گروپوں میں بے روزگاری زیادہ ہے ، نسلی
بنیادوں پر تشدد عروج پر ہے۔سیاہ فام، پولیس تشد د سے مرتے ہیں ،ارجنٹائن
میں رومن کھتولک حکومت ہے وہاں 35ملین آبادی کے پروٹسٹنٹ فرقوں کو تسلیم ہی
نہیں کیا جاتا ۔ وہ اپنا وجود منوانے کیلئے ریلیاں و جلوس نکالتے ہیں۔
بلغاریہ میں آرتھوڈکس چرچ کو ’ریاستی مذہب ‘ کا درجہ حاصل ہے ، حکومتی فرقہ
نے متھیوڈسٹ عیسائیوں کا گرجا چھین کر اسے پتلی گھر بنا دیا۔ گرجا بنانے
کیلے پلاٹ کا تنازعہ رہا۔بھارت میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے ،
زبردستی مسلمانوں کو گھر واپسی مہم کے تحت ہندو بنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا
کے ایک پادری کو بمعہ بال بچے جلادیا گیا ، ہندو برملا کہتے ہیں مسلمانوں ،
سکھوں ، عیسائیوں ، کسی بھی غیر ہندو کے واسطے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں،
ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو۔ برہما میں بدھ مت کے پیروکاروں
اور فوجی حکومت کے ہاتھوں روہنگیا کے مسلمان سخت آلام و مصائب میں مبتلاہیں
انہیں لوٹا ، پیٹا اور مارا جاتا ہے مساجد برباد اور گھر مسمار کئے جاتے
ہیں شعائر اسلام پر پابندیاں عائد ہیں نوجوانوں کی داڑھیاں نوچی جاتی
ہیں۔برہما میں کیرن عیسائیوں کا حال بھی برا ہے لیکن وہ اُٹھ کے تھائی لینڈ
چلے گئے ان پر بھی عیسائی تنظیمیں ان کی حالت ِ بد پر مضطرب ہیں اور ان کی
حالت زار پر کانفرنسیں کرتیں ہیں ۔سات لاکھ بھارتی فوجوں کا شکار کشمیری
مسلمان کی بے بسی کسی کو نظر نہیں آتے ، اجتماعی عصمت دری ، قتل و غارت اور
آتشزدگی اور اغوا روز کا معمول ہیں۔متعدد واقعات ہیں جو عالمی توجہ کے
مستحق ہیں۔دراصل تمام حقائق کا لب و لباب یہ ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ بد
سلوکی ، اکثریت کیجانب سے ایک معاشرتی بگاڑ ہے اس میں کسی مذہب کی جانب سے
خصوصی طور پر نشانہ بنانے کے احکامات نہیں ہیں۔پاکستان میں بھی اقلیتوں کے
ساتھ سلوک میں اگر چند عناصر ملوث آتے ہیں تو ان کا نظریہ سیاسی مقاصد کا
حصو ل اور اپنی منافرت کی سیاست کو چمکانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی
اقلیتوں کے ساتھ کسی واقعے کو اسلام سے جوڑنا نامناسب ہے ۔ اسی پاکستان میں
اقلیتوں پر احمدی عبادت گاہ حملہ کیس میں مجرموں کو سات سات بار پھانسی کی
سزا بھی سنائی گئی۔ ہمیں معاشرتی بگاڑ اور ناہمواریوں کو رنگین آئینے سے
دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔مذہبی اقلیتوں کے جائز حقوق کے حوالے سے ہمیں
جذباتی ہونے کے بجائے حقائق کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے۔ |