صنف نازک کی گواہی
(سمعیہ سعید, Rawalpindi )
قارئین کرام! کچھ عرصہ قبل میری
فیس بک پہ ایک اپ ڈیٹ پہ نظر پڑی جس نے اچھا خاصا چونکا دیا۔ ا کینیڈا میں
رہائش پذیر ایک خاتون نے (گو کہ نام وہ مسلم اور پاکستانی ہی رکھتی تھیں)
بڑے ہی دہائی دینے والے انداز میں اسلام کی خواتین کے ساتھ "ناانصافی" کا
رونا رویا ہوا تھا اور وہ رونا تھا "عورت کی آدھی گواہی کے متعلق، کہ
اسلام عورت کو مساوی حقوق نہیں دیتا اور اسلام میں عورت کی آدھی گواہی
ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ- خاتون گہرے مطالعے، ریسرچ اور منطق جیسے الفاظ سے نا
آشنا دکھائی دیں تو سوچا انکو اس حکم کی منطق کے متعلق آگاہ کر دوں۔ ساتھ
ہی لگے ہاتھوں یہ بھی پوچھنے کی جسارت کر ڈالی کہ محترمہ آپ کے خیال میں
دنیا کا امن محض اسی لیئے روبہ ذوال ہے کہ عورت کو "آدھی گواہی" کا "حق"
میسر نہیں؟ بس یہ تبصرہ کرنے کی دیر تھی ، خاتون نے اپنی روشن خیال "امن
پسندی" کا اپنے ہاتھوں سے ہی قیمہ بنا ڈالا۔ الفاظ تھے کہ بھڑکتے ہوئے شعلے
۔ ایسا لگتا تھا کہ انکا بس نہیں چل پا رہا تھا کہ وہ اپنے حسین لمبے
ناخنوں کو کسی طرح اپنے کمپیوٹر کی سکرین سے پار گزار کے ہزاروں میل دور
میرے لیپ ٹاپ کی سکرین کے آگے سجے میرے معصوم سے چہرے کو نشانہ بنا
ڈالیں۔- شکر اللہ کا انٹرنیٹ پہ صرف الفاظ، تصویر اور آواز تک ہی رسائی ہے
سو خیریت رہی اور خاتون نے اپنے دل کا، دوستوں احباب،غم روزگار،بدتمیز
بچوں، جھگڑالو شوہر، سسرال وغیرہ وغیرہ کا غصہ میری نازک جان پہ نکال لینے
کے فوری بعد جانتے ہیں کیا کیا؟ جی ہاں! میری آئی ڈی بلاک کردی۔ میری
آزادی اظہار رائے کا بنیادی حق سلب فرماتے ہیں-
قارئین کرام! یہ وہ لوگ ہیں جو مقدس احکامات اور مقدس ہستیوں تک کے تقدس کو
اپنی "آزادئ اظہار رائے " کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور خود ان کی
"برداشت " کا یہ عالم ہے کہ اپنی رائے میں کسی کا اختلاف ان کو پاگل پن کی
حد تک مشتعل کر دیتا ہے۔ اولاُ تو اس منافقت کے مظاہرے پہ مجھے شدید حیرت
ہوئی۔ پھر خیال آیا کہ جہاں آپ ہر جگہ منفی پہلو نکالنے کے عادی ہوں،،
اپنی قوم میں، مذہب میں، ملک میں، لوگوں میں، ہر جگہ سب کچھ آپ کو غلط نظر
آتا ہو - تنقید کرنا آپ کو جدید فیشن کا حصہ لگتا ہو، کسی بھی درجے کی
اچھائی کو یا مثبت پہلو کو آپ کی خوبصورت آنکھیں دیکھ کر بھی نہ دیکھ
پائیںتو اس کا مطلب یہی نکل سکتا ہے کہ آپ کویا تو کسی اچھے آئی سرجن کی
ضرورت ہے یا پھر کسی بہترین دماغی معالج کی۔
اب بات کرتے ہیں "عورت کی گواہی " سے متعلق اسلامی حکم کی۔ مگر اس سے پہلے
میں یہ وضاحت ضرور کرتی چلوں کہ میرا دین کا علم انتہائی محدود ہے اور عمل
محدود تر۔ مگر جب بھی اسلامی امور کی لاجکس کا مطالعہ کیا، ایمان اور مضبوط
ہوا۔ جیسے کہ "عورت کی گواہی" کے متعلق حکم۔ یہاں میں یہ بات بہت یقین سے
کہہ سکتی ہوں کہ اس حکم کے خلاف واویلا مچانے والی نام نہاد روشن خیال
(درحقیقت تنگ نظر) خواتین نے خصوصاُ کبھی بھی اس حکم سے متعلقہ آیت کا
ترجمہ یا تفسیر نہیں پڑھی ہو گی ورنہ وہ اس رعایت پہ اللہ کا شکر ہی ادا
کرتیں جو آدھی گواہی کی صورت میں انہیں ملتی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق:
اے اے ایمان والو جب تم مقررہ مدت تک قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو-
اور کاتب تمہارے درمیان انصاف سے لکھے، اور کاتب جیسا کہ اللہ نے اسے
سکھایا ہے لکھنے سے انکار نہ کرے، وہ ضرور لکھے- اور جس کے ذمے (قرض) ہو وہ
لکھائے، اور اپنے رب اللہ سے ڈرے، اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے- پھر
اگر وہ جس کے ذمے (قرض) ہو نا بے عقل یا ضعیف ہو، یا لکھ نہ سکتا ہو، تو اس
کا مختار انصاف سے لکھوائے- اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ بلا لو، پھر اگر
دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہو جائیں۔ ان میں سے جو تم بطور
گواہ پسند کرو، تا کہ اگر ان میں سے ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد
دلا دے۔ اور گواہوں کا جب بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔اور قرض تھوڑا ہو
یا بہت اس ( کی دستاویز) لکھنے میں کاہلی نہ کرنا- یہ بات اللہ کے نزدیک
زیادہ منصفانہ اور گواہی کے لئے زیادہ مضبوط ہے اور اس طرح زیادہ امکان ہے
کہ تم شبہ میں نہ پڑو۔ لیکن اگر یہ حاضر تجارت ہو جو تم دست بدست کرتے ہو
تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اسے نہ لکھو- مگر جب خرید و فروخت کرو تو
گواہ کر لیا کرو، اور کاتب اور گواہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے- اور اگر تم
ایسا کروگے تو یہ تمہاری سیہ دلی ہو گی۔ اور اللہ سے ڈرو- اور اللہ تمہیں
تعلیم دیتا ہے- اور اللہ ہر بات جانتا ہے (سورۃ بقرۃ- 282)
قرآن پاک واضح طور پہ یہ رعایت اور سہولت خواتین کو دیتا ہےان کے بھول
جانے کے قدرتی اور واضح احتمال کی وجہ سے۔ ان کی جسمانی نزاکت اور ذہنی
جذباتیت کے باعث۔ یہاں یہ واضح رہے کہ بھول جانے سے مراد دماغی ضعف نہیں ہے
لیکن اگر کوئی بدگمان ہونے میں لطف پاتا ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ
ایک حقیقت ہے کہ خواتین انتہا درجے کی حساسیت، جذباتیت ،نازک دل اور نازک
ترین احساسات رکھتی ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ کوئی رینگنے والا جانور،
کیڑا مکوڑا سامنے آجائے تو جان نکل جاتی ہے۔ قارئین کرام میں اگر یہاں
اپنے اس قسم کے بچگانہ مگر خوفناک و بھیانک قسم کے تجربات قلمبند کرنے لگوں
جو کہ اچانک کوئی چھپکلی یا کوئی بلی یا چوہا وغیرہ دیکھ لینے پہ رونما
ہوئے تو میرے خیال سے مضمون کی طوالت کئی 100 صفحات پر جا سکتی ہے۔
میرا دوران تعلیم اپنے کلاس فیلوز اور بعد ازاں جاب کے دوران مرد کولیگز کے
ساتھ ہمیشہ بہتر کارکردگی دکھانے کا مقابلہ رہتاآیا ہے۔ اور مجھے ہمیشہ
بہت اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ میں کن کن کاموں میں ان سے سبقت لے جا سکتی
ہوں۔لیکن جہاں پہ بھی بات آتی ہے جسمانی طور پہ کوئی بوجھ اٹھانے کی ، کسی
بھی طرح سے خوف زدہ کر دینے والے عوامل کا سامنا کرنے کی، یا کام کے دوران
کسی مشکل ٹاسک کا دبائو برداشت کرنے کی، تو میں نے ہمیشہ اپنے بھائی لوگوں
کو ہی میدان مارتے دیکھا ہے۔ وجہ؟ بہت سادہ- ہم صنف نازک خوف یا پریشانی کا
دبائو برداشت نہیں کر پاتیں-
اور یقین کریں کہ قرآن کی اس آیت میں "بھول جانے" والی بات کو نمایاں
کرنے پہ مجھے اللہ پاک پہ بہت پیار آیا۔ کیونکہ ذہنی دبائو کے عالم میں
یادداشت کیسے متاثر ہوتی ہےیہ بھی میرا ذاتی تجربہ و مشاہدہ ہے- مجھے اپنی
کسی بھی کمی یا کوتاہی پہ ہرگز کوئی شرمندگی نہیں ہے کیونکہ اسی لیے تو میں
صنف نازک کہلاتی ہوں اور اسی لیئے تو مجھے "آبگینے " (کرسٹل) سے تشبیہ دی
گئی ہے۔ اور اسی لئے اسلام مجھے پوری گواہی کا بوجھ اٹھانے سے رعایت دیتا
ہے۔ یہ اللہ کے رحم کی ایک اور بہت خوبصورت مثال ہے مگرظاہر ہے صرف سمجھنے
والوں کے لئے۔ چنانچہ ایک ایسا حکم جو قرآن نے صریحاُ میری ہی بھلائی کے
لئے اور مجھے گواہی جیسے گراں کام کا بوجھ آدھا کم کرنے کی صورت میں دیا،
اس پر مجھے اور میری تمام مسلم امت کی بہنوں کو اللہ کا شکر بجا لانا
چاہئے۔
اب آئیے ایسی کسی صورتحال کا حقیقی مناظر میں جائزہ لیں۔اس ضمن میں میرے
آپ سے چند سوالات ہیں:۔
آپ سب میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں (مرد حضرات) جنہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی
میں، کسی عدالت میں جا کراپنی گواہی کا حق استعمال کیا ہے؟ کیا آپ ایسے
کسی شخص کو جانتے ہیں جس نے کبھی بھی یہ حق استعمال کیا ہو؟ قارئین میں
میری کتنی بہنیں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی جرم یا حادثہ اپنی آنکھوں سے
ہوتے دیکھا؟ کیا آپ نے کبھی اپنی گواہی کا حق استعال کیا؟ یا اس کے بارے
میں سوچا بھی؟ "
پوری دنیا میں گواہوں کا تناسب جرائم کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اور
پاکستان میں یہ شرح کہیں زیادہ کم ہے۔ پاکستان میں تو لوگوں کو انصاف ملنے
کا یقین ہی نہیں ہوتا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اصل مسئلے کا اندازہ نہیں ہوتا اور ہم صرف اور
صرف قیاس آرائیاں، ذاتی یا ادھارلئے ہوئے خیالات ، کم علمی اور بیرونی
دنیا کے مروجہ رجحان کے مطابق اس مسئلے پہ صرف اور صرف تنقید کرنا شروع ہو
جاتے ہیں۔ تنقید برائے تنقید سے بات دور تک نکل جاتی ہے، وہ والا مسئلہ تو
وہیں کا وہیں رہتا ہے، کوئی نیا مسئلہ یا مسائل ہماری ہنسی اڑاتے تشریف لے
آتے ہیں۔ سو یہ ہم لوگوں کی کامن سینس کا حال ہے۔ ہمارا مسئلہ سرے سے عورت
کی آدھی یا پوری گواہی ہے ہی نہیں کیونکہ پاکستان کے عوام حصول انصاف کے
لئے صرف اس مسئلے کے وجہ سے نہیں رل رہے ہوتے۔ ہمارا مسئلہ لاقانونیت
ہے۔ ہمارا مسئلہ انصاف کی راہ میں کھڑی کی جانے والی لاتعداد رکاوٹیں ہیں۔
ہمارا مسئلہ وہ بے حسی ہے، جس میں لوگ اپنی آنکھوں سے حادثہ یا جرم ہوتے
دیکھتے ہیں مگر پولیس کے چکر کی وجہ سے اپنی جان بچا کے بھاگنے والا کام
کرتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ وہ بے بسی ہے جو آپ کو اپنی ہی پولیس اور اپنی ہی
عدالتوں پہ اعتبار نہیں کرنے دیتی۔ آہ!! جہاں پیسے دے کہ گواہ مل جاتے ہوں
اور جہاں اصلی گواہ کو جان کی دھمکیاں دی جائیں،جہاں فرض شناس پولیس افسران
، وکلا اور ججز ٹارگٹ کلنگ میں مارے جائیں، وہاں پہ آپ رونا روتے ہیں محض
"عورت کی گواہی" کا، تو یقینی طور پہ آپ کو ہمارے مسئلوں میں نہیں، ہمارے
مسئلوں کو مزید بڑھاوا دینے میں دلچسپی ہے۔
سو میری تمام مغرب زدہ افکار کے زیراثر آکر اسلامی احکامات پہ نکتہ چینی
کرنے والے لوگوں سے گزارش ہے کہ براہ مہربانی اس امر کی منطق کو سمجھئے۔
تحقیق کیجئے اور بنا کسی تعصب کے بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ یہ احکام
ہماری ہی فلاح اور نجات کے لئے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو خیر عطا فرمائے۔
آمین۔ |
|