عقیدہ ختم نبوت
(usman ahsan, Liverpool UK)
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ
بنیادی عقیدہ ہے جس میں معمولی ساشبہ بھی قابل برداشت نہیں‘ حضرت امام اعظم
امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ:
”جو شخص کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے دلیل طلب کرے وہ
بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے-
عجب دور ہے یہ ہر کوئی درس انسانیت اور حقوق کا درس دیتا دکھائی دیتا ہے ۔
سیکولر طبقہ تو یہ چاہتا ہے کہ مذہب کو لفافہ میں بند کرکے کہیں رکھ دیا
جائے ۔ کہتے ہیں نرم بات کرنی چاہئیے دوسرے کی رآئے کا احترام کرنا چاہئیے
۔ جہاں تلک میری ذات کی بات ہے گر کوئی میرا گریبان پکڑے تو اس سے نرم بات
ہوسکتی ہے لیکن میرے آقا علیہ السلام کے ختم نبوت کے تاج پر ہاتھ ڈالنے
والوںسے نرم بات نہیں ہوسکتی ۔ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھیں قتل کردیا
جائے اور قادیانیوں کو بھی چاہئیے آئین پاکستان نے جو قیود و حدود مقرر کیں
ہیں ان کے اندر رہ کر زندگی گذاریں ۔ آئین پاکستان نے بھی احمدیوں کو غیر
مسلم اقلیت قرار دیا اور انھیں شعار اسلامی کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں ۔
لبرل دانشور یہ سنکر تپ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسانیت بھی کوئی چیز
ہوتی ہے - ان سے گذارش ہے کہ اپنی انسانیت اپنے پاس سنبھال کر رکھیں ، جو
فخر انسانیت باعث تخلیق کائنات کے تاج ختم نبوت پر ہاتھ ڈالے گا اس کے خلاف
لکھنا اور بولنا ہر مسلمان کا حق ہے ۔ ہر ایرا غیرا اٹھ کر ناموس رسالت پر
ہاتھ ڈالتا ہے اور ہمیں درس دیتے ہیں کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے - جناب
اسلام امن کیساتھ غیرت کا درس بھی دیتا ہے ۔ تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ
جب مرزا غلام احمد قادیانی سے مناظرہ کرنے نکلنے لگے تو اسوقت بھی لوگوں نے
آپکو مشورہ دیا کہ جناب آپ درویش اور پیر ہیں آپ خانقاہ میں بیٹھ کر الله
الله کریں تسبیح پھیریں اور یہ مناظرے کرنا مولویوں کا کام ہے ۔ پیر مہر
علی شاہ نے فرمایا جنھوں نے ہمیں یہ مخلصانہ مشورہ دیا ہے وہ اخلاص کا معنی
ہی نہیں جانتے دوسرا مرزا کانے نے میرے آقا کے تاج نبوت پر ہاتھ ڈالا ہے
اور وہ لاہور میں مناظرے کا چیلنج کررہا ہے اور میں خانقاہ میں بیٹھ کر
پیری فقیری کرتا رہوں ، ایسی بے غیرت پیری مجھ سے نہیں ہوتی ( ملفوظات
مہریہ صفحہ ١٧ ) - قادیانی خاتم کا معنی کرنے میں مغالطہ اور دھوکہ دینے کی
مذموم کوشیش کرتے ہیں حالانکہ میرے آقا علیہ السلام نے خود خاتم کا معنی
فرما دیا لا نبی بعدی انا خاتم النبیین ، میرے بعد کوئی نبی نہیں میں آخری
نبی ہوں ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے بعد اب کسی کانے دجال کمینے
کو خاتم کے معنی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے کانا تو کانہ تھا گر کوئی ہوا
میں اڑ کر بھی آجائے تو ہم اسے نبی ماننے کو تیار نہیں ۔
انھیں مانا انھیں جانا نہ رکھا غیر سے کام
للله الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا ۔
دنیا میں اگر اسلام پر گلہ کرتا تو مصعب بن عمیر کرتے تو جچتا بھی کیونکہ
قبول اسلام سے قبل وہ چار سو درہم کا لباس پہنتے تھے اور ایسی خوشبو لگاتے
تھے کہ جس رستے سے گذر جاتے تھے گھنٹوں مہک آتی رہتی تھی لیکن جب حضور کی
خاتمیت پر ایمان لائے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو جسم پر ایک پیوند
لگی چادر تھی اور مسجد نبوی میں تشریف لائے تو خاتم النبیین صلی الله علیہ
وسلم مصعب بن عمیر کی حالت دیکھکر رو دیے ۔ مصعب اگر گلہ کرتے کہ اسلام نے
مجھے کیا دیا تو جچتا بھی مگر آپ نے زبان پر حرف شکایت نہیں لائے بلکہ کہا
ہوگا ۔
جے توں میرے دکھ وچ رآضی
تے میں سکھ نوں چولھے پانواں ۔
آج لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اسلام پرآنا ہوگیا ہے نئے دور میں ہمارے ساتھ نہیں
چل سکتا اصل میں وہ خود اسلام کے ساتھ نہیں چل سکتے اقبال نے ایسوں کے لئیے
سچ کہا تھا کہ اے بٹیرے اچھا ہوا تو بدل گیا کیونکہ اسلام شاہینوں کا مذہب
ہے بٹیرے اسکے ساتھ اڑ ہی نہیں سکتے ۔ یہ بٹیرے براہ راست اسلام پر نکتہ
چینی نہیں کرتے مگر مولوی کی آڑ میں حملہ اسلام پر کرتے ہیں ۔ دیگر شعبہ
جات کی طرح مولویوں میں بھی غلط لوگ ہوں گے اور ہیں مگر اسکا مطلب یہ ہرگز
نہیں کہ آپ سب علماء کو بھونکنا شروع کردیں ۔ الله اپنے دین کا خود محافظ
ہے مگر الله نے کچھ اسباب بھی پیدا کیے جن میں سے علماء بھی ایک سبب ہیں
ختم نبوت کی تحریک میں برف کی سلوں پر لٹایا گیا علماء کو ، پھانسی گھاٹوں
تک پہنچے علماء گولیاں کھائیں قید و بند کی سعوبتیں برداشت کیں پھر جاکر
کہیں انکی جدوجہد رنگ لائی اور ختم نبوت کے منکرین کو غیر مسلم اقلیت
ڈکلئیر کیا گیا ۔ اب سیکولر اور لبرل طبقہ ہمارے بزرگوں کی محنت پر پانی
پھیرنا چاہتا ہے جوکہ محال ہے- آجکل سوشل میڈیا پر سیکولر پاکستان کی
جدوجہد اور مہم چلائی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر
مذاہب کے لوگ بھی ہیں اور پاکستان انکا بھی وطن ہے اور وہ پاکستانیت میں
مجھ سے نہ کم ہیں نہ انکی پاکستانیت پر مجھے شک ہے مگر سیکولر پاکستان کے
خواہاں حضرات کو ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر
بنا تھا ورنہ کیا ضرورت تھی سیکولر اکھنڈ بھارت سے علیحدہ ہونے کی ۔ لہذا
اپنی توانائیاں اس سمت میں نہ لگائیں کیونکہ یہ ناممکن ہے ۔
یہ تو حالات حاضرہ کا تھوڑا تذکرہ کیا آئندہ مفصل لکھوں گا آخر میں پھر اصل
موضوع کیطرف پلٹتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہءِ نبوت اور
رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق
ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ
بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ. ’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے
لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘ یہ عقیدہ اسلام کی
جان ہے ‘ ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے‘ قرآن کریم کی
ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت کی سینکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں‘
تمام صحابہ کرام‘ تابعین عظام‘ تبع تابعین‘ ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے
مفسرین‘ محدثین‘ متکلمین‘ علماء اور صوفیاء کا اس پر اجماع ہے- چودہ سو
سالہ دورمیں بہت سے کذاب اور دجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے جن کا حشر تاریخ
اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ماضی قریب میں ”قادیانی دجال“
(مرزا غلام احمد قادیانی) نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا‘ خدانے اس کو
ذلیل کیا۔ اس لئے یہ ”ختم نبوت“ امت محمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے
عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔ |
|