توہینِ رسالت ﷺ اور اس کی سزا

 بسم اﷲ الرحمان الرحیم ْ

عصمتِ انبیاء علیھم السلام کو اﷲ تعالیٰ نے تحفظ فراہم فرمایا ہے اور توہین ِ انبیاؑء کو حرام قرار دیااور تمام انسانوں کواس کا پابند کیا کہ وہ تمام انبیاء ؑ کی عزت و حرمت کا اہتمام کریں بالخصوص وہ لوگ جہ ایمان لائے ان کے لئے حرمتِ انبیاء ایمان کا حصّہ قرار دیا ۔اسلام وہ واحد دین ہے جس کے ماننے والے تمام انبیائے سابقین پر ایمان لائے اور ان کی توہین بھی کبھی برداشت نہیں کرتے جبکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اور ان کے لائے ہوئے دین کی توہین،تکذیب،اہانت،کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور توہین ِرسالت ﷺ کرنے والے کو بالاتفاق مرتد ،کافر،اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور اس کی سزا قتل ہے ۔اس طرح کی کئی مثالیں احادیث اور فقہائے اسلام کے فتاویٰ کی روشنی میں مو جود ہیں چند ایک کاذکرکرنا ضروری ہے۔طوالت کی وجہ سے عربی متن چھوڑ دیا گیا ہے ۔ (۱)حضرت عبداﷲ بن عباسؓسے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص کی باندی ام ولد تھی جوحضور ﷺ کی توہین کرتی اور گالیاں دیا کرتی تھی اس نے جذبات میں آکر خنجر سے قتل کردیا ۔جب حضور ﷺ کو پتاچلا تو آپؐ نے اس شخص سے قصاص نہ لیا بلکہ سزا کو برقرار رکھا۔ (ابوداوودص۶۰۰ مطبع نور محمد کراچی، جمع فوائد الفوائد ص۲۲۴،کنزالاعمال ج ۷ ص۳۶۷ بحوالہ ابوداوود و نسائی) (۲)حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت رسولِ کریم ﷺ کو گالیاں دیا کر تی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا کھونٹ کر قتل کر دیا حضور ﷺ نے اس شخص سے قصاص نہیں لیا۔( ابو داوود ص ۶۰۰،مطبع نور محمد کراچی) (۳)حضرت عبداﷲ بن عاصؓ نے کہا ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اﷲ ؓ سے سنا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کون کعب بن الاشرف کے(قتل) لئے تیار ہے چونکہ اس نے اﷲ اور رسول ﷺ کو بہت تکلیفیں دی ہیں۔حضرت محمدبن مسلمہ کھڑے ہوئے اور جاکر کعب بن الاشرف کو قتل کردیا حاکم کی روایت کہ کعب بن الاشرف نے اشعار کے ذریعے اسلام اور نبیٔ کریم ﷺ کے خلاف کفار کو اکسایا کرتا تھا ۔(رواہ البخاری،فتح الباری،ص۲۷ ج ۷ ،البدایہ والنہایہ ج۴ص۵،کنز الاعمال ج۵ ص۲۶۱) (۴) توہینِ رسالت و اسلام پر ابورافع یہودی کے قتل کے لیئے حضور ﷺ نے چند انصار کومامور کیا تھا۔(ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۳۸،فتح الباریج۷ص ۴۷۴) (۵)صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک آدمی نے اطلاع دی کہابن خطل کعبے کے پردوں سے لپٹاہوا ہے آپ ؐ نے فرمایا اس کو قتل کردو (البخاری،فتحالباری ج۸ ص ۱۲ ،البدایہ والنہایہ ص۴۹۲ ج ۳ ) امام ابن تیمیہؒ الصارم المسلول میں لکھتے ہیں کہابن خطل کے تین جرائم تھے ۔ارتداد، حضور ﷺ کی توہین (بد گوئی) ،اورقتل، کس جرم میں قتل کیا گیا تینوں جرائم میں یا کسی ایک میں وضاحت نہیں؟ ابن خطل کی دونوں باند یوں کوبھی قتل کا حکم تھا ان ایک قریبہ قتل کردی گئی اوردوسری قرتنا بھاگ گئی بعد میں مسلمان ہو گئی اور سزا ساکت کر دی گئی۔(البدایہ والنہایہ ج۴ ص۴۹۸،اصح السنہ ص۲۶۶) (۶)فتح مکہ کے موقع پرحویرث بن نقیذکے قتل کا حکم دیا گیا تو حضرت علی ؓ نے اسے قتل کیایہ بھی رسول اﷲ ﷺ کو اذیت دیتا تھا۔(کمافی اصح السیر ص۲۶۴)(۷)حضرت علی ؓ نے رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جوشخص کسی بھی نبی کو برا کہے اسے قتل کردیا جائے اور جوصحابہؓ کوبرا کہے اسے کوڑے لگائے جائیں۔(الصار م المسلول ص۹۲ ص ۲۹۹ امام ابن تیمیہ) آئمہ مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے کہ جوبھی نبی ﷺ یا کسی بھی نبی کی توہین کرے اس کو قتل کردیا جائے حاکم یا اس کے نائب پر لازم ہے کہایسے شخص کے لیئے کسی نرمی کا ارتکاب نہ کرے ۔(خلاصہ الفتاویٰ ج۶ ص۳۳۶)(خلیفہ مامون الرشید ایک شخص کو شرعی حکم کے مذاق اڑانے پر قتل کے حکم پر عمل کیا گیا(شرح الفقہ اکبر للقاری ص۱۳۲ تا ۱۳۴)۴۰ احادیث اور فقہائے اسلام کا متفقہ فتاویٰ مختلف خلفاء کے فیصلہ جات توہین رسالت و اسلام پر پسزائے موت دی گئی اور اسلامی ریاست کا قانون بھی یہی قرار پایا۔البتہ بحث اس بات پر ہے کہ سزا دینے کا مجاز کون ہے۔نبی ﷺ کے حکم پر جتنے بھی لوگوں کو سزائے موت دی گئی ان میں کچھ قاتل تھے جن کو قصاص میں قتل کیا گیا اور کچھ توہین رسالت کے مجرم تھے اور نبی ﷺ کو بحیثت نبیؐ اختیار تھا ایسے افراد کوجو فساد فی الارض کاموجب بن سکتے ہوں ان کو سزائے موت دی گئی۔حضور ﷺ اﷲ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق فیصلے فر ماتے تھے ۔ جبکہ کثرت احادیث وارد ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے اسلامی ریاست کے سربراہ اور حضور ﷺکے فیصلوں کی روشنی میں مرتد، قاتل،زانی ،سارق،توہینِ رسالت ؐ کے مرتکب،قذف،کی سزائیں دیں۔سزائیں جرم کی نوعیت اورتذکیۃالشہود کی بنیاد پر ریاست کی مقرر ہ عدالتی نظام کے تحت ہی نافذ ہوئیں ۔قرآنِ پاک میں ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا ہے اور کسی صورت میں بھی کسی شخص کویہ اختیارحاصل نہیں ہے کہ وہ کوئی ایسی سزا کسی ملزم، کو دے جس کا مجرم ہونا عدالتی تحقیقات میں ثابت نہ ہواور عدالتی حکم اس کی سزاکا طریقۂ کار طے نہ کرے۔یہ کام صرف اسلامی ریاست کا سربراہ ،یا اس کا نائب یعنی قاضی، جج ہی سزا دینے کا مجاز ہے۔فقہی اصول ہیں کہ کوئی قاضی غلطی سے کسی مجرم کو سزانہ دے پائے اس سے بہتر ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا دے کیونکہ انسانی جان بہت قیمتی ہے۔جو لوگ جذبات میں آکر کسی کو قتل کر دے اور گرفت میں آنے کے بعد اس کی وضاحت یہ کرے کہ مقتول نے توہین رسالت کی تھی لہٰذا میں نے غیرتِ ایمانی کی وجہ سے قتل کر دیا۔ایسے شخص نے کئی طرح کے جرم کئے ایک تو کسی کو سزا دینے کا اس کو اختیار نہ تھا ،دوسرا وہ خود توہینِ رسالت ﷺ کا مرتکب ہوا کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے اسلام میں سزا وجزا کے قوانین پر عمل کا طریق ِ کار طے کرد یا اوراس نے اس کی خلاف ور زی کی۔تیسرا مقتول کے بیان کردہ الفاظ کی خود تعبیر کی اور ایک انسان کو بغیر کسی تحقیق اور وضاحت کے قتل کر دیا۔کوئی ریاست اپنے کسی شہری کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ خود ہی مفتی ہو ،خود ی قاضی، یاجج ہواور اپنی تعبیر کے مطابق سزا نافذ کردے ایسا کرنے والا اﷲ کے ہاں بھی مجرم ہوگا اور یہاں ریاستی قانون کے مطابق اس کے خلاف بھی مقدمہ قائم ہوگا اور جرم کے ثابت ہونے پر مقررہ سزا کا مستحق ہوگا۔کیونکہ یہی قرآن و سنت کا قانون ہے۔ ۔۔(تلخیص) ۔۔۔۔ کوئی بھی شخص کھلم کھلا انبیاء علیھم السلام یا نبی کریم ﷺ کی یا اسلام کی کسی بھی انداز سے توہین کا مرتکب ہو وہ قانون کی نظر میں قابلِ گردن زدنی ہے اور وہ بالاتفاق قتل کیئے جانے کامستحق ہے۔ لیکن اگر کسی نے ایسے قوانین یا آرڈی ننس جو کسی فرد واحد نے یا اسمبلی نے بنایا ہو اور وہ معروف قوانینِ اسلام کے مغائر ہو یا قابل تعبیر ہوخواہ اس کا مفہوم کچھ بھی ہو اس کے خلاف رائے دینا یا تنقید کرنا توہینِ رسالت ﷺ و اسلام نہیں اور ان قوانین کی تشریح کا اختیار بھی عدالت کا ہے۔اگر خدانہ خواستہ ان قوانین کی حیثیت پر تنقید قرآن و سنت کی توہیں بنتی ہے تو بھی تنقید کرنے والے کے خلاف مقدمہ قائم ہوگا اور معروف تحقیقات کے مطابق عدالت سزا و جزا کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے نہ کہ کوئی فرد اپنے جذبات میں آکرکسی ملزم کو قتل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔(وما توفیقی الا بالا)
Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 33422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.