اسلحے کی دوڑ نے دنیا کو اس کی
اصل ترقی سے دور رکھا ہوا ہے اسی دوڑ نے حکومتوں کو بنیادی سہولیات سے
زیادہ دفاعی اخراجات کی فکر میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ صحت، تعلیم، خوراک، کپڑا
سب کچھ پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور جب معاملہ بھارت جیسے ملک سے درپیش ہو تو
پھر تو اس میں کسی کمی کے امکانات ہی نہیں رہتے۔بھارت سرکار کی ترجیحات میں
اسلحہ سر فہرست ہے چاہے خود اس کا باہر کا دورہ ہو یا باہر ملک سے کوئی
بھارت آئے ان کی ملاقات کا مقصدتقریباً ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے دفاعی
معاہدے یاایسی ٹیکنالوجی کا حصول جس سے وہ اسلحہ بنا سکے اور اپنے پڑوسی کو
مصیبت میں مبتلا رکھ سکے۔ اس بار بھی جب صدر اوبامہ بھارت کے دورے پر آئے
تو دونوں ملک علاقے اور دنیا کے مفادات کو بھلا کر اور بالائے طاق رکھتے
ہوئے اپنے معاہدوں اور تجارت کی فکر میں رہے۔ تجارت دو ملکوں کا حق ہے لیکن
یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ اس کا اثر عالمی امن پر کیا پڑے گا۔ بھارت اس وقت
تقریباً چالیس بلین ڈالر اپنے دفاع اور اسلحے پر خرچ کر رہا ہے اور ہر قسم
کا بے تحاشا اسلحہ خرید رہا ہے جس میں ایٹمی اسلحے کی تیاری بھی شامل ہے۔
اگر چہ پاکستان اور بھارت دونوں نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے لیکن بھارت
اس وقت نیوکلیئر سپلائیر گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے اور
وہ بھی اپنی شرائط پر جبکہ بھارت نے اس سے پہلے بھی اپنے ایٹمی تنصیبات اور
اثاثوں کے بارے میں کسی اچھی ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا۔ بھوپال میں یونین
کاربائیڈ میں ہونے والے حادثے کے متاثرین آج بھی اذیت ناک زندگی گزار رہے
ہیں بلکہ ان کی دوسری نسل بھی بھارت کی ایٹمی غیر ذمہ داری کو جھیل ر ہی ہے
ایسا کوئی ایک واقعہ ہو تو یہ حادثہ ہوتا ہے لیکن بھارت میں ایسے دیگر
واقعات بھی ہو چکے ہیں جن میں ایٹمی سائنسدانوں کا قتل بھی شامل ہے اب ایسے
میں اگر اسے نیوکلیئر سپلائیر گروپ کی رکنیت بھی دی جائے تو کیا یہ بہت
خطرناک نہیں ہوگا اور وہ بھی اگر اس کی اپنی شرائط پر ہو تو معاملہ کافی
گھمبیر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے تو یہ انتہائی خطرناک ہوگا کیونکہ یہ
بات نہ صرف پاکستان اور خود بھارت جانتے ہیں کہ بھارت کی جنگی تیاری
حقیقتاً پاکستان کے خلاف ہوتی ہے اگر چہ چین بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں
لیکن بہت بڑا ملک ہونے کی وجہ سے بھارت اس کے بارے میں کوئی بات یا فیصلہ
کچھ سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کے بارے میں وہ چاہنے کے باوجود بھی
نہیں سوچتا کیونکہ یہاں وہ دشمنی اور مخاصمت کی اس حد پر ہے جہاں انسان صرف
دوسرے کی جان ومال کے در پے رہتا ہے نہ اسے انسانیت سے تعلق ہوتا ہے نہ رحم
سے نہ کسی ضابطہء اخلاق سے بلکہ اسے صرف دشمنی کرنی اور نبھانی ہوتی ہے اور
اس دشمنی کا ثبوت وہ کھلی جنگوں کے علاوہ سرحدوں پر چھڑچھاڑ سے دیتا رہتاہے
جس میں وہ کسی فوجی اور سول کی تمیز نہیں کرتا بلکہ بچہ یا بڑا، جوان یا
بوڑھا مرد یا عورت جو بھی اس کی زد میں آگیا وہ معصوم شہری اپنی جان سے
جاتا ہے۔ اس کے پاس اسلحے کی کمی تو ہے نہیں جسے وہ سوچ سمجھ کر استعمال
کرے لہٰذا وہ اس کا کھلا استعمال کرتا رہتا ہے۔ چین کی سرحد پر بھی وہ اپنی
شرپسند موجودگی کا احساس سال دو سال میں ایک دو بار دلاتا رہتا ہے۔ بنگلہ
دیش کی موجودہ حکومت سے دوستانہ تعلق سے قطع نظر وہ بھی مسلمان ہونے کے
ناطے اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتا ہے۔ سری لنکا نے تیس سال اس کے ہاتھ جس
مصیبت میں گزارے ہیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اور پاکستان میں مشرقی پاکستان
کے بعد بھی اور ابھی بھی بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردوں اور ملک دشمنوں
کے اس سے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ وہی عالمی
طاقتیں بھارت کے بارے سوچتے اور فیصلے کرتے ہوئے کیسے نرم پڑجاتی ہیں جو
پاکستان کے اوپر وہ الزامات بھی عائد کرتی ہیں جن کا پاکستان سے دور دور تک
تعلق بھی نہیں ہوتا۔ بھارت ایک بڑی آبادی والا ملک ضرور ہے لیکن علاقے میں
اس کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں ہے بلکہ وہ امن کے لیے مسلسل ایک خطرہ
بنارہتا ہے۔ اب ایک ایسے ملک کے بارے میں یہ سوچنا کہ اسے سلامتی کونسل کی
مستقل رکنیت دی جائے اسے شہ اور کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے کہ جو چاہو
کرو اور اپنے بارے میں کسی بھی شکایت کو ویٹو کردو۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ
بھارت کے ساتھ امریکہ کا یہ وعدہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ ہر دورے میں یہ
وعدہ کیا جاتا ہے جو اب تک تو صرف وعدہ ہی رہتا ہے لیکن کیا اسے علاقے کے
دوسرے ملکوں کے لیے دھمکی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا کہ وہ بھارت کی
مرضی کے مطابق چلیں ورنہ۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ بھارت اپنی بے محابا آبادی اور
بے تحاشا فوج کی وجہ سے ویسے ہی خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے اس کے پاس پہلے
ہی اسلحے کے ڈھیر ہیں ،اس کی فوج پر بے دریغ خرچ کیا جارہا ہے اور پاکستان
اور بھارت کے درمیان پہلے ہی اسلحے اور آلات جنگ کا تناسب انتہائی غیر
مناسب ہے اگر اسے مزید سہولیات دی گئیں اور خاص کر ایٹمی ٹیکنالوجی چاہے
سول استعمال کے نام پر دی جائے استعمال اسے زیادہ تر فوجی مقاصد کے لیے ہی
کیا جائے گا اور یہ زیادہ پاکستان کے ہی خلاف ہوگا لیکن علاقے کے دوسرے
ممالک بھی زیادہ محفوظ نہیں ہونگے یوں دنیا کسی بہت بڑی تباہی اور عذاب میں
مبتلا ہو سکتی ہے اور وہ بھی جب یہ رکنیت اور سہولت صرف ایک ملک کو دی جائے
اگرچہ چین اس معاملے پر پاکستان کے موقف کی تائید کر چکا ہے تاہم سفارتی
سطح پر مکمل زور لگا نا ہوگا اور دنیا کو ممکنہ اور آمدہ خطرات سے آگاہ
کرنا ہوگا اور یہ بھی بتانا ہوگا کہ کسی ملک کو دہشت گردی اور وہ بھی ایٹمی
دہشت گردی کے لیے سازوسامان مہیا کرنا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے اور اس سے
بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں دنیا کو جگانا اور
مجبور کرنا ہوگا تاکہ اپنے علاقے بلکہ دنیا کے امن کو محفوظ بنایا جا سکے۔ |