پاکستان ریڈیو

آج کافی دن بعد ریڈیو سننے کا موقع ملا۔کسی انڈین چینل پر کوئی محترمہ بیٹھی چھوٹے چھوٹے سوال پوچھ رہی تھی اور فون کالز اور میسجز سے جواب لے رہی تھی۔انداز اچھا تھا اور ہوم ورک بھی قابل تحسین تھا۔ تو خیال آیا کہ برٹش انڈین ریڈیو کی بجائے اگر پاکستانی ریڈیو سنا جائے تو وطن سے دوری کے احساس میں شاید کمی آئے۔ آج کل ویسے بھی بہت سے ڈیجیٹل ریڈیو ہیں جن کو مینوئلی سیٹ کرنے کا ضرورت ہے نہ سگنلز کا کوئی خاص مسئلہ، موبائل میں ایپلی کیشن ڈاﺅن لوڈ کرنا ہے اور ریڈیو آپ کی پاکٹ میں۔ اسی سوچ کے تحت ہم نے بھی ڈھونڈ ڈھانڈ کر پاکستان کے کچھ ریڈیو سٹیشن اس لسٹ میں ایڈ کر لیے۔ نیشنل ریڈیو آف پاکستان پہ تلاوت سنی کچھ دیر پھر FM-101 آن کر لیا۔اس پہ کوک سٹوڈیو چل رہا تھا۔ یہ بھی ٹھیک تھا۔
ڈھونڈتے ڈھونڈتے کوئی پرائیویٹ ڈیجیٹل چینل ملا جس پہ RJ کو کچھ کہتے سنا، پتہ چلا موصوف صرف بالی ووڈ گانوں پہ تبصرے اور سوشل میڈیا پہ لوگوں کے کمنٹس پڑھ رہے تھے۔ ان کے پاس نہ کوئی سوال تھا نہ ہی کوئی موضوع جس پر بحث کر سکتے، ایک گھنٹہ مسلسل تحمل کے ساتھ سنا اور بے حد افسوس اور شکستہ دلی کے ساتھ بند کر دیا۔ چند ایک اور بھی ٹرائی کیے مگر صورت حال مختلف نہیں تھی۔

ریڈیو آج بھی ایک مضبوط ذریعہ ہے لوگوں سے بات کرنے اور ان تک پہنچنے کا۔ ایک گھنٹے کے دوران کافی سوچیں چلتی رہیں۔ یہ RJ لاہور کی کسی بلڈنگ میں بیٹھا ہے اور میں اسے سات سمندر پار سے سن رہی ہوں۔ میرے ساتھ اور بھی بہت سارے لوگ دنیا کے مختلف کونوں میں بیٹھے سن رہے ہوں گے۔ تو اس کے پاس بہت مضبوط ذریعہ ہے اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کا۔اپنا اور ملک کا امیج بہتر بنانے کا۔ ہمارے ارد گرد بہت سی چیزیں ہیں جن پر بات چیت کی جا سکتی ہے اور دنیا کی مختلف جگہوں سے لوگوں کو بحث میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ٹینشن اور ڈپریشن میں بیٹھے لوگوں سے اگر طنزومزاح کے انداز میں بات کی جائے، اپنا تھوڑا سا ہوم ورک کر کے ان تک بہت سی باتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ سوچ بدلنے میں ایک اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔

زندگی کی بھاگ دوڑ میں ہم شاید بہت سارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ دوڑنے کے چکر میں شاید راستوں کی پہچان کھو رہے ہیں۔ہمارے ملک میں تفریح کے مواقع کم ہیں۔ مگر جتنے ہیں ان کا استعمال کرنا اور کروانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ہمیں اپنا ملک سنوارنے میں اب اپنا اپنا قدم بڑھانا ہو گا۔

لیکن شاید ہم لوگ سستی اور کاہلیت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ کسی موضوع پہ ریسرچ تو دور کی بات، کانوں میں پڑتی خبر کو کنفرم کیے بنا یقین کرتے اور آگے پہنچا دیتے ہیں۔ بزنس اور پیسے کی ریس میں شامل ہونے کے لیے ہم بہت سے لوگوں کی سوچ کو مفلوج کر رہے ہیں۔
اللہ ہم سب پہ اپنی رحمت کرے۔ آمین
Mahvish Hina
About the Author: Mahvish Hina Read More Articles by Mahvish Hina: 2 Articles with 1380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.