دین اسلام اور منصب رسالت کی مرکزی حیثیت
(Hafiz Kareem Ullah, Mianwali)
بتلادوگستاخ ِ نبی(ﷺ) کو غیرت
مسلم زندہ ہے
آقاؐ پہ مرمٹنے کاجذبہ کل بھی تھااورآج بھی ہے
آقاﷺکی ذات گرامیِ وجہ تخلیق کائنات اوردین کی اساس ہے ۔آپؐ سمیت تمام
انبیاء کرام علہیم السّلام کی تعظیم وتوقیربجالاناہرمسلمان پرفرض ہے ۔ دین
اسلام میں منصب رسالت کومرکزی حیثیت حاصل ہے ۔منصب رسالت کی یہی مرکزیت اس
امرکی متقاضی ہے کہ آپﷺ کی ذات گرامی ہر مسلمان کے لئے تمام محبتوں
اورالفتوں کامرکزومحورقرارپائے ۔اﷲ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب قرآن
مجیدفرقان حمیدمیں بہت سے مقامات پرصراحتہً اوراشارۃ ًرسول اﷲﷺکی حرمت
اورمنقبت کوبیان کیاہے اورامت محمدیہ ؐکے ہرفردپرلازم کردیاکہ رسول اﷲﷺکی
پورے طریقے سے تعظیم وتوقیر بجالائیں کیونکہ یہ ایمان کی بنیادی شرط
ہے۔علامہ نبہانی ؒ فرماتے ہیں "جوشخص قرآن کریم میں گہری نظرسے غوروفکرکرے
گااسے قرآن مجیدعظمت نبی ﷺسے معمورنظرآئے گا۔آپؒ مزیدلکھتے ہیں کہ قرآنی
آیات کی روسے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ توقیرنبیﷺمحض عام سی بات نہیں
بلکہ یہ توایمانیات اوردین کی اساسیات میں داخل ہے ۔"ہم پرلازم ہے کہ آپﷺکی
تعظیم وتوقیرمددونصرت اورآپﷺسے محبت کریں"۔
کی محمدسے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔وَتُعِزَِّرُوْہُ وُتُوَقّرُوْہُ وَتُسَبِحُوْہُ
بُکْرَۃًَََ وَاَصِیْلاً۔ ترجمہ کنزالایمان :اوررسولﷺکی تعظیم
وتوقیرکرو۔اورصبح شام اﷲ پاک کی پاکی بولو۔ (پارہ۲۶سورۃ الفتح )درج بالاآیت
کریمہ کے پہلے حصے میں اﷲ رب العزت نے یہ حکم دیاہے کہ رسول اﷲ ﷺکی تعظیم
وتوقیرکروان کاادب واحترام کرو۔اس لئے کہ اگرادب ہے توسب کچھ درست ہے
اگرایک مسلمان کے دل میں آقائے دوجہاں سرورکون مکانﷺکاادب نہیں ہے۔ توچاہے
وہ لاکھوں نمازیں پڑھے کروڑوں روپے کی سخاوت کرے ، کعبۃ اﷲ کاحج کرے
،قربانی کرے الغرض جتنی بھی عبادت وریاضت کرے توسب کچھ بے کارہے ۔کیونکہ
آقائے دوجہاں سرورکون ومکانﷺکی محبت دین حق کی شرط اّول ہے۔
محمدﷺکی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہواگر خامی توسب کچھ نامکمل ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔"اے ایمان والو!اپنی آوازیں اونچی نہ کرواس غیب بتانے
والے (نبیؐ)کی آوازسے ان کے حضوربات چّلاکرنہ کہوجیسے آپس میں ایک دوسرے کے
سامنے چّلاتے ہوکہ کہیں تمہارے اعمال اکارت نہ ہوجائیں اورتمہیں خبرنہ
ہو۔(سورۃ الحجرات )
علامہ اقبالؒ ربط رسالت اورمحبت امام الانبیاء خاتم الانبیاء کوتمام عبادات
کی روح قراردیتے ہوئے بارگاہ رسالت مآبﷺ میں عرض کرتے ہیں ۔
شوق تیراگرنہ ہومیری نمازکاامام
میراقیام بھی حجاب میراسجودبھی حجاب
معززقارئین کرام !یہودونصاری جوازل سے دین ِ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن
آرہے ہیں ۔دشمن ہمیشہ دشمن ہوتاہے ۔پہلے یہودونصاریٰ نے قرآن پاک کی بے
حرمتی کی آقاﷺکی شان میں گستاخی کے لئے خاکے اور کارٹون بنانے کے مقابلے
کرائے اورکرارہے ہیں ۔کفرمتحدہوکرآقاﷺکی شان میں کسی نہ کسی طریقے سے
گستاخی کررہاہے اورکرتاآیاہے ۔ہرشخص جانتاہے کہ ایک مرتبہ پھرامریکہ کے ایک
لعین سام باسال نامی یہودی نے آقاﷺ کی شان میں گستاخانہ فلم بنا ڈالی ہے
اوراس کے چندکلپس یوٹیوب پرجاری بھی کیے ہیں۔یہودونصاریٰ باربارمسلمانوں کے
دلوں کوٹھیس پہنچارہے ہیں یہ مسئلہ مسلم حکمران اقوامِ متحدہ کی قومی
اسمبلی میں پیش کریں اورتمام ممالک کے سربراہان ،علمائے کرام ،مشائخ عظام
اس میں اپناکردارادا کریں۔اب وقت آگیاہے کہ مسلمان متحدہوکرگستاخی کرنیوالے
حکمرانوں،ملکوں کامکمل طورپرمعاشی بائیکاٹ کریں تاکہ ان کی معیشت بربادہوان
ملکوں میں جانے کاان کی مصنوعات کامکمل طورپربائیکاٹ کریں۔اگراب مسلمان
متحدنہیں ہوتے ہیں توقیامت کے دن اﷲ اوراسکے محبوبﷺکی بارگاہ میں کیامنہ
دکھائیں گے ۔مومن کسی صاحبِ ایمان کی گستاخی نہیں برداشت کرسکتاہم آقاﷺکی
شان میں کیسے گستاخی برداشت کریں گے کیونکہ آقاﷺکی محبت ہی ہمارے ایمان کی
بنیادہے ۔علامہ اقبالؒ کیاخوب فرماتے ہیں۔
قوت عشق سے ہرپست کوبالاکردے
دہرمیں اسمِ محمدﷺسے اُجالاکردے
آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںﷺکے ساتھ حضرت عمرفاروقؓ تھے توسرکارعلیہ
الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایااے عمراس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں
ہوسکتاجب تک اپنی ہرچیزسے مجھے محبوب نہیں سمجھتا۔بڑی مشہورحدیث پاک ہے ۔
"تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتاجس وقت تک وہ اپنے
والدین،عزیزواقارب اورہرچیزسے مجھے محبوب نہیں سمجھتا"۔
حضرت عمرؓ کیونکہ بڑے صاف گُوآدمی تھے کہنے لگے ۔یارسول اﷲﷺ!آپ مجھے ہرشئے
سے پیارے ہیں سارے رشتہ داروں سے پیارے ہیں سارے بیٹوں سے پیارے ہیں کائنات
کی ہرچیزسے پیارے ہیں مگرمیری جان سے آپ ؐ مجھے پیارے نہیں جب انہوں نے یہ
کہاتوسرکارعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایاتم میں سے کوئی اس وقت تک
ایمان کی حلاوت کونہیں پاسکتاجب تک کہ اپنی جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب
نہیں سمجھتااسی لمحہ میں حضرت عمرؓ نے نعرہ لگایااس خداکی قسم!جس کے قبضے
میں میری جان ہے آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیزہیں ۔سرکارعلیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایااب تمہاراایمان کامل ہوا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے "اے ایمان والو!راعنانہ کہواوریوں عرض کروکہ حضورہم
پرنظررکھیں اورپہلی ہی سے بغورسنواورکافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(سورۃ
البقرۃ آیت۱۰۴)
ارشادباری تعالیٰ ہے۔تواے محبوب ؐ تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہونگے جب
تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھرجوکچھ تم حکم فرمادواپنے
دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اورجی سے مان لیں"۔(سورۃ النساء آیت۶۵)
اس آیت کریمہ کاشان نزول یہ ہے کہ دوآدمی آقاﷺکے پاس اپناکیس لے گئے ۔آپﷺنے
ان کافیصلہ کردیاجس کے خلاف فیصلہ ہواتھا اس نے کہاہمیں حضرت عمرؓ کے پاس
بھیجورسول اﷲؐ نے فرمایاہاں پس چلے حضرت عمرؓ کی طرف جب حضرت عمرؓ کے پاس
آئے جس کے حق میں یہ فیصلہ ہواتھا اس نے کہااے ابن خطاب آقاﷺنے میرے حق میں
فیصلہ کیاہے اس نے کہاہمیں حضرت عمرؓ کی طرف بھیجودوآپؐ نے آپؓ کی طرف بھیج
دیاحضرت عمرؓ نے جس کے خلاف فیصلہ ہواتھاسے کہاکیاایسی ہی بات ہے اس نے
کہاہاں پس حضرت عمرؓ نے کہابس اپنی اپنی جگہ بیٹھومیں آکے تمہارافیصلہ
کرتاہوں آپؓ تلوارلیکران کی طرف نکلے جس نے رسول اﷲؐ سے کہاتھاہمیں حضرت
عمرؓ کی طرف بھیج دواس کاسرقلم کردیادوسرابھاگ کررسول اﷲؐ کے پاس پہنچااس
نے کہا(یا)رسول اﷲؐ خداکی قسم حضرت عمرؓ نے میرے ساتھی کوقتل
کردیااوراگرمیں بھی جلدی سے نہ نکلتا تومجھے بھی قتل کردیتے رسول اﷲؐ نے
فرمایامیں تویہ گمان نہیں کرتاکہ حضرت عمرؓ مومنین کے قتل کی جرأت کریں ؟اس
پراﷲ تعالیٰ نے مذکورہ آیت "فلاوربک لایومنون"الایہ نازل کردی پس رسول اﷲؐ
نے اس بندے کاخون باطل قراردے دیااورحضرت عمرؓ کواس جرم سے بری
قراردیا۔(بحوالہ تفسیردرمنثورج۲،تفسیرابن کثیرج۱)
میرے مسلمان بھائیو!جس شخص کوحضرت عمرؓ نے قتل کیاتھااس نے زبان سے کوئی
گالی نہیں دی تھی بلکہ رسول اﷲؐ کے فیصلے کے بعداسے مستردکرتے ہوئے حضرت
عمرؓ کی عدالت میں اپیل کی تھی۔حضرت عمرؓ نے اس کی تصدیق کی کہ اس نے رسول
اﷲؐ کے فیصلہ کومستردکیاہے اس کے بعدآپؓ نے اسکوقتل کردیا۔قرآن پاک میں
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔"بے شک جوایذادیتے ہیں اﷲ اوراس کے رسولﷺکوان پراﷲ
پاک کی لعنت ہے دنیااور آخرت میں اوراﷲ نے ان کے لئے ذلت کاعذاب تیار
کررکھاہے ۔(سورۃ الاحزاب۵۷)
اﷲ رب العزت کوایذادینایہ ہے کہ اس کی ایسی صفات بیان کرناجس سے وہ منزہ ہے
یااس کے محبوب بندوں کوستانا آقاﷺکوایذادینایہ ہے کہ آقاﷺکے کسی فعل شریف
کوہلکی نگاہ سے دیکھنا یاکسی قسم کاطعن کرنا یا آپﷺکے ذکرخیرکوروکنا
یاآپﷺکوعیب لگائے یاآقاﷺکی شان میں گستاخی کرے۔ارشادباری تعالیٰ
ہے۔ترجمہ:"اوران میں کوئی وہ ہیں کہ ان غیب کی خبریں دینے والے
(نبیؐ)کوستاتے ہیں اورکہتے ہیں وہ توکان ہیں تم فرماؤ تمہارے بھلے کے لئے
کان ہیں اﷲ پرایمان لاتے ہیں اورمسلمانوں کی بات پریقین کرتے ہیں اورجوتم
میں مسلمان ہیں ان کے واسطے رحمت ہیں اورجورسول اﷲﷺکوایذادیتے ہیں ان کے
لئے دردناک عذاب ہے ۔تمہارے سامنے اﷲ کی قسم کھاتے ہیں کہ تمہیں راضی کرلیں
اوراﷲ ورسولؐ کاحق زائدتھا کہ اسے راضی کرتے اگرایمان رکھتے تھے ۔کیاانہیں
خبرنہیں کہ جوخلاف کریں اﷲ اوراس کے رسول ؐ کاتواس کے لئے جہنم کی آگ ہے کہ
ہمیشہ اس میں رہے گایہی بڑی رسوائی ہے ۔(پارہ ۱۰سورۃ التوبہ۶۱تا۶۳)غزوہ
تبوک میں جاتے ہوئے تین منافقوں میں سے دوآپس میں بولے کہ آقاﷺکاخیال ہے کہ
ہم روم پرغالب آجائیں گے یہ بالکل غلط ہے تیسراشخص خاموش تھامگران کی باتوں
پرہنستاتھاآقاﷺنے ان تینوں کوبلاکرپوچھاتووہ بولے کہ ہم توراستہ کاٹنے کے
لئے دل لگی کرتے جارہے تھے اس مقام پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ترجمہ:"اوراے
محبوبﷺ اگر تم ان سے پوچھوتوکہیں گے کہ ہم تویونہی ہنسی کھیل میں تھے تم
فرماؤکیااﷲ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنستے ہوبہانے نہ بناؤتم
کافرہوچکے مسلمان ہوکراگرہم تم میں سے کسی کومعاف کریں تواوروں کوعذاب دیں
گے اس لئے کہ وہ مجرم تھے "۔(سورۃ التوبہ۵۶آیت ۶۶)
آقاﷺ کی توہین اﷲ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے توبظاہرآقاﷺکی
توہین کی تھی مگراﷲ پاک نے فرمایاکیااﷲ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے
ہنستے ہو۔ہروہ شخص جونبی کریمؐ کی توہین کرے یاآپؐپرکوئی عیب لگائے یاآپؐ
کی ذات ،آپؐ کے نسب آپؐ کے دین یاآپؐ کی عادات مبارکہ میں سے کسی عادت کی
طرف کوئی نقص منسوب کرے یاان میں سے کسی عیب کاآپؐ کی طرف اشارہ کرے
یاتوہین کرتے ہوئے کسی ایسی چیزسے آپؐکوتشبہیہ دے یاآپؐ کی تحقیرکرے یاآپؐ
کی شان کوکم کرے آپؐ کااستخفاف کرے یاآپؐ کی طرف کسی عیب کی نسبت کرے تووہ
آپؐ کی توہین کرنے والا شمارہوتاہے اس کاحکم بھی وہی ہے جوتوہین کرنے والے
کاہوتاہے ،اسے قتل کردیاجائے دورصحابہ کرام علہیم الرضوان سے لیکرآج تک اسی
پر تمام علماء اوراصحاب فتویٰ کااجماع ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے
ہیں۔خطابی کہتے ہیں" میں مسلمانوں میں سے کسی ایسے شخص کونہیں جانتاجس نے
نبی کریمؐ کے گستاخ کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیاہو۔محمدبن سحنون کہتے
ہیں کہ اس پرعلماء کااجماع ہے کہ نبی کریمﷺکی توہین وتنقیص کرنے والاکافرہے
اس کے لئے اﷲ تعالیٰ کے عذاب کی وعیدہے اورپوری امت کے نزدیک اس کاحکم قتل
ہے جواس کے کفراورعذاب میں شک کرے گاوہ خودکافر ہوجائے گا۔(الصارم المسلول
علی شاتم الرسول ص۴)
ابوبکرابن منذرفرماتے ہیں اس پرتمام اہل علم کااجماع ہے کہ جونبی کریمﷺکی
توہین کرے اسے قتل کردیاجائے گایہی بات امام مالک بن انس، اللیث ،
احمداوراسحاق نے کہی ہے اوریہی امام شافعی ؓ ۔کہ حضرت ابوبرزہؓ فرماتے ہیں
کہ ایک شخص نے آپؐ کی شان میں نازیبا کلمات کہے تومیں نے کہاآپ مجھے اجازت
دیں تومیں اس کاسراڑادوں توآپ نے فرمایا"فلیس ذلک لاحدالاالرسول ﷺ"کہ کسی
کی توہین کرنے والے کوقتل کرناصرف توہین رسالت کے ساتھ خاص ہے ۔ان آئمہ کے
نزدیک ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ (الشفاء)
امام بخاری،امام مسلم کے علاوہ ابن اسحاق ،ابن سعد اورابن الاثیرؒوغیرہ نے
نقل کیاہے کہ بنونضیرقبیلہ کاایک یہودی کعب بن اشرف تھاوہ شاعرتھااور رسول
اﷲﷺاورآپﷺکے صحابہ کرامؓ کے خلاف ہجویہ اشعارکہتااوریہ اشعارلوگوں
کوسناکرانہیں رسول اﷲﷺکے خلاف بھڑکاتاتھاغزوہ بدر میں کفارکی شکست پراُسے
بہت دکھ ہواوہ مدینہ سے مکہ گیااوروہاں جاکراس نے مقتولین قریش کے مرثیے
کہے جن کی لاشوں کوکنویں میں ڈال دیاگیا تھا پھر واپس آکرکعب نے ایک مسلمان
خاتون ام الفضلؓ بنت حارث اوردیگرمسلم خواتین کے متعلق عشقیہ اشعارکہے ۔
رسول اﷲﷺنے فرمایا۔ یااﷲ !ابن الاشرف کے اعلانِ شراورشعرکہنے کوتُوجس طرح
چاہے مجھ سے روک دے آپﷺنے یہ بھی فرمایاابن الاشرف کے خلاف کون میری مددکرے
گا اس نے مجھے ایذاپہنچائی ہے ایک روایت میں ہے کہ آپﷺنے فرمایاکعب بن اشرف
سے کون نمٹے گا؟اس نے اﷲ اوراس کے رسولﷺکوتکلیف پہنچائی ہے ۔حضرت محمدبن
مسلمہؓ نے کہا:اس کے لئے میں ہوں یارسول اﷲﷺ!میں اسے قتل کروں گاآپ ؐنے
محمدبن مسلمہ کو کعب بن الاشرف کے قتل کی اجازت دے دی ۔حضرت محمدبن مسلمہ ؓ
نے اس کام کی فکرمیں کھاناپیناچھوڑدیا۔رسول اﷲﷺنے انہیں بلاکرپوچھا اے
محمد!کیاتم نے کھاناپینا ترک کردیاہے ؟انہوں نے عرض کیایارسول اﷲﷺ!میں نے
آپ کے ساتھ جووعدہ کیاہے اس کے قابل ہوں یانہیں آپﷺنے فرمایاتم پرصرف کوشش
کرنافرض ہے ۔آپؐ نے محمدبن مسلمہ کواس سلسلہ میں حضرت سعدبن معاذؓ سے مشورہ
کرنے کی نصیحت کی ان کے ساتھ حضرت عبادبن بشیرؓ ، حضرت ابونائلہ سلکانؓ بن
سلامہ،حضرت حارث ؓبن اوس اورحضرت ابوعبس ؓبن جبر بھی رسول اﷲﷺکی اجازت سے
اس مہم میں شریک کارہوگئے ۔ جس رات کعب بن اشرف کوقتل کیاگیا۔رسول اﷲﷺاس
رات حالت قیام میں رہے اورنمازادافرماتے رہے صبح جب آپ نے ان کے نعرہ ہائے
تکبیرکی آوازیں سنیں توآپؐ جان گئے کہ کعب کوقتل کردیاگیاہے وہ لوگ واپس
پہنچے توانہوں نے آپ ؐکومسجدنبوی کے دروازے پرکھڑاپایااورانہوں نے آپؐکوکعب
کے قتل میں کامیابی کی خوشخبری سنائی ۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے
کعب بن اشرف کوقتل کرنے کی یہ وجہ بیان فرمائی "فَاِنَّہُ قَدْاذَ اللّٰہ
وَرَسُولَہُ"اس نے اﷲ اوراس کے رسول ﷺکواذیت پہنچائی ہے ۔یہ حدیث اس بات پر
دلیل ہے کہ کعب کاقتل شرک نہیں بلکہ اﷲ کے نبی ﷺکوایذاپہچانے کی وجہ سے
تھا۔
صحیح بخاری میں ہے حضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ نے ایک موقع پرشاتمین رسول
کوقتل کرنے کے بعدجلادینے کاحکم صادرفرمایا۔حضرت امام حسنؓ نے
ارشادفرمایاجوکسی نبی کوسبّ کرے اسے قتل کردواورجوکسی صحابی کوبرابھلاکہے
اسے کوڑے مارو۔
ابن ہشام ؒ (213ھ یا218ھ)کے مطابق قبیلہ اوس نے جب کعب بن اشرف یہودی کوقتل
کیاجورسول اﷲﷺسے سخت عداوت رکھتاتھاتو خزرج والوں نے کہایہ نہیں ہوسکتاکہ
ہم اوس سے پیچھے رہ جائیں اوروہ ہم سے سبقت لے جائیں ۔انہوں نے آپس میں
مشورہ کیاکہ اب کون ہے جورسول اﷲﷺسے عداوت رکھتاہوجیسے کعب بن اشرف
تھاانہوں نے طے کیاکہ آپؐ سے ایسی عداوت رکھنے والاابورافع سلام بن ابی
الحُقَیق ہے جوخیبرمیں رہتاہے ۔قبیلہ خزرج والوں نے رسول اﷲﷺکی خدمت اقد س
میں حاضرہوکراسے قتل کرنے کی اجازت چاہی آپؐ نے اجازت دے دی ۔
مصنف عبدالرزاق کی جلدپنجم میں ایک حدیث مروی ہے کہ حضرت خالدبن ولیدنے کچھ
مرتدوں کوآگ میں جلادیاحضرت عمرؓ نے عرض کیا،اے ابوبکرؓ آپؓ نے
خالدکوکھلاچھوڑدیا۔آپؓ نے جواباًارشادفرمایامیں اﷲ رب العزت کی تلوارکونیام
میں نہیں ڈال سکتا۔
حضرت براء بن عاذب ؓ سے مروی ایک روایت کے مطابق ابورافع اپنے قلعے واقع
حجازمیں رہتاتھایہ دشمن رسول تھااورآپؐ کے مخالفین کی مددکیا کرتاتھا رسول
اﷲؐکوایذاپہنچاتااورآپؐ کے خلاف شرارتیں کرتارہتاتھارسول اﷲﷺنے ابورافع
کوقتل کرنے کے لئے خزرج کے قبیلہ بنی سلمہ کے پانچ افرادکو مامورکیاان میں
حضرت عبداﷲ ؓبن عتیک ،حضرت مسعودؓبن سنان ،حضرت عبداﷲؓبن انیس ،حضرت
ابوقتادہ الحارث بن ربعیؓ اور خزاعی بن مسعودؓ شامل ہیں ۔حضرت عبداﷲ بن
عتیکؓ نے ابورافع کواس کے قلعہ میں داخل ہوکرقتل کردیااوررسول اﷲﷺکواس کے
قتل کی خوشخبری سنائی ابورافع کو3ھ میں قتل کیاگیا تھا۔معززقارئین کرام!درج
بالاواقعہ سے یہ پتہ چلتاہے کہ رسول اﷲﷺکی اجازت سے ابورافع کوقتل
کیاگیاتھا آپؐ نے کچھ لوگوں کوابورافع کوقتل کرنے کی مہم پرروانہ
کیاتھا۔مقتول کاجرم یہی تھاکہ وہ رسول اﷲﷺکوایذاپہنچاتااورآپؐ کے خلاف
شرارتیں کرتا رہتاتھاجیساکہ صحیح بخاری میں منقول ہے ۔
سروردوعالم نورمجسم ﷺکعبۃ اﷲ کے پاس نمازادافرمارہے تھے بدبخت عقبہ بن ابی
معیط نے آپؐکے پیکروپرُنورپراونٹنی کی گندگی ڈال دی کتنی بڑی توہین تھی آپؐ
کاعرش سے مقدم جسم اوراس وقت آپؐ مسجدحرام میں اورکعبۃ اﷲ کی دیوارکے ساتھ
کھڑے ہیں پھرحالت نماز میں ہیں اورنمازمیں سب سے اہم مقام حالت سجدہ میں
ہیں ایسے میں جب اتنی بڑی توہین ہوئی تورب ذوالجلال کاعذا ب کیوں نہ نازل
ہوا؟ حالانکہ اﷲ رب العزت کامل قدرتوں والاہے بخاری شریف میں ہے ابوجہل
،عتبہ شیبہ ،امیہ بن خلف وغیرہ یہ توہین دیکھ کرہنس ہنس کے لیٹ رہے تھے
تووہ عذاب الٰہی سے بندرکیوں نہ بنے ؟جہاں بیٹھے تھے اتنی زمین کیوں نہ
دھنسی ؟ان پرآگ کیوں نہ برسی ؟نہ یہ ہے کہ آپؐ کادرجہ دوسرے انبیاء کرام ؑ
سے کم ہے بلکہ آپؐ تواﷲ تعالیٰ کے سب سے بڑے محبوب ہیں نہ یہ ہے کہ اﷲ
تعالیٰ عذاب نازل نہیں کرسکتاتھااس کے باوجودبھی عذاب نازل نہ کرنااس امرکی
طرف متوجہ کررہاتھا جب پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کرامؑ کی توہین لینے کی
پوری صلاحیت نہیں تھی توآگ وغیرہ کے عذاب نے وہ بدلہ لیامگراب وہ امت آچکی
تھی جب عشق رسولﷺ وہ جذبہ وجرأت پاچکاتھاجواﷲ پاک کی توفیق سے اپنے محبوبؐ
کی توہین کاخودبدلہ لے لے اس لئے ان گستاخوں کوآگ بھیج کے یازمین دھنساکے
نہیں مارابلکہ آپؐ کے غلاموں کے ہاتھوں عذاب دلوایاتاکہ گستاخوں کوبھی عذاب
ہواورعاشقوں کاسینہ بھی ٹھنڈاہوایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ خود عذاب بھیج دے
دوسرایہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ غلامانِ رسول ؐ کے ہاتھوں سے گستاخوں کوعذاب
دلوائے ۔چنانچہ اس امت میں دوسرے دستورکورائج کردیاگیا ارشادباری تعالیٰ ہے
۔"کیا اس قوم سے نہ لڑوگے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اوررسول ؐ کے نکالنے
کاارادہ کیاحالانکہ انہیں کہ طرف سے پہل ہوئی ہے کیاان سے ڈرتے ہوکہ اﷲ اس
کازیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرواگرایمان رکھتے ہوتوان سے لڑواﷲ تعالیٰ انہیں
عذاب دے گاتمہارے ہاتھوں اورانہیں رسوا کرے گااورتمہیں ان پرمدددے
گااورایمان والوں کاجی ٹھنڈاکرے گا۔(سورۃ التوبہ آیت ۱۳،۱۴)
حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ نے روایت کیاہے عبداﷲ بن ابی سرح ان چارافرادمیں سے
تھے جن کے بارے میں رسول اﷲؐ نے فرمایاتھاوہ جہاں ملیں ان کوقتل کردوجب وہ
توبہ کرنے کے لئے آئے انہیں رسول اﷲؐکے سامنے پیش کیاگیاآپؐ نے تین باران
کی طرف سراٹھاکے دیکھااورہربارہی انہیں ناپسندکیاچوتھی بارآپؐ نے ان کوقبول
کرلیاپھرآپؐ اپنے اصحابؓ کی طرف متوجہ ہوئے فرمایاکیاتم میں کوئی رجل
رشیدنہیں جویہ دیکھ کرکہ میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ پیچھے کرلیاتھااس
کی طرف اٹھتااوراسے قتل کردیتا(سنن ابی داؤد)
حضرت عمربن عبدالعزیزفرماتے ہیں"جوشخص آقاﷺکی بارگاہ اقدس میں گستاخی کرے
اس کاخون حلال اورمباح ہے ۔
الاشباہ والنظائرمیں ہے ۔"کافراگرتوبہ کرے تواس کی توبہ قبول کرلی جائے
لیکن اس کافرکی توبہ قبول نہیں جوآقاﷺکے حضورگستاخیاں کرتاہے ۔
سورۃ عبس وتولیٰکاشان نزول مفسرین کرام نے بیان کیاہے کہ آقاؐ رؤساء قریش
کودعوت پہچانے میں مشغول تھے کاملاًان کی طرف متوجہ تھے کہ اچانک
نابیناصحابی حضرت عبداﷲ بن ام مکتوب بارگاہ رسالت مآبؐ میں حاضرہوئے ۔یہ
اوّلین مہاجرین میں سے تھے ۔آقاؐ کی خدمت اقدس میں عموماًحاضرخدمت ہوتے
رہتے ۔آقاؐ سے دین کی تعلیمات حاصل کرتے مسائل دریافت کرتے اورحسب معمول آج
بھی آتے ہی سوالات کیے آداب مجلس کاخیال نہ رکھ سکے آگے بڑھ کرآقاؐ کواپنی
طرف متوجہ وراغب کرناچاہاآپؐ چونکہ اس وقت ایک اہم امردینی میں مشغو ل
ومصروف تھے سومتوجہ نہ ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا،دوران گفتگوخلل اندازی
پرچہرہ اقدس پرکچھ رنج وملال کی کیفیت ظاہرہوئی ۔اس پرباری تعالیٰ نے یہ
آیت کریمہ نازل کیں جن میں آنحضرت ؐ کواس امرکی تلقین کی گئی وہ ناسمجھ
تھااس کی دلجوئی بھی تومقصودتھی ایسے آثارچہرہ اقدس پرظاہرنہیں ہونے چاہیں
تاکہ ایسامخلص وصحابی آپؐ کی شفقت ودلجوئی سے محروم نہ ہواب ظاہراًاس آیت
کریمہ میں تنبیہہ کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔اس خصوصیت کی وجہ سے ایک منافق کا
معمول یہ تھاوہ ہرنمازمیں یہی سورت پڑھتاتھااوردل میں یہ کیفیت مرادلیتاکہ
یہ وہ سورت ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے آقاﷺکوتنبیہہ فرمائی ہے یہاں تک کہ "یہ
بات سیدناعمرفاروقؓ تک پہنچی کہ منافقین میں سے ایک شخص اپنی قوم کی امامت
کراتاہے وہ ہرباجماعت نمازمیں سورۃ عبس وتولیٰ ہی پڑھتا ہے آپؓ نے اسے
بلابھیجا(بغیرمزیدتحقیق کے)اس کاسرقلم کرودایا۔
ناموس رسالت کاتحفظ اﷲ تعالیٰ ،رسول اﷲؐ اوران کے صحابہ کرام علہیم الرضوان
نے کیانیزاس امرپرامت مسلمہ کابھی اجماع ہے ۔گستاخ ِ رسول واجب القتل ہے
اورجرم میں مردوزن ،کافرومشرک ،مسلم ومعاہدنیزمنافق وبددین برابرہیں ان سے
کوئی بھی گستاخی رسول کامرتکب ہوبالاتفاق اسے قتل کیاجائے اورایسے افرادکے
ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔آقاؐ کی تنقیص شان کرنا،ختم نبوت
کاانکار،بیت اﷲ اورروضہ رسول ﷺکی توقیرنہ کرنا،اسلامی احکام
کاانکارکرنا،قرآن کریم کی بے حرمتی کرنایہ سب امورگستاخی رسولؐ میں شامل
ہیں ۔جس طرح یہ امورحیات رسولؐ میں گستاخی رسول ؐ میں داخل تھے اسی طرح یہ
امورآپؐ کے وصال کے بعدبھی گستاخی رسول کاموجب ہیں ۔قارئین کرام! معاذاﷲ
امریکہ کبھی قرآن کے اوراق جلاکر،کبھی کارٹون بناکراوراب توہین آمیزفلم
بناکرآقاؐ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔فلم بنانے والے ایسے لعین شخص کوقتل
کردیاجائے ۔عہدرسالت اورعہدخلافت راشدہ میں گستاخان رسول کواس کثرت سے
سزائے موت دی گئی کہ اب سزاتواترکادرجہ اختیارکرچکی ہے ۔گستاخِ رسول کی
اسلام میں سزائے موت سے کم ترکوئی اورسزانہیں ۔جب گستاخِ رسول کاجرم مضبوط
دلائل سے ثابت ہوجائے توسزائے موت ہرحال میں نافذ کی جائے کسی حکومت ،ریاست
،پارلیمنٹ ،صدر،وزیراعظم حتیٰ کہ پوری امت کوبھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ
سزامعاف کردے کیونکہ ایساکرنے سے اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے جوناقابل
معافی جرم ہے ۔ایسے لعین شخص کوسزادینے میں دیرنہ کی جائے بلکہ
سزادیکرکیفرکردارتک پہنچادیاجائے۔مسلم ریاستوں ،ریاستوں کے سربراہوں ،
علمائے کرام ،پیران عظام محقیقین دانشوروں کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ
ایسے وسائل برؤے کارلائیں جن کی موجودگی میں اہانت رسولؐ ، قرآن حکیم کی بے
حرمتی اوراسلامی مقدسات وشعائرپربڑھتے ہوئے منفی رحجانات کااستیصال
کیاجاسکے ۔عام مسلمانوں میں اسلامی امورکے احترام کاشعورپیداکرنے کی بھی
اشدضرورت ہے جس کے لئے محراب ومنبر،خانقاہیں میڈیاوغیرہ اہم کرداراداکریں ۔
معززقارئین کرام!آقائے دوجہاں سرورکون ومکانﷺکی طرف سے دشمنوں کومعاف کرنے
سے ہمارے لئے سنت یہ ثابت ہوئی کہ ہم اپنے ذاتی دشمنوں کومعاف کرناسیکھیں
۔بزعم خویش دانشوروں نے قوم کوالٹامطلب سکھاناشروع کردیا۔جولوگ نرمی
اورمعافی کی باتیں کررہے ہیں ۔ سنت یہ ہے کہ یہ اپنے دشمنوں کومعاف کریں یہ
اپنے دشمنوں سے توانتقام لیتے ہیں اورانہیں معاف نہیں کرتے مگررسول اﷲﷺکے
دشمنوں کے بارے میں معافی کے علمبرداربنے ہوئے ہیں۔ہرانسان اپناحق تومعاف
کرنے کااختیاررکھتاہے پردوسرے انسان کاحق معاف کرنے کااختیار نہیں
رکھتا۔آقاؐ نے جہاں کچھ گستاخوں کومعاف کیاوہاں کچھ گستاخوں کوقتل کرنے
کابھی حکم دیاہے جوصحاح ستہ میں موجودہے ۔ایک بڑے گستاخ عقبہ بن ابی معیط
کوتواپنے ہاتھوں سے قتل کیااورابن خطل کوکعبہ کے پردوں سے نکلواکرمقام
ابراہیم اورزمزم کے درمیان حرم میں باندھ کرقتل کروایا۔یادرہے آپﷺکامعاف
کرنااورگستاخوں کوقتل کروانادونوں ادائیں ہی جہان کے لئے رحمت ہیں ۔
خلیفہ ہارون الرشیدنے حضرت امام مالک ؒ سے مسئلہ پوچھاگستاخ ِ رسول کی
سزاکیاکوڑے سے مارناکافی نہیں اس پرحضرت امام مالکؒ نے فرمایااے
امیرالمومنین!گستاخ رسول گستاخی کے بعدبھی زندہ رہے توپھرامت کوزندہ رہنے
کاحق نہیں رسول اﷲؐ کے گستاخ کوفی الفورگرفتارکرکے قتل کردیا جائے۔
امام قسطلانی ؒ لکھتے ہیں "آپﷺکے وصال کے بعدآپﷺکی امت کویہ حق نہیں ہے کہ
آپﷺکے حق کوساقط کرے یعنی معاف کرے کیونکہ آپﷺکی طرف سے اس بارے میں کوئی
اجازت موجودنہیں ہے ۔(مواہب اللدنیہ ج۲)
امام زرقانی ؒ لکھتے ہیں "اب گستاخ رسول کے لئے صرف قتل ہے معافی نہیں ہے
کیونکہ رسول اﷲﷺکے وصال کے بعدآپﷺکی طرف سے معاف کرنے پرہم مطلع نہیں
کرسکتے ۔(زرقانی علی المواہب اللدنیہ)
اﷲ رب العزت ہم سب کو آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں ﷺکی سچی اورپکی غلامی
نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین |
|