ویلینٹائن ڈے اور فتنہ بننے کہ چند نقاط
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ویلینٹائن ڈے منانا بالکل غیر اسلامی ہے اور بدعت ہے اور اس سے بچنے میں
فلاح ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن درجہ کی روایت میں
ثابت ہے:
من تشبہ بقوم فھو منھم
ترجمہ ومفہوم: جس نے کسی قوم کی شباہت کی وہ انہیں میں سے ہے
(حوالہ: سنن ابو داؤد، رقم الحدیث: 4031 وسندہ حسن اور حافظ ابن حبان نے
بھی اسکو رقم: 1930 میں صحیح کہا)
اللہ نے فرمایا:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ
فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ و مفہوم: اور جو کوئ دین اسلام کے علاوہ کوئ اور دین چاہےگا اس سے اس
گا وہ دین قبول نہیں کیا جاۓ گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں سے
ہوگا
(سورۃ آل عمران سورۃ نمبر: 3 آیت: 85)
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
تم اپنے سے پہلےلوگوں کی طریقہ کی بالشت بر بالشت اور ہاتھ بر ہاتھ پیروی
کروگے.. پوچھا گیا کیا یہودیوں اور عسائیوں کی؟ تو فرمایا اور کون؟
(حوالہ:صحیح بخاری ۸/۱۵۲)
یوم محبت یا ویلینٹائن ڈے رومن بت پرستوں کے تہوار میں سے ایک ہےجب کہ بت
برستی ان کے ہاں 17 صدیوں سے بھی زیادہ ہے. رومیوں کے عسائیت کو قبول
کرنےکے بعد وہ اور ان کے وارث عسائ وغیرہ اسکو خوشی اور عید کے طور پر
مناتے ہیں. یہ منانے میں بت برستوں اور عسائیوں کی مشابہت ھے اس لۓ اس سے
بچنے میں فلاح ہے حدیث ہے،مفہوم:جس نے بھی کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہیں
میں سے ہے (مسند احمد جلد 2 صفحہ 50)
یہاں پر بالخصوص اسلامی ممالک میں پاکستان اور بالعموم دیگر ممالک اور انکے
حالات کو ذہن میں رکھتے ہوۓ اور نوجوانوں کو دیکھتے ہوۓ میں کچھ نقاط بھی
سامنے رکھنا چاہوں گا.
1. اسلام میں غیر محرم مرد و عورت کا ایک دوسرے کی طرف بغیر کسی شرعی علت
کے دیکھنا قطعا ممنوع وحرام ہے. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، وَلاَ تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ
إِلاَّ وَمَعَهَا مَحْرَمٌ.."
ترجمہ ومفہوم: "کوئ مرد کسی (غیر محرم) عورت کے ساتھ تنہائ میں نہ بیٹھے
اور کوئ عورت اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئ اسکا محرم نہ
ہو.."
( حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3006)
2. کیونکہ ہم نے اپنے بچوں کو اختلاطی ماحول اور کو- ایجوکیشن سکولز،
کالجز اور یونورسٹیز میں ڈالنا اپنا فخر سمجھ لیا ہے تو اسکے نتائج بھی
بھیانک نکل رہے ہیں.
3. اسی طرح کئ یونیورسٹی لیول کے ٹیچر جو میل یا فی میل ہوں شائد خوش شکل
ہوں تو وہ یونیورسٹی خواتین یا مرد سٹوڈنٹس کے لیے فتنہ کا باعث بن رہے ہیں
اور بے رہ روی کا باعث بننے کا سبب بن رہا ہے.
اللہ نے فرمایا:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى
الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ
الْعِقَابِ
ترجمہ ومفہوم:
"..نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناه اور ﻇلم و
زیادتی میں مدد نہ کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالیٰ
سخت سزا دینے واﻻ ہے
( سورۃ مائدہ: 5 آیت: 2)
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
مَا أَدَعُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ "
ترجمہ ومفہوم: میں اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ ضرر رساں کوئ
فتنہ نہیں چھوڑتا"
(حوالہ: ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3998، وسندہ صحیح، بخاری ومسلم)
4. اس کا ایک عنصر میڈیا بھی ہے. میڈیا پر ٹاک شوز کرنے والی خواتین یا
پاکستان کی سیاست دان خواتین بغیر پردہ کے، اپنے جسم کی نمائش کرتی ہیں.
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا
فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا
يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ
وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا
ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ.."
ترجمہ ومفہوم:
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی
حفاﻇت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے
خبردار ہے 30
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں
فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ﻇاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ﻇاہر ہے اور
اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے
ﻇاہر نہ کریں.."
( حوالہ سورۃ النور: 24 آیات 30 اور 31)
مگر لوگ تو پردہ نہ کرنے کو اسکو اصل سمجھنے لگتے ہیں. حالانکہ یہ سخت گناہ
ہے اور وہ خواتیں مکمل وقت گناہ میں رہی جب تک وہ اس طرح غیر محرم کے سامنے
بے پردہ رہی، جب جب وہ پبلک میں یا ٹی وی پر اس طرح بغیر شرعی پردے کے
آئیں، یقینا جو مرد انکو دیکھے گا وہ بھی سخت گناہ گار ہے اور جو مسلمان
عورت اس طرح آۓ گی وہ بھی سخت گناہ گار ہے. اللہ تعالی نے فرمایا:
يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ
ترجمہ ومفہوم: وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینہ کی پوشیدہ باتوں کو خوب
جانتا ہے
( حوالہ: سورۃ غافر: آیت: 19)
سیدنا ابن عمر سے روایت ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے خطبہ دیا، مفہوم:
کہ اے لوگو میں تمہارے درمیان ہوں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے
درمیان کھڑے ہوۓ اور کہا:
"..لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا
الشَّيْطَانُ.."
مفہوم: "...کوئ بھی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے، (اور ایسا کرے گا
تو) ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے.."
(حوالہ: سنن ترمذی، رقم: 2165 وسندہ صحیح)
5 الف. ایک عنصر یہ بھی ہے کہ ہم نے بلوغت کے بعد اپنے بچوں کی جلد شادی
کو طرق کردیا ہے، خاص طور پر بیٹیوں کی اور انکی تعلیم میں اپنے آپ کو کھپا
دیا ہے، تو اسکا نتیجا یہ نکلا کہ جب وہ ماسٹرز لیول کی تعلیم کر لیتی ہے
تو تو اب اسے ایک مسکین خاوند کہاں بھاۓ گا بلکہ اب اسے ایسا خاوند چاہیے
جو یا تو ٹھیک ٹھاک قسم کا بزنس مین ہو یا پھر ایم فل یا پی آیچ ڈی کے لیول
کی تعلیم تو ھو، اسکا اپنا گھر تو ھو، اپنی گاڑی تو ہو، شکل وصورت و قد
قامت بھی اچھا ہو، اس صورت حال میں اس عورت کی عمر تیس یا چالس تک پہنچ گئ،
مگر وہ شادی کے لیے بغیر کسی شرعی عضر کے تیار نہیں. حاشہ وکلہ.
5 ب. اسی طرح مرد بھی اپنے آپ کو تعلیم میں کھپا دیتے ہیں اور اس میں انکی
عمر تیس کے لگ بھگ ہو ہی جاتی ہے اور اگر انکو معاشرے کے مطابق اچھی نوکری
نہ ملے تو کوئ اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا. اور وہ مرد
یا اسکے خاندان والے کسی مسکین یا غریب خاندان میں شادی کرنے کے روا نہیں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا
وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ"
ترجمہ ومفہوم: عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اسکے مال کی
وجہ سے اور اسکے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اسکی خوبصورتی کی وجہ سے اور
اسکے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر
ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی. (یعنی اخر میں تجھ کو ندامت
ہوگی)
( حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 5090)
6. کیا ایسا اچھا نہ ہوتا کہ بلوغت کے بعد اسکی شادی کر دی جاتی، چاہے مرد
ہو یا عورت اور وہ اپنی تعلیم بھی حاصل کرتا رہتا؟ آییں اس باب میں ایک
حدیث دیکھتے ہیں. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ھیں کہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ثَلاَثَةٌ كُلُّهُمْ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَوْنُهُ
الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ
وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الأَدَاءَ"
ترجمہ ومفہوم: تین قسم کے افراد کا حق ہے کہ اللہ انکی مدد ونصرت فرماۓ،
اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے شخص کی، اور وہ مکاتبہ کرنے والا غلام جو
ادائیگی کرنا چاہتا ہو اور وہ شخص جو عفت و عصمت کے حصول کے لیے شادی کرنا
چاہتا ہو.
(حوالہ: سنن النسائ، رقم الحدیث: 3120، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر: 1655
وسندہ حسن)
یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عورت یا مرد بے رہروی کا راستہ اختیار
کرتے ہیں اور عورت اپنی مرضی کے خواند کی تلاش میں تعلیمی اداروں، اپنی
نوکری کی جگہ، آفس یا کہیں بھی جہاں اسکے معیار کا شخص ملے اسکی تلاش میں
نکل پڑتی ہے. کیونکہ عورت اپنے جزبات سے سوچتی ہے اسی لیے وہ کم ہی دیکھتی
ہے کہ اسکا عمل قرآن والسنۃ و دین کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا اسکا چہرہ غیر
محرم کو دیکھانا صحیح ہے یا نہیں؟ یا کسی غیر محرم سے بلا عضر بات کرنا
چاہے بنفس نفیس ہو یا فون پر صحیح ہے یا نہیں؟ بس اسے تو اپنے خواہشات کے
موافق اس ھم سفر کی تلاش ہے چاہے کچھ بھی ہو الا من رحم اللہ. اللہ تعالی
نے قرآن میں فرمایا:
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ
عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ
بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّـهِ ۚ أَفَلَا
تَذَكَّرُونَ
ترجمہ و مفہوم:
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے
اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراه کردیا ہے اور اس کے کان اور دل
پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پرده ڈال دیا ہے، اب ایسے شخص کو
اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے
( حوالہ: سورۃ جاثیہ: 45 آیت 23)
دعا ہے کہ اللہ مسلمان مردوں اور خواتین میں تقوی اور دین کی بصیرت پیدا
فرماۓ اور قرآن والسنۃ پر عمل کو صحابہ کرام کے فہم کی روشنی میں کرنے کی
توفیق عطا فرماۓ آمین. |
|