حضرت ابوبکرؓ محمدﷺ کے سب سے پیارے دوست اور ساتھی تھے۔وہ
ان چاربزرگوں میں سے ہیں جو آپ ؐ پر سب سے پہلے ایمان لائے۔دنیا کے کروڑوں
مسلمان ان کو اﷲ کے رسولوں اور نبیوں کے بعدسب سے بڑا انسان مانتے ہیں اور
ان سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔وہ آپؐ کے منہ بولے بھائی اور سسر تھے۔ان کی
پیاری بیٹی حضرت عائشہ ؓ آپؐ کی بیوی اور ام المومنین ہیں(فداک ابی
وامی)۔انھوں نے ہرموقع پر گواہی دی کہ آپؐ اﷲ کے سچے رسول ہیں اور اسی لیے
ان کو صدیق کا لقب ملا۔اﷲ کے راستے میں آپ ؓ نے بہت زیادہ مال خرچ کیا اور
مصیبتیں برداشت کیں۔آپؓ ہجرت کے سفرمیں آپؐ کے ساتھ تھے اور اﷲ نے آپ کا
ذکر قرآن میں کیا۔وہ ان میں سے تھے جن کو آپؐ نے کھلے لفظوں میں جنت کی
بشارت دی۔آپؐ نے آپ ؓ کو حوضِ کوثر پر اپنا ساتھی بتایا۔تبوک کی لڑائی میں
آپؓ نے گھر کا ساراسامان آپؐ کی خدمت میں پیش کردیا۔اور استفسار پر کہاکہ
میرے لیے اﷲ کا رسول ؐ کافی ہیں۔اس واقعے کو علامہ اقبال نے خوب صورت
اندازمیں نظم کیا۔
اتنے میں وہ رفیق ِ نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق ومحبت ہے استوار
لے آیااپنے ساتھ وہ مردِ وفا سرشت
ہرچیز،جس سے چشمِ جہاں میں ہو اعتبار
بولے حضورؐ چاہیے فکرِ عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار
اے تجھ سے دیدۂ مہ وانجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خداکا رسولؐ بس
آپؓ کا شجرہ آپؐ سے جاملتا ہے۔آپؓ کو یہ اعزازحاصل ہے کہ آپؓ کے والدین
مسلمان تھے ۔آپؓ حضورؐ کی وفات کے بعدپہلے خلیفہ بنے۔آپؓ کی خلافت کے بڑے
بڑے کاموں میں ارتدادکا خاتمہ،منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد،جھوٹے نبیوں کے
خلاف طویل جنگیں اور ایران وروم کے خلاف جہاد شامل ہیں۔قرآن یوں تو حضورؐ
کی حیات مبارک میں لکھا جاچکا تھااور آپؐ نے سورتوں کی ترتیب بھی اﷲ کے حکم
کے مطابق مقررفرمادی تھی اور بہت سے صحابہ کو قرآن زبانی بھی یاد تھا لیکن
مسلیمہ کذاب کے خلاف جنگِ یمامہ میں ایک ہزارمسلمان شہیدہوئے جن میں سات سو
حفاظ شامل تھے تو ابوبکرؓنے سارے قرآن کو ایک جگہ یکجا کرکے لکھوالیااور
پھر حفاظ سے اس نسخہ کا مقابلہ بھی کروالیا کہ کسی غلطی کا احتمال نہ
رہے۔آپؓ نرم مزاج تھے لیکن اسلام کے معاملے میں سخت مزاج۔جب حضرت خالدؓبن
ولیدکو مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا تو ان کے نام ایک فرمان لکھا’اپنے
تمام معاملوں میں اﷲ سے ڈرتے رہوخواہ وہ ظاہرہوں یاپوشیدہ۔یمامہ کی طرف
روانہ ہوجاؤاور بنی حنیفہ اور اس کے کذاب مسیلمہ سے لڑو۔لڑنے سے پہلے ان کو
اسلام کی طرف بلاؤاگروہ اسلام قبول کرلیں تو ان کا اسلام قبول کرلواورمجھے
اطلاع دواوراگروہ کفرپرقائم رہیں تو ان سے سخت جنگ کرو۔علامہ اقبال کا یہ
شعرشایدآپؓ ہی کے لیے کہاگیا ہے کہ
ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہوتوفولادہے مومن
آپؓ خلیفہ بننے سے پہلے بکریوں کا دودھ خوددوہتے تھے اور خلیفہ بننے کے
بعدبھی آپ کے معمولات میں فرق نہ آیا۔اسلام سے پہلے آپ کے پاس چالیس
ہزاردرہم تھے جو ایک کثیرسرمایہ تھااوریہ سب آپ نے اسلام کے لیے وقف
کردیے۔جب بیمارہوئے اور دوہفتے گزرگئے تو کفن دفن کے لیے وصیت کی کہ میرا
کفن رسول ؐپاک کے کفن کی طرح تین کپڑوں کا ہو۔آپؓ نے ۲۲جمادی الآخر کو
سوموارکے دن وفات پائی اور حضورؐ کے پہلو میں دفن ہوئے۔وفات کے وقت آپ کی
عمر۶۳سال تھی اور مدت خلافت دوسال تین مہینے اور گیارہ دن تھی۔آپؓ نے مختلف
اوقات میں پانچ شادیاں کیا۔آپؓ کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں
تھیں۔مصری عیسائی تاریخ دان جرجی زیدان نے اس عظیم خلیفہ کو ان الفاظ میں
خراج تحسین پیش کیا ہےthe age of caliph Abu Bakr is the real golden age
of Islam. آج کے مسلمان حکمرانوں کے لیے ابوبکرؓصدیق کا پہلا خطبہ پیش خدمت
ہے جو آپ کو دعوتِ عمل دے رہاہے ’’لوگو اﷲ کی قسم میں نے کبھی
تمھاراامیربننے کی خواہش نہیں کی۔میں تم سے بہترنہیں ہوں اس لیے اگرسیدھے
راستے پر چلوں تو میری مددکرواور اگرغلطی کروں تو مجھے درست کرو۔یادرکھوکہ
سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔تم میں سے جوکمزورہے وہ میرے نزدیک طاقتورہے
یہاں تک کہ اس کا حق دلوادوں(ان شاء اﷲ)اور تم میں سے جوطاقتورہے وہ میرے
نزدیک کمزورہے یہاں تک کہ اس سے دوسروں کا حق لے لوں(ان شاء اﷲ)۔جوقوم اﷲ
کی راہ میں جہادکرنا چھوڑدیتی ہے وہ ذلیل کردی جاتی ہے۔جس قوم میں بے حیائی
پھیل جاتی ہے اس پر اﷲ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔جب تک میں اﷲ اور اﷲ کے رسولؐ
کا حکم مانوں تومیری اطاعت کرواوراگراﷲ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں
توتم پر میرا حکم ماننا فرض نہیں‘‘۔مقام فکرہے کہ اب سیاست جھوٹ کا نام رہ
گئی ہے۔آپ کسی کو درست کرنے کی کوشش کریں تو سیاست کے فرعون آپ کی بات
تسلیم ہی نہیں کرتے ۔اﷲ کی راہ میں جہاد تو اب دہشت گردی کا نام لے
چکا۔کیونکہ خودبدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔کمزورکا ساتھ کون دیتا ہے
یہاں تو طاقت کو سلام ہے۔آج ہم نے جہاد اور حیاکو چھوڑدیا اور ارضی وسماوی
آفات نے ہماراسکون ختم کردیا ہے۔فحاشی اب آرٹ ہے اور اس کے سپانسرحکمران
ہیں کہ ہر ناچ گانے کی محفل کے مہمان خصوصی وہی تو ہوتے ہیں۔صدیقؓ کے یہ
الفاظ سچے ہیں کہ جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے اس پر اﷲ کا عذاب نازل
ہوتا ہے۔کیا یہ مہنگائی،معاشرتی انتشار،بے سکونی،دہشت گردی،عدم برداشت،بے
مقصدیت،مذہبی انتہاپسندی،فرقہ واریت اﷲ کے عذاب تو نہیں- |