داد ا کی جان ( محمد عمر زاہد لودھی)

وہ کونسا کام ہے جو میرا پوتا (محمد عمر زاہد لودھی) نہیں کرتا صبح آنکھ کھلتی ہے تو وہ میرے تکیے کے پاس کھڑا اپنی پیاری پیاری آواز میں مجھے بیدارکررہا ہوتا ہے ۔ویسے بھی دلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ میں جب صبح نیند سے بیدار ہوں تو سب سے پہلے میرا پوتا محمدعمر ہی میرے سامنے آئے ۔اس کے باوجود کہ وہ ہر الٹا کام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا پھربھی وہ مجھے پیارا لگتا ہے شاید اسے ہی انمول محبت کہتے ہیں جس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔رضوانہ بہو کے چھوٹے بھائی ریحان کی شادی کے بعد محمد عمر جب اپنی نانی گھر سے واپس آیا تو اس نے زمین پر ڈگمگاتے ہوئے قدم رکھنے شروع کیے ۔ اسے زمین پر چلتاہوا دیکھ کر میں بہت خوش ہوا کیونکہ قدرت کا یہ عظیم کارنامہ ہے وہ انسان کو دو پاؤں پر چلنا سکھاتی ہے وگرنہ جسم کا بیلنس برقرار رکھ کر زمین پر چلنا ابتدائی طور پر بچے کے لیے بہت مشکل ہوتاہے ۔ اس نے گھر واپس آتے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ آہستہ آہستہ چلنا شروع کردیا ۔کبھی وہ زمین پر گر جاتا پھر اٹھ کر چلنے کی ہمت کرتا ٗیوں وہ باورچی خانے سے اپنے بیڈ روم تک گرتا پڑتا پہنچ ہی جاتا تھا۔ زمین پر پاؤں رکھ کر چلنے کا عمل یقینا بچے کے والدین اور دادا دادی کے لیے ایک نیک شگون تصور کیاجاتاہے ۔

محمد عمر کے نانا ( محمد صدیق خان ) نے اس واپس آتے ہوئے ایک سائیکل (جس کا نام میں نے نانا ایکسپریس رکھا ہے )تحفے میں دی تھی ۔یہ سائیکل اسے اس قدر پسند تھی کہ اس نے بہت جلد اسے چلانے میں مہارت حاصل کرلی ۔وہ اس سائیکل پرانتہائی تیزرفتاری کے ساتھ زمین پر پاؤں چلاتا ہوا ٹی وی لاؤنج سے شاہد کے کمرے تک جاتا پھر وہاں سے اسی رفتار سے واپس بھی لوٹ آتا ۔ اگر گھر میں کوئی مہمان آئے ہوں تو وہ بطور خاص سائیکل چلانے کامظاہرہ مہمانوں کے سامنے کرنے کی جستجو کرتا ہے ۔ یہ کام وہ اتنی مہارت سے کرتاہے کہ دیکھنے والوں کو اس پر بے ساختہ پیار آجاتاہے ۔

پھر رفتہ رفتہ اس نے پاؤں زمین پر جما کر چلنا شروع کردیا ۔اب وہ پہلے کی نسبت بہت کم گرتا تھا۔ جیسے جیسے اس نے اپنے جسمانی وزن کو بیلنس کیا اسی طرح چلنے میں اس کی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اب گھر کی کوئی چیز اس کی دستبرد سے سلامتی نہیں رہی وہ جب میرے کمرے میں آتاہے تو مجھے بے حد پیارا لگتاہے اور اس کی آمد کو میں اپنے لیے اعزاز تصور کرتا ہوں لیکن وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی میرے بیگ کو کھو ل کر بیٹھ جاتا ہے یہ وہ بیگ ہے جسے میں نے زندگی کے دس سال تک خود سے جدا نہیں کیا۔ میں جب بنک میں جایا کرتا تھا اس وقت بھی یہ بیگ میرے ساتھ ہی رہتا تھا اب اس بیگ میں ٗ میں نے اپنے انتہائی قیمتی کاغذات اورضرورت کی کئی چیز سنبھال رکھی ہیں جن میں کانوں کے آلات ٗ انکے سیل ٗ اپنی نانی ٗ ماں ٗ خالاؤں اور نانے اور ماموں کی نایاب اور پرانی تصویریں ٗ اپنے پرانے شناختی کارڈ اور انشورنس کے کاغذات وغیرہ رکھے ہوئے ہیں تاکہ اگر مجھے ان کی ضرورت پڑے تو انہیں تلاش کرنے میں دقت کاسامنانہ کرنا پڑے ۔ اس کے باوجودکہ نئے گھر میں ہمیں بہت آسانی میسر ہے لیکن پھر بھی بدنظمی میری زندگی کا حصہ رہی ہے اور کئی بار تو ضرورت کی چیزیں تلاش کرنے میں اس قدر دقت کا سامناکرناپڑتا ہے کہ سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں ۔روزنامہ خبریں کا تحفے میں دیا ہوا یہ بیگ اب میری زندگی کا اثاثہ بن چکاہے لیکن یہ بیگ محمد عمر کے ہمیشہ زیر عتاب رہتا ہے کبھی وہ اس کو گھوڑا سمجھ کر اوپر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی وہ کھول کر اس میں چیزیں نکال نکال کر باہر پھینکنا شروع کردیتا ہے ۔میں جب اسے روکتا ہوں تو اتنی بلند آواز میں چیخ مارتا ہے کہ اس کی ماں تک خبر پہنچ جاتی ہے اور وہ روایتی ماؤں کی طرح بھاگتی ہوئی وہاں پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا بچہ موجود ہوتا ہے پھر وہ محمد عمر کو اپنی آغوش میں لے کر اپنے کام میں مصروف ہوجاتی ہے ۔

کسی نے کیا خوب کہاہے کہ بچہ اور بندر یہ دونوں نقل اتارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اسے دوہرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں بلکہ اﷲ تعالی نے ان دونوں میں نقل اتارنے کی بے شمار خوبیاں ودیعت کررکھی ہیں۔ محمد عمرمیں یہ خصوصیت کچھ زیادہ ہی پیدا ہوچکی ہے وہ جب ماں اور دادی کو بجلی کا پلگ لگاتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے ہاتھ میں جو بھی چیز آتی ہے وہ بجلی کی ساکٹ میں لگانے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ کام بہت خطرناک ہے کیونکہ اس سے کرنٹ لگنے کا اندیشہ بھی ہوتاہے کبھی وہ ماں کے سر کی پین ہاتھ میں لیے بجلی کی ساکٹ میں لگانے لگتا ہے تو کبھی وہ گھر میں رکھا ہوا کوئی فالتو پلک ٗ ساکٹ میں گھسیٹنے کی جستجو کرتا ہے ۔ میں کئی بار عمر کی ماں اور دادی کو کہہ چکا ہوں کہ محمدعمر کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور اس کی ایک ایک حرکت کو غور سے دیکھا کرو تاکہ اس کو ہر ممکن کسی نقصان سے بچایا جاسکے ۔ وہ اس وقت دنیا کی ہر چیز کو جستجو سے دیکھنا چاہتا ہے اسے تجسس ہے کہ جو کام اس کے ماں باپ یا گھر کے دیگر افراد کرتے ہیں وہ اسے بھی کرنا چاہیئے ۔ کسی شرارت پر جب میں اسے اپنے کمرے سے نکالتا ہوں تو وہ جاتا جاتا نہایت راز داری کے انداز میں بجلی کا وہ سوئچ بند کر جاتا ہے جو کمیپوٹر کو بجلی کی سپلائی فراہم کرتا ہے جب میرا کمیپوٹر اچانک بند ہوجاتا ہے تو پہلے میں سمجھتا ہوں کہ بجلی بند ہوگئی ہے لیکن اس کے جانے کے بعد غور کرتاہوں تو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ تو جاتا جاتا بجلی کا سوئچ ہی آف کرگیاہے ۔کمپیوٹر کے مانیٹر پر اس کی تصویر لگی ہوئی ہے جسے دیکھ کر وہ مارنے کی جستجو کرتاہے کہ میرے ہوتے ہوئے وہ کیوں یہاں بیٹھا ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کو بجلی کے سوئچوں سے کچھ زیادہ ہی پیار ہوگیا ہے ۔

باورچی خانہ بھی اس کی دستبرد سے باہر نہیں ہے وہ وہاں پہنچ کر سلیب پر رکھی ہوئی چیزیں اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جب اس کا ہاتھ نہیں پہنچتا تو وہ چینی کا پلاسٹک جار نیچے رکھ کر اس کے اوپر کھڑا ہونے کی جستجو کرتا ہے اس جستجو میں وہ کئی بار گر بھی چکا ہے لیکن باز پھر نہیں آتا ۔ پانی سے بھرا ہوا گلاس اٹھنا اور سارا پانی اپنے اوپر گرانا اس کامحبوب ترین مشغلہ ہے ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شرارتیں حد سے زیادہ بڑھتی جارہی ہیں وہ میرے بیڈ پرقریب پڑے ہوئے صوفے پر پاؤں رکھ کر چڑھ جاتا ہے پھر تکیے کے نیچے رکھی ہوئی آنکھوں کے ڈراپس کو کھو ل کر اس کو اپنی آنکھوں میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تکیے کے نیچے سے دادی کی وسیلین نکال کر اپنی انگلی سے وسیلین نکال کر اپنے چہرے اور سر پر لگالیتا ہے گویا وسیلین کی جو بوتلیں پورا سیزن چل سکتی ہے وہ چند ہفتے بعدہی انجام کو پہنچ جاتی ہے ۔جب ہماری نظر پڑتی ہے تو اس سے وسیلین کی ڈبی چھیننا بھی ایک مسئلہ بن جاتاہے کبھی وہ اپنے پیچھے ہاتھ لے جاکر چھپالیتا ہے تو کبھی تکیے کے نیچے رکھ کر یہ احساس دلانے کی جستجو کرتاہے کہ اس کے ہاتھ میں تو کچھ ہے ہی نہیں تھا۔ موبائل تو جس کا بھی دیکھتا ہے اسے ہاتھ میں لے کر سننے کے انداز میں کانوں کو لگا لیتا ہے ۔ٹی وی کا ریمورٹ اکثر میری بیگم کے ہاتھ میں ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی کے پروگرام دیکھنے کی بے حد شوقین ہے لیکن دادی کی نظر بچا کر محمد عمر ٗ ٹی وی ریمورٹ لے کر ایسے بھاگتا ہے جیسے اس نے سب سے زیادہ قیمتی چیز حاصل کرلی ہو۔ پھر اسی ریمورٹ کوکانوں سے لگاکر فون کرنے کے انداز میں باتیں کرتا ہے۔ کمپیوٹر کو چھیڑانا ٗ کی بورڈ پر چھوٹی چھوٹی انگلیاں مارنا ٗ مانیٹر پر ہاتھ رکھ کر چیک کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔پھر جہاں USB لگتی ہے وہاں اپنی انگلی ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جب وہ میرے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو کمپیوٹر پر کام کرنے کی بجائے میری توجہ اس کی جانب ہی مبذول رہتی ہے ۔اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ میں اس کی حرکتوں کو بغور دیکھ رہا ہوں لیکن نظر بچا کر وہ کوئی نہ کوئی ایسا کام کر دکھاتا ہے جس پرمجھے غصہ آ جاتا ہے۔

اسے کرکٹ کھیلنے کا بھی بے حد شوق ہے ۔ میں نے اسے بطور خاص ایک بیٹ لاکر دیا جس سے وہ ٹی وی لاؤنج اور کوریڈور میں چوکے چھکے لگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے جب گیند صوفے یا فریج کے نیچے چلی جاتی ہے تو جیسے فوجی مورچے میں لیٹا ہوتا ہے اسی طرح زمین پر لیٹ کر گیند کو نکال کر میرے پاس آجاتا ہے اور دوبارہ باولنگ کروانے کو کہتا ہے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ لکڑی کا بلا اس کی ماں کی ٹانگ پر لگے یا دادی کے۔ وہ کرکٹ کھیلنے میں مگن دکھائی دیتا ہے جب شارٹ مارتا ہے تو ایسے مارتا ہے جیسے پاکستانی ٹیم کا ٹیسٹ کھلاڑی ہو ۔بڑے جوتے پہننے کا جنون کی حدتک شوق ہے ۔کبھی وہ میری چپل پہن کر چلنے لگتا ہے تو کبھی اپنے باپ کے بوٹ پہن کر چہل قدمی کرتا ہوا ہمارے قریب سے گزرتا ہے اس طرح وہ گر بھی پڑتا ہے لیکن اسے گرنے کا کوئی غم نہیں ہوتا وہ پھر اپنے جنون میں مبتلا چلنے لگتا ہے ۔

میرے بیڈ روم کا ایک دروازہ گلی کی جانب بھی کھلتا ہے جو گرمیوں میں تو تازہ ہوا فراہم کرتا ہے لیکن سردیوں میں سرد ہوا وہاں سے داخل ہوتی ہے جس سے بچنے کے لیے ہم نے ضرورت کے پیش نظر اس پر پلاسٹک لگا رکھا ہے اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دروازہ کھول کردنیا کو دیکھے۔ دروازے کی چٹخنی کچھ اونچی لگی ہوئی ہے اس لیے محمد عمر کاہاتھ اس تک نہیں پہنچتا ۔ پھر وہ اپنا ہاتھ چٹخنی تک پہنچانے کے لیے قریب ہی رکھے ہوئے میرے بیگ کو زمین پر لٹا کر اس پر کھڑے ہوکر چٹخنی کھولنے کی جستجو کرتا ہے ۔دروازہ کھلنے سے جب ٹھنڈی ہوا کمرے میں داخل ہوتی ہے تو مجھے سخت سردی کااحساس ہوتا ہے لیکن وہ سردی کی شدت سے بے نیاز دروازے سے باہر گرل کے ساتھ کھڑا لوگوں کو آتے جاتے دیکھتا ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔کسی کتاب میں ایک چڑیا کے بچے کے کہانی چھپی تھی کہ وہ جب انڈے میں ہوتا ہے تو یہی سمجھتا ہے کہ دنیا انڈے کے اندر تک ہی محدود ہے ٗ پھر جب انڈے سے باہر نکلتا ہے تو گھونسلے کے اندر کی جگہ کو دنیا تصور کرتاہے اس کے بعد جب وہ کچھ بڑا ہوکر گھونسے سے باہر کھلی فضا میں اڑنے لگتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ دنیا تو لامحدود وسعتوں کا نام ہے ۔ چڑیا کے بچے کی طرح انسان کے بچے کی کیفیت بھی وہی ہوتی ہے وہ پہلے ماں کی آغوش کو دنیا تصور کرتاہے پھر گھر کے ماحول کو ۔ لیکن جب اس کے پاؤں زمین پر چلنے لگتے ہیں وہ گھر سے باہر نکلنے کی ہر ممکن جستجو کرتاہے شاید یہی جستجو اسے ہر وقت گلی کی جانب کھڑا رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔جب میں اسے غصے سے ڈانٹتا ہوں تو وہ کبھی کبھار تو برداشت کر جاتا ہے لیکن کبھی کبھی غصے کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اگر میں اسے اپنی گود میں اٹھا کر شیشے کے سامنے کرتا ہوں تو وہ فوری طور پر شیشے کے اوپر لگے ہوئے کنگھے کو پکڑ کر اپنے بالوں کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ماں خوراک سے بھرا ہوا پیالہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کبھی ماں کے ہاتھ سے نوالہ نگل لیتا ہے تو کبھی دوسری جانب چہرہ کرکے فرار ہوجاتا ہے۔

لاکھوں میں ایک شرمین فاطمہ لودھی کو جب میں سکول سے واپس لانے کے لیے گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو محمدعمر سب کچھ چھوڑ کر میرے پیچھے دوڑ پڑتا ہے۔ اس کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ میں اسے اپنی گود میں اٹھا کر نیچے لے جاؤں ۔ گھٹنے کے آپریشن کی وجہ سے میرے لیے محمد عمر کو اٹھا کر سیڑھیاں اترنا ناممکن ہوجاتاہے میں اسے دادی کے سپرد کرتا ہوں تو چیخیں مارتا ہوا اپنی مدد کے لیے مجھے بلاتا ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں اسے کسی بھی طرح روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں اس کی محبت کا لامحدود سمندر موجزن ہے وہ میری زندگی ہے اور میں اس سے اسی طرح پیار کرتا ہوں اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں وہ مسکراتا ہے تو میرا دل مسکراتا ہے وہ رونے لگتا ہے تو نہ جانے کیوں میرا دل ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ میں اسے ڈانٹتا بھی ہوں کبھی کبھار ہلکی سی چپت پر لگا دیتا ہوں لیکن اس پر آنے والا میرا غصہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا اور محبت پہلے سے زیادہ شدت سے مجھ پر غالب آجاتی ہے ۔

موٹرسائیکل پر خوب انجوائے کرتا ہے لیکن چلتے چلتے وہ چابی نکالنے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔وہ ہمیں موٹرسائیکل کو لاک کرتے اور چلانے سے پہلے سٹارٹ کرتا ہوا دیکھتا ہے تو پھر اپنی چھوٹی سی سائیکل کو چابی لگا کر سٹارٹ کرکے ٗ ویسے ہی نقل اتارنے کی کوشش کرتا ہے ۔

اپنے باپ ( محمد زاہدلودھی ) کا تو وہ اس قدر دیوانہ ہے کہ اس کی آمد کا شدت سے انتظار کرتا ہے جیسے ہی کسی کی موٹرسائیکل گھر کے سامنے ر کنے کی آواز آتی ہے وہ دوڑ کر سیڑھیوں کے پاس آ کھڑا ہوتا ہے تا کہ اپنے باپ کاوالہانہ انداز میں استقبال کر سکے ۔اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس کے باپ کے ہاتھ میں ہلمٹ ٗکھانے کا ڈبہ اور کچھ اور سامان بھی ہوتا ہے جو اس کی ماں منگوانے کے لیے ایس ایم ایس کرتی ہے۔ محمدعمر کی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ جتنی جلد ی باپ کی آغوش میں پہنچ جائے اتنا ہی اچھا ہے ۔ باپ جب کمیپوٹر پرکا م کرنے لگتا ہے تو محمدعمر شرارتیں کرکے اپنے باپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔اگر کسی کام کے لیے زاہدکو باہر جانا پڑے تو تنہا نہیں جاسکتا محمد عمر کو پہلے اٹھائے گا پھر اسے لے کر جائے گا ۔ سردی جتنی زیادہ ہو محمد عمر موٹرسائیکل کے آگے بیٹھ کر باپ کے ساتھ جانے میں خوشی محسوس کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سردی کی وجہ سے اسے نزلہ بھی ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار طبیعت بھی خراب ہوجاتی ہے ۔وہ اپنے باپ کے موبائل کو کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا ۔ ایک مرتبہ جب ہم ممتاز کے گھر میلاد مصطفے کی محفل میں شریک تھے تو کسی کا فون آگیا زاہد نے اپنا موبائل اپنے ماموں ندیم کو فون سننے کے لیے دے دیا ۔ محمد عمر نے اس وقت تک سانس نہیں لیا جب تک اپنے باپ کا موبائل واپس نہیں لے لیا ۔موبائل سننے اور کانوں سے لگاکر چلنے کا اسے جنون کی حد تک شوق ہے ۔ میرے پرانے موبائل کو میز سے اٹھائے کر ایسے بھاگتا ہے کہ اسے پکڑنا مشکل ہوجاتاہے ۔

محمد عمر مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے میں جب کھانا کھانے لگتا ہوں تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے سے نوالے بنا کر اس کے مونہہ میں ڈالوں اور وہ کھاتا رہے ۔بے شک گلاس پانی سے بھرا ہوا ہو وہ کسی سہارے کے بغیر خود پینے کی جستجوکرتا ہے اس طرح بہت سارا پانی اپنے اوپر گرا لیتا ہے جس سے اس کی ماں کے کام میں اس لیے اضافہ ہوجاتا ہے کہ سارے کپڑے پھر تبدیل کرنے پڑتے ہیں ۔ ایک مرتبہ میری بیگم میرے لیے بطور خاص کلیجی بھون کر لائی اور پلیٹ میں رکھ کر واپس چلی گئی ۔ میں اس وقت واش روم میں تھا۔ واپس آیا تو دیکھا کہ محمد عمر بہت مزے کے ساتھ کلیجی کی مسالے بھری بوٹی اٹھا کر کھانے کی کوشش کررہا ہے ۔جب اسے مرچیں لگنے لگیں تو سوسو بھی کر نے لگا لیکن کھانے سے باز بھی نہیں آیا ۔بہت مشکل سے کلیجی کی بھری ہوئی پلیٹ اس سے واپس لی وگرنہ وہ تو اسے اپنی ہی پلیٹ سمجھ کر قبضہ جما چکا تھا ۔جب کبھی گھر میں مہمان آتے ہیں تو میری بیگم ان کی تواضع کے لیے نمکو اور بسکٹ چائے سے رکھتی ہے ۔ محمد عمر کھاتا تو بہت کم ہے لیکن خراب زیادہ کرتا ہے ۔ چاولوں سے بھری ہوئی پلیٹ اٹھا کر بھاگ جاتا ہے پھر اسے اس طرح بکھرتا ہے جس کو سمیٹنا اس کی ماں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے چونکہ اﷲ تعالی نے ماں کے دل میں بچے کے لیے بے پناہ محبت ودیعت کررکھی ہے اس لیے محمد عمر کی تمام تر شرارتیں اور حماقتیں اس کی ماں( رضوانہ زاہد) بہت تحمل اور برد باری سے برداشت کرتی ہے بلکہ ایک عظیم ماں کا روپ دھارے محمدعمر کی ہر لغزش اور شرارت کو برداشت کرنے کا جذبہ رکھتی ہے وہ ایک ایسے گھر سے آئی ہے جہاں تمام انسانی رشتوں کو والہانہ محبت سے نوازا جاتا ہے ۔تحمل ٗ برداشت اور خدمت اس کی شخصیت کا اہم ترین حصہ ہیں۔

میں جب نماز پڑھنے کے بعد گھر واپس پہنچتا ہوں تو سیڑھیوں پر ہی بے ساختہ میری آواز بلند ہوتی ہے ۔ پیارے عمر ..... شہزادے عمر ...... تو کہا ں ہے ۔ وہ میری آواز سن دوڑا چلاآتا ہے اور میرے سینے سے لگ کر اپنی لامحدود محبت میرے جسم منتقل کردیتا ہے ۔اس لمحے میرے دل سے اس کے لیے دعا نکلتی ہے کہ اﷲ اسے زندگی میں بے پناہ کامیابیاں عطا فرمائے اور کوئی دکھ اور بیماری کا سایہ بھی اس پر نہ پڑے ۔

اب محمد عمر ماشا اﷲ ڈیڑھ سال کاہوچکا ہے اب وہ نہ صرف اچھے طریقے سے چلنے لگا ہے بلکہ کھانے پینے اور شرارت کرکے دوڑنے بھی لگا ہے ۔وہ آرام سے بیٹھنے والا بچہ نہیں ہے بلکہ اپنے وجود کو منوانے کا فن جانتا ہے ۔ اس قدر ذہین ہے کہ اس کا ذہن ہر وقت کسی نہ کسی کام میں لگا رہتا ہے ۔ کبھی کبھی میں مذاق میں کہتا ہوں کہ حضرت قائداعظم ؓ نے کام کام اور بس کام کرنے کا جو حکم دیا تھا وہ شاید محمد عمر کے لیے ہی تھا کیونکہ محمد عمر صبح سے رات گئے تک انتہائی مصروف دکھائی دیتا ہے ۔کام کرنے کا تو اس کو جنون کی حد تک شوق ہے ۔فارغ بیٹھنا تو وہ گناہ تصور کرتا ہے ۔سارا دن اس کے ساتھ بہت اچھا گزرتا ہے میں اسے ڈانٹتا بھی ہوں اور اپنے کمرے سے بازو پکڑ کر نکال بھی دیتا ہوں لیکن پھر اسے میری محبت واپس لے آتی ہے لیکن جب وہ اپنی نانی گھر چند دن کے لیے چلا جاتا ہے تو گھر ایک ویرانے کی صورت دھار لیتا ہے میری زبان سے بار بار عمر ,...... محمد عمر ........ کے الفاظ نکلتے ہیں لیکن جب وہ مجھے نظر نہیں آتا تو میں اداس ہوجاتا ہوں اور اس کی واپسی کا بے تابی سے انتظار کرتا ہوں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784531 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.