گزشتہ روز کی اہم خبر تھی کہ
ڈیرہ غازی خان: پولیس نے چار سالہ بچے پر ڈکیتی کا مقدمہ درج کر لیا۔ملزم
کو جمعہ کے روز ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ معزز عدالت نے معصوم
بچے کےخلاف ایف آئی آر درج کرنے پر دراھمہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کی
سخت سرزنش کی اور درج ایف آئی آر بھی مسترد کردی۔ مگر جس عدالت کے جج موصوف
نے معصوم بچے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات صادر کئے تھے ا ور لاءافسر
جس نے بھی بچے پر مقدمہ درج کرنے کے لیے لیگل رائے دی تھی ان کے خلاف کوئی
کاروائی کیوں نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ، گزشتہ سال میں ہماری پولیس نے مختلف
شہروں میں ایسے درجن بھر مقدمات کا اندراج کیا ہے۔گذشتہ سال ملتان پولیس نے
بھی ایک اڑھائی سالہ بچے پر ڈکیتی اور لاہورپولیس نے نو مہینے کے ایک بچہ
پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اسی نوعیت کے کئی مقدمات دیگرشہروں میں
بھی درج ہوئے۔آخر ہوکیا ہے پولیس امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھنے
شہریوں کے جان مال کی حفاظت کرنے جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی
کے لیے ہروقت چاک وچوبند رہتی ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنی جان
پر کھیل جاتی ہے۔ شیر جوانوں کی بہادری کی کئی مثالیںموجود ہیں ۔فرض شناس
ایماندار پولیس لکیر کی فقیر جب بن جائے تو پھر جگ ہنسائی ہوتی ہے۔مقامی
تھانہ دراہمہ پولیس نے اگرچہ کم عمر بچے کوڈکیتی کے ایک مقدمہ میں شریک
ملزم ضرور بنایا مگر پولیس افسر کے مطابق یہ مقدمہ دراصل ایک عدالت کے حکم
پر درج ہوا ہے۔مدعی مقدمہ نے مبینہ ڈکیتی کے مقدمہ کی ایف آئی آر کے اندارج
کے لیے مقامی عدالت میں درخواست گزاری تھی۔معزز عدالت کے جج نے چار سالہ
رشید احمداور اس کے والد سمیت چھ افراد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا
حکم دیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معزز عدالت کے جج نے مدعی کی
درخواست پر تمام درج ناموں (نامزد افراد) میں معصوم بچے کو کیسے نظرانداز
کردیا اور اس کو بھی کیا بالغ سمجھ لیا تھا ۔لاءافسران کی خدمات پولیس کو
حاصل ہوتی ہیں ۔انہوں نے کیا ا س پر کوئی لیگل رائے دی تھی اور پولیس نے
بھی کوئی ایسی رائے لینا ضروری جانا ۔یہ سب کچھ عام سا واقعہ سمجھ کر اسے
معمولی سی غلطی جان کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پولیس کے مطابق یہ مقدمہ
جھوٹا تھا اور نامز د ملزمان نے عبوری ضمانت کے لیے پہلے سے درخواست دے
رکھی تھی اور وہ اس کی پیروی کے لیے عدالت آئے تھے۔بقول یہ جھوٹ پرمبنی
مقدمہ تھا ۔جسے پولیس خارج کر چکی تھی۔ SYSTEM UVENILE JUSTICE کے تحت ہر
سطح پر اس کے لیے کورٹ بنیں تو اس طرح کے مقدمات اگر سچے بھی ہوں تو بھی کم
عمرخطاکاروں کو عام عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکے گا اور انہیں جیل میں
نہیں رکھا جائے گا ۔جیونائیل جسٹس ایکٹ کے مطابق اگر کسی کم عمر خطاکار کو
عام عدالت مین پیش کیا بھی جائے تو آئندہ پیشی پر اس کو اس کے لیے مخصوص
کورٹ مین پیش کیا جاتا ہے۔اس دوران کم عمر خطاکار کو probation officer کے
حوالے مجرم (کم خطاکار)کو کیا جاتا ہے۔JUVENILE JUSTICE SYSTEM ORDINANCE
کا مطالعہ پولیس افسران کریں ۔ |