گندے پانی کے نکاس کے لیے محلے میں سیور بچھا ہوا تھا۔
مگر گٹروں کے ڈھکن غائب تھے۔ کسی بھی حادثے سے بچنے کے لیے لوگوں نے اپنی
مدد آپ کے تحت کسی مین ہول پر لکڑی کا تختہ، کسی پر سلیب اور کسی کے اردگرد
اینٹوں کی دیوار کھڑی کی ہوئی تھی۔ ان تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود
محلے بھر کو ہر وقت یہی ڈر تھا کہ کہیں کوئی بچہ کھلے مین ہول میں گر نہ
جائے۔ مگر بچے تو بہرحال بچے ہیں سارا دن گلی میں کرکٹ کھیلتے او رجب بھی
گیند کسی گٹر میں گرتا وہ گیند کو واپس حاصل کرنے کے لیے جان پر بھی کھیلنے
کو تیار ہو جاتے۔بہت منع کرتے مگر انہیں گیند زندگی سے بھی پیارا ہوتا۔
بچوں کی کھیل کے دوران محلے کے بزرگ پریشان بچوں کے ساتھ ساتھ رہتے کہ کہیں
گیند کی تلاش کا متلاشی کوئی بچہ کسی مین ہول میں گر جائے تو اسے فوری مدد
بہم پہنچائی جائے۔ ایک آدھ دفعہ کوئی بچہ گرا بھی تو محلے کے نوجوانوں نے
فوری ہمت کی اور گٹر کے پانی میں شرابور اپنا حلیہ بگاڑ کر بھی بچے کو
بچایا۔
اس مشکل کے ازالے اور گٹرں پر ڈھکن لگوانے کے لیے بہت سی درخواستیں دی گئیں۔
اعلیٰ حکام کو بہت سے خط لکھے گئے ، مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ آخر محلے کے
بزرگوں کا ایک وفد ٹاؤن میونسپل اتھارٹی کے دفتر گیا۔ متعلقہ انچارج بہت
اچھی طرح پیش آیا۔ اس نے لوگوں کی مشکل بڑے غور سے سنی۔ انجئینرنگ سٹاف کو
بلایا اور انہیں علاقے کا فوری سروے کرنے کا حکم دیا۔ محلہ کے تمام معززین
کو کہا کہ گو بجٹ نہیں ہے مگر آپ کا مسئلہ بہت جائز ہے۔ پندرہ دن میں جس
طرح بھی ہو سروے کرا کر کام کی لاگت کا تخمینہ بنایا جائے گا اور جس طرح
بھی ممکن ہوگا آپ کے محلے میں کام شروع ہو جائے گا۔
سرکاری افسر جس نے پندرہ دن کی یقین دہانی کرائی تھی بھلا آدمی تھا۔ واقعی
پندرہ بیس دن بعدٹھیکیدار کام کرنے کیلئے موجود تھا۔ محلے دار بہت خوش تھے
کہ اک عرصے سے جو عذاب ان کے لیے ایک مستقل درد سر بنا ہوا تھا اب ختم ہونے
جا رہا ہے۔ٹھیکیدارکے کارندوں کوکام شروع کئے ابھی دو گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ
چار پانچ پہلوان نما لوگ آئے اور انہوں نے زبردستی کام بند کروا دیا۔ ان کا
مؤقف تھا کہ یہ ہمارا علاقہ ہے یہاں کام شروع کرنے سے پہلے انہیں اطلاع
دینا لازمی تھی۔ اطلاع نہ دے کر کام بلا اجازت شروع کرنے والے ٹھیکیدار کو
ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ دو گھنٹے کام بند رہا تو ٹھیکیدار صاحب تشریف
لائے۔ پہلوانوں اور ٹھیکدار کی ملاقات تھوڑی دیر جاری رہی۔ پھر ٹھیکیدار نے
پہلوانوں کی بات فون پر کسی تیسرے شخص سے کرائی جس کے نتیجے میں پہلوان منہ
لٹکائے چلے گئے اور کام باقاعدہ شروع ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ٹھیکیدار
صاحب کسی بڑے لیڈر کے بھائی ہیں اور پہلوان جو علاقائی لیڈر تھے ٹھیکیدار
سے اپنا حصہ وصول کرنے آئے تھے۔ مگراپنے سے بڑے کسی لیڈر کے فون پر مایوس
چلے گئے۔
دو دن کام بہت سکون سے ہوتا رہا۔ پہلوان جو پہلے دن مایوس لوٹ گئے تھے
تیسرے دن ایک نئے ولولے اور نئے جذبے کے ساتھ محلے میں تشریف لائے ۔ محلے
داروں سے بڑے تپاک سے ملے انہیں کام شروع ہونے کی مبارکباد دی اور بتایا کہ
ان کی بے پناہ کاوشوں، محنتوں اور جناب چیف منسٹر صاحب کو لگاتار یاد دہانی
کرانے کے بعد یہ کام شروع ہوا ہے۔ محلے دار ان کی باتیں سنتے رہے اور ہنستے
رہے کسی نے انہیں نہیں بتایا کہ کام کیسے شروع ہوا۔ وہ جو بھی کہتے رہے اس
پر ہر ایک سر ہلاتا رہا اور ان کا شکریہ ادا کرتا رہا۔ پہلوان صبح سے شام
تک کام کروانے والے مزدوروں اور مستریوں کے اردگرد منڈلاتے رہے۔ کسی نے
گزرتے کوئی خامی دیکھی اور ٹھیکیدار کے بندوں کو بتانے کی کوشش کی تو
پہلوان فوراً درمیان میں آجاتے کہ بس پرواہ نہ کریں ہم پوری طرح دیکھ رہے
ہیں آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
مین ہولوں کی مرمت اور ڈھکن لگانے کا کام بہت چھوٹا سا کام تھا۔ چار پانچ
دن میں پایہ تکمیل کو پہنچنے لگا۔ اچانک پورا محلہ بینروں اور فلیکسوں سے
بھر گیا۔ شکریہ شہباز شریف ،محلے میں ترقیاتی کام کروانے پر ہم آپ کے مشکور
ہیں۔ میاں برادران اور چند بڑے لیڈروں کے علاوہ پہلوانوں کی تصاویر بھی ان
بینروں اور فلیکسوں پر موجود تھیں۔ اب محلے کے لوگوں کو اپنے ان پہلوان
لیڈروں کے نام بھی تصویروں کے نیچے لکھے ہونے کے سبب پتہ چلے۔ شکریہ شہباز
شریف کے بینر اور فلیکس صرف محلے تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ علاقے میں کافی
دور تک نظر آرہی تھیں۔ محلہ دار حیران تھے کہ ان کے محبوب لیڈر شہباز شریف
کو یہ علاقے کے لیڈر اب گٹروں تک لے آئے ہیں۔ حالانکہ حقیقی طور پر لیڈروں
کی ضرورت قانون سازی ،معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل کو دیکھنے تک ہونی
چائیے۔ مگر کیا کیا جائے؟ لیڈروں کے اردگر دجو پہلوان موجود ہوتے ہیں وہ
اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کے سبب لیڈروں کو گٹروں سے باہر آنے ہی نہیں
دیتے اور لیڈر شاید یہی سمجھتے ہیں کہ گٹروں کی مرمت بھی گویا انہوں نے
اپنی جیب خاص سے کی ہے اس لیے شکریہ ان کا حق ہے۔
افسوس صد افسوس کہ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے لیڈر یہ نہیں سمجھتے
کہ ان کا کام خدمت ہے۔ لوگوں کے مسائل کا حل ان کا جائز حق ہے اور اگر وہ
کوئی ترقیاتی یا عوام کی بہتری کا کوئی کام کرتے ہیں تو وہ اپنا فرض پورا
کر رہے ہوتے ہیں۔کسی پر کوئی احسان نہیں کر رہے۔ آج کل دنیا میں ایک نیا
رحجان پرورش پا رہا ہے جسے سیلفی (Selfie) کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ
خودنمائی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سارے سیاسی لیڈر خودنمائی کی بیماری کا
شکار ہیں۔ جہاں ان کے نام کے بینر نہیں لگتے، ان کی تصویروں والی فلیکسیں
نہیں سجتیں اور جہاں شکریہ شہباز شریف کا نعرہ نہیں لگتا وہاں عوام کی
بھلائی کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ |