ملک میں ان دنوں لاقانونیت ، پرتشدد واقعات ، بم
دھماکوں اوردہشت گردی کی فضاء قائم ہے ۔ اب تک بہت سی قیمتی جانیں بم
دھماکوں اور پرتشدد کاروائیوں سے ضائع ہوچکی ہیں۔اگر چہ کسی بھی مسلک اور
فرقے کے مستند اہل علم تشدد اور مارکٹائی کی موجودہ صورتحال کی حمایت نہیں
کرتے تاہم فرقہ وارانہ کشیدگی کے پھیلاؤ میں بیرونی عناصر کی مداخلت کے
ساتھ جذباتی اور محدود سوچ کے حامل افراد کے غیر زمہ دارانہ کردار کو
نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دہشت گرد پاکستان میں دہشت
گردی کو فرقہ واریت کا نام دے کر ملک کو تباہی کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔
مذہبی مقامات اور پشاور امام بارگاہ میں دہشت گردی اس سلسلے کی کڑی ہے جہاں
نہتے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دہشت گرد ریاست میں بسنے والے
عوام کے مابین لڑائی فرقہ واریت اور پر تشددواقعات کو فروغ دینا چاہتے ہیں
۔ ریاست پاکستان تو پہلے ہی لاتعداد سنگین و پیچیدہ مسائل اور بحرانوں کا
شکار ہے ۔ بیرونی جارحیت کے خطرات سے قطع نظر ، داخلی حوالوں سے بھی ملک
اور قوم اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں ۔ کمزور معیشت، توانائی کا بحران،
زوال پذیر معاشرہ ، سیاسی تنازعات، اداروں کے مابین غیر مثالی تعلقات،بے
روزگاری، مہنگائی، بدامنی ، بیماریوں اور جہالت نے ہمیں کڑی آزمائشوں میں
مبتلا کررکھا ہے ۔ان حالات میں فرقہ وارانہ منافرت قوم کے اعصاب کو شل کرنے
اور اسے اس کو اس کے مقاصد سے مخرف اور انتشار کا شکار کرنے کے لیے کافی ہے
۔ چنانچہ اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مختلف فرقوں اور مسالک کے جید
علمائے کرام اور اہل علم مذہبی رہنماملک میں فرقہ دارانہ ہم آہنگی کو فروغ
دینے کے لیے مشترکہ طور پر کوششیں کریں اور مل جل کر قوم کو فرقہ وارانہ
بنیادوں پر برپا ہونے والے تشدد سے نجات دلوائیں، تاکہ ریاست اور قوم کو
درپیش مسائل کم ہوسکیں اور ایک پرامن اور مہذب معاشرے کو وجود مل سکے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک پرامن ،مہذب معاشرہ سے اسلام کی حقیقی
تصویر دنیا کے سامنے آسکے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں مسالک کے
باہمی علمی اختلافات کو گلی کوچوں میں عوامی گفتگو کا موضوع بناکر دور
اندیشی کا ثبوت نہیں دیا گیا اور فرقہ وارانہ تشدد کے پس پردہ اسی نوعیت کی
غلطیوں کا عمل کارفرما ہے ۔ ایسے افراداسلام دشمنوں عناصر کے آلہ کار بنتے
ہیں۔ چنانچہ اب تمام مسالک کے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلکی
اختلافات اور علمی نوعیت کے مباحث کو گلی کوچوں میں ہونے والی گفتگو کا
موضوع بنائے جانے سے عوام کو اجتناب برتنے کی ہدایت دیں اور تقریروں اور
خطبات میں دین اسلام کی متفقہ تشریحات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی
جانب توجہ دیں۔ اسلامی شریعت نے جس طرح احترام انسانیت، توقیر بنی آدم، عدل
و انصاف، اعتدال اور مساوات کی ہدایت دی ہے اور وعدوں کی پابندی، سچائی کے
فروغ، جھوٹ کے خاتمے اور سود، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی، آبرو ریزی،
بدکاری اور فواحش سے دور رہنے کے احکامات دیے ہیں، انہیں معاشرے میں زیادہ
سے زیادہ عام کیا جائے ، اور خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کو روکنے اور معاشرے
میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطراب کے خاتمے اور لوگوں کو ان کے مسائل کا
حل بتانے کی کوششیں کی جائیں۔ صبر و تحمل، برداشت، میانہ روی، سادگی، قناعت،
اخوت، کفالت، نادار اور مفلس طبقات کی دست گیری جیسے رویے اس وقت معاشرے کی
اشد ضرورت ہیں، اور ایسے رویوں کو فروغ دے کر ملکی معاشرے میں اسلام کی
متفقہ تعلیمات کو عام کیا جاسکتا ہے۔ صحابہ کرام، اولیائے عظام، اکابرین حق،
علمائے دین اور اسی طرح کسی بھی مسلک اور فرقے کے اکابرین اور بزرگوں کے
خلاف توہیں آمیز تقریر و تحریرپر ناقابل ضمانت گرفتاری اور سزا کا قانون
اور اس پر مکمل غیر جانبداری کے ساتھ عمل، فرقہ وارنہ تشدد کے خاتمے میں
اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ملک بھر کے جید علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ ملک
کے بہتر مستقبل اور پائیدار قیام امن کے لیے مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے
لیے کردار ادا کریں اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ملک اور ملت کے
معاون بنیں ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات ملک میں
امن و سلامتی کو فروغ دیں اور کسی غیر قانونی ، غیر اخلاقی، غیر اسلامی،
غیرزمہ دارانہ سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمے
کے لیے علمائے کرام کی تجاویز کو اہمیت دے اور ان کی تجاویز کی روشنی میں
قانون سازی کرے۔ ہمیں ہر لمحے دعاکرنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک
پاکستان اور اس میں بسنے والوں کو دہشت گردوں اور ان کے ناپاک عظائم سے
ہمیشہ کے لیے محفوظ فرمائے۔آمین |