پاکستان اور چین کے درمیان
دوستانہ تعلقات کی نئی جہتیں سامنے آتی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی
میں دونوں ممالک کے درمیان ایک اور تاریخ ساز معاہدہ طے پایا ہے جس میں
گوادراور چینی شہر زوہائی کو جڑواں شہر قرار دیا گیا ہے۔زوہائی میونسپل کے
وائس میئر لی چنگ وانگ اور ضلع گوادر کے چیئر مین بابو گلاب ،زوہائی پورٹ
اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل جونگ ونگ ہانگ اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئر
مین دوستین جمالدینی نے جڑواں شہروں کی باہمی مفاہمتی یاد داشت پر دستخط
کئے۔
پاک چین دوستی دیرینہ اوروقت کی تمام کسوٹیوں اورامتحانوں پر پورا اتری ہے۔
گوادر اور زوہائی کا جڑواں ہونا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہر آنے والاوقت
دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی مزید نشانیوں اور جہتوں کو سامنے لائے گا۔
گزشتہ سال وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے دورہ چین کے دوران بہت سے
معاہدات طے پائے تھے اور دوستی کے مزید عہد و پیمان باندھے گئے تھے۔ پاک
چین مشترکہ اعلامیہ جاری ہونے سے پہلے وزیراعظم نوازشریف اور چینی وزیراعظم
لی کی چیانگ کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں تجارت اور معیشت کے
فروغ اور سرمایہ کاری میں اضافے پر اتفاق کیا گیا اور 8 اہم معاہدوں،
سمجھوتوں اور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ پاکستان اور چین نے معاشی
تعاون کو خطے کے دیگر ممالک تک پھیلانے کے لیے 18 ارب ڈالر کی لاگت سے
کاشغر سے گوادر تک اقتصادی راہداری قائم کرنے، 3 سال میں44 کروڑ ڈالر سے
کاشغر سے اسلام آباد تک فائبر آپٹک سسٹم بچھانے، تعلیم کے لیے سود سے پاک
قرضے دینے کے علاوہ کراچی سے لاہور تک موٹروے سے متعلق مفاہمت کی ایک
یاداشت پر دستخط کیے۔سال 2015ء کو پاک چین دوستانہ تبادلوں کے سال کے طور
پر منانے کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا ۔ اس دوران مشترکہ اعلامیہ میں
طے پایا گیا تھا کہ دونوں ملک جڑواں شہر/ صوبے قائم کرینگے۔ عوامی جمہوریہ
چین پاکستان میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹس کی تعداد میں اضافہ کرے گا۔ مسلح
افواج کے درمیان اعلیٰ سطح کے دورے جاری رکھنے، انسداد دہشت گردی کے لیے
کارروائی کی تربیت بڑھانے، دفاعی ٹیکنالوجی اور پیداوار کے شعبے میں تعاون
میں مزید اضافہ کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی دونوں ممالک نے اپنے عہدوپیمان پر عملدرآمد شروع
کردیا۔ پاکستان چین سے سرمایہ کاری حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔
دونوں کے مابین ترقیاتی منصوبوں میں 52ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے
طے پائے گئے اور آئندہ 5سال میں چین صرف توانائی کے منصوبوں میں 32ارب ڈالر
کی سرمایہ کاری کرے گا۔تعلقات کے فروغ کے لئے اب تک دونوں کے درمیان بہت سے
وفود کا تبادلہ بھی ہوچکا ہے جن میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا
دورہ چین خاصی اہمیت کا حامل تھا۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی بھی گزشتہ
ہفتے پاکستان میں موجود رہے ۔ انہوں نے پاکستانی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور
باہمی امور پر تبادلہ خیالات کیا۔ انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ
پاکستان کے حوالے سے بھی مختلف امور پربات چیت کی۔ یقینا چینی صدر کا دورہ
پاکستان دونوں ممالک کے تعلقات کا اس سال نقطہ عروج ہوگا۔
بہرحال گوادراور زوہائی کے جڑواں شہر ہونے سے جہاں پاکستان اور صوبہ
بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگاوہاں پاکستان اور
چین کے علاقائی تعاون کو بھی فروغ ملے گا۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے پاکستان
کے تجارتی، معاشی روابط کو نیا موڑ ملے گا۔ پاکستان کے چین سے بڑھتے تعلقات
اورپاکستان کی خوشحالی و ترقی اس کے دشمنوں کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم
نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اور گوادر میں ایک سازش کے تحت دہشت گردی اور
علیحدگی پسندی کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ وہاں شرپسندوں کو خوب اسلحہ اور گولہ
بارود فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی اعانت بھی کی جارہی ہے۔گوادر کو
بھی متعدد مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ تاہم ان تمام سازشوں اوردہشت گردی کے
باوجود پاکستان اور چین باہمی تعاون کے فروغ اور گوادر میں تجارتی سرگرمیاں
شروع کرنے میں پرعزم ہیں اور زوہائی گوادر کا جڑواں شہرقرارپانا ان کے اس
اس عزم کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں جہاں پاکستان کے حصے
میں خوشحالی اور ترقی آئے گی وہاں چین بھی اس سے مستفید ہوگا۔ اس وقت چین
کی بڑی تجارتی سرگرمیاں اس کی مشرقی ساحلی پٹی کے ساتھ ہورہی ہیں۔ صوبہ
سنکیانگ جس کی سرحدیں پاکستان اوروسط ایشیائی ریاستوں سے ملتی ہیں،اس کے
داراحکومت ارومکی میں چین نے قزاکستان سے تیل کی پائپ لائن بچھانے کے ساتھ
ساتھ وہاں نیشنل آئل ریفائنری لگائی ہے۔گزشتہ پندرہ سال یہاں کی تجارتی
سرگرمیوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ اورمکی چین کی مشرقی
بندرگاہوں اور گوادر سے تقریبا یکساں فاصلے پر واقع ہے۔ تاہم چین کی یہ
مشرقی بندرگاہیں چونکہ بحر الکاہل کے ذریعے براہ راست امریکہ، یورپ اور
مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی حاصل کرتی ہیں لیکن یہاں سے چینی جہازوں کو
خلیج عدن تک پہنچنے کے لئے بحر ہند کے ساتھ ساتھ اسٹریٹس آف ملاکہ کے راستے
جانا پڑتا ہے۔ جہاں پہنچنے کے لئے انہیں 5000میل کا طویل سفر طے کرنا پڑتا
ہے۔ مگر گوادر سے خلیج عدن صرف 1100میل کے فاصلے پر واقع ہے۔گوادر تک براہ
راست ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ اس طرح مستقبل میں چین
کی تجارت اس کے مغربی حصے میں ہوگی اور وہاں سے گوادر کے ذریعے اس کے سامان
کی ترسیل ہوگی۔ وسط ایشیائی ممالک بھی گوادر کے راستے کا بھرپور فائدہ اٹھا
سکیں گے۔
اس وقت گوادر کی آبادی پچاسی ہزار کے لگ بھگ ہے جو 2050ء میں بڑھ کر 1.7
ملین پہنچ جائے گی۔ شہر کی آبادی کا 60 فیصد ماہی گیری ،کشتیوں کی تیاری
اور دیگر متعلقہ تجارتی شعبوں میں مصروف عمل ہے ۔ گوادر اور زوہائی کے
جڑواں بھائی بننے کے بعد یہاں ترقی اور سرمایہ کاری کے وسیع موقع پید اہو
گئے ہیں۔ گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد گوادر ماسٹر پلان کے تحت
ایک نیا شہر آباد کر نے کیلئے مختلف منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ہیں
اور کئی منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ جن میں ہسپتال،سکول ،انفراسٹرکچر
،اسٹیڈیم ،سڑکیں شامل ہیں۔ گوادر کو ٹیکس فری زون کے لیے سنٹرل بورڈ آف
ریونیو اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کام کر رہی ہے جس کے تحت 30 کلومیٹر کے علاقے
میں پاور پلانٹ ،واٹر پلانٹ اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو
ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے اور مقامی سطح پر فری ٹریڈ زون میں
تیار ہونے تمام اشیاء بھی ٹیکس فری ہونگے۔ درآمدی اور برآمدی خام مال پر
بھی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ گوادر پورٹ اور فری ٹریڈ زون کی ترقی کیلئے
مشینریز بھی ٹیکس فری ہونگے ۔ گوادر سے کاشغر تک راہ داری کی تعمیر ایک بہت
بڑا کارنامہ ہو گا جو علاقائی تعاون کو فروغ دے کر پاکستان کی اہمیت دوچند
کردے گا۔ زوہائی کو گوادر کا جڑواں شہر قرار دینا دونوں شہروں کے عوام
کیلئے بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔دونوں کے عوام ایک دوسرے کی تعمیر و ترقی ،
تجربات اور علم و ہنر کو کام میں لاتے ہوئے برادرانہ تعلقات کے مزید فروغ
کا باعث ہوں گے۔ |