یادش بخیر۔ ایک نصیحت

 ہم نے اپنی بچت سے ایک ائر گن 1970 میں لی ، زیادہ تر شکار فاختہ کا ہوتا اور پھر اسے پکا کر کھایا بھی جاتا ، ایک دفعہ غلطی سے " مینا " شکار کر لی اسے گھر لایا ،
والدہ نے پوچھا، " اسے کیوں مارا "۔
ہم نے کہا، " بس ویسے ہی " ۔
انہوں نے ڈانٹا ، " کیا اسے کھاؤ گے ؟"
ہم نے کہا ، "نہیں "
" جب میں نےکہا تھا کہ جس پرندے کو نہیں کھاتے انہیں نہیں مارنا تو تم نے حکم عدولی کیوں کی ؟ "
والدہ غصے میں بولیں ، " اب اسے پکاؤ اور کھاؤ ورنہ آئیندہ ائر گن لے کر باہر نہ جانا "
'
خیر ہم نے افسردہ ہوکر ، مینا کو پکانے کے لئے تیار کرنا شروع کیا ، کراہت سے اس کی بوٹیاں بنائیں ۔ ہم سمجھ رہے تھے کی کسی موقع پر والدہ منع کر دیں گی ، لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ۔ "مینا "کوکوئلوں پر روسٹ کرنے کے لئے ہم نے مصالحہ لگا کر تیار کیا ۔ کوئلے جلانے سے پہلے ۔ہم نے لجاہت سے پوچھا-
" امی ، کیا یہ حلال ہوتی ہے ؟ "
" نہیں ، مکروہ " امی نے ہماری معلومات کو کنفرم کیا ۔
میں اور امی باہر صحن میں تھے اور کمرے کی کھڑکی سے چھوٹا بھائی اور بہن دانت نکال رہے تھے ۔
لیکن امی ، مکروہ کو تو عام حالت میں کھانا جائز نہیں " میں نے اپنی حجت کا سہارہ لیا ۔
" تو کیا مارنا جائز ہے ؟ " انہوں نے پوچھا ۔
ہمارے پاس جواب نہیں تھا ۔ لہذا چپ ،
" اگر آئیندہ ایسا شکار کیا تو پھر سوچ لو ۔ جاؤ اسے چھت پر ڈال دو ، کوئے کھا لیں گے " والدہ بولیں ۔

ہم خوش ہوئے کہ جان چھوٹی ، ورنہ ۔ ۔ ۔ !
دیوار پر چڑھ کر ، مینا کو چھت پر ڈالا ، نیچے اترے ۔ تو چھوٹا بھائی اور بہن امی کے پاس بیٹھے تھے ۔ چھوٹے بھائی نے ، شرارت کے طور پر مجھے دیکھا اور امی سے معصومیت میں پوچھا ،
" امی اگر لالہ نے کوا مارا ، تو اسے وہ بھی کھانا پڑے گا "۔
امی بولیں ، " ہاں "
اور ہماری جان کپکپانے لگی ، اور دل میں کہا اللہ تیرا شکر ہے ، کہ کوا بچ گیا اور اس " مینا " کی شامت آگئی ۔لیکن کوئے کو پکانے کے لئے تیار کرنے کا ذہن میں لاتے ہی ہمیں ابکائی سی محسوس ہونے لگی ۔

اس کے بعد کسی بھی ایسے پرندے کا شکار کرتے ہی ہمارے ذہن میں" کوا " آجاتا ۔ اور ہم یہ یقین کرتے کہ چھرا ، حلال پرندے کو ہی لگے ۔

لیکن کیا کیا جائے ، تیرتی ہوئی مرغابیوں کا شکار کرتے وقت ۔ دوسرے پرندے بھی شکار ہوجاتے ۔ تو ہم تصور میں ، امی سے معافی مانگتے ۔ کہ ہمارا ارادہ مارنے کا نہیں ، لیکن کیا کیا جائے گندم میں گھن تو پستا ہی ہے ۔
لیکن مارا جانے والے پرندے ہمارے کتوں کی خوراک بن جاتے ۔

فوج میں تھے تو ہم مرغابیوں کا شکار ہی کرتے ایک دفعہ ایک فوجی دوست نے کہا آؤ ، دریائے توی کے پاس جاتے ہیں وہاں شاید کوئی نیل گائے ، مل جائے قسمت خراب نیل گائے نہیں ملی واپسی پر آتے ہوئے سرخ پور کے مقام پر جنگلی سوروں کا غول ملا ۔
دوست بولا ، " آؤ ان کا شکار کرتے ہیں "
" کیا انہیں کھاؤ گے ؟ " ہم نے بے اختیار پوچھا ۔ اس کا منہ کھل گیا ۔
"کیا بکواس ہے " ۔ وہ بولا
"کچھ نہیں "۔ہم نے کہا ، " لیکن جب کھانا نہیں تو شکار کیوں کرنا ؟"
" شغل میں " وہ بولا
بہر حال اس نے شغل میں تین سور مارے ہر سور کے مرنے پر ہماری "کوئے " والے تصور کی وجہ سے کراہیت بڑھتی جاتی ۔
دوست نے اپنا شغل پورا کیا انہیں وہیں چھوڑ کر ہم لوگ واپس آگئے ۔
خیر مہینے بعد اس نے پھر پوچھا ، " شکار پر چلو گے "
" ایک شرط پر کہ ، کسی بھی حرام جانور یا پرندے کا شکار ہم نہیں کریں گے " میں شرط پیش کی ۔
آخر وہ ، کافی جرح کے بعد وہ راضی ہوگیا ۔ راستے میں اسے ہم نے ماجرا بتایا ،
"تم ذہنی بیمار بن چکے ہو " وہ بولا ، " فوج میں رہتے ہوئے ایسی سوچ ؟"
" اگر وہ حرام جانور مجھے پر حملہ کرے گا تو میں اپنے بچاؤ کے لئے اسے ضرور ماروں گا " میں نے جواب دیا ،" لیکن اگر مجھے کچھ نہ کہے ، تو مجھے کیا ضرورت پڑی اس کی زندگی لینے کی ،کیا میں دنیا میں امن سے نہیں رہ سکتا ؟ "
وہ ہنس کر بولا ، " تمھیں توپخانے کے بجائے ، آرڈیننس یا سروس کور میں جانا چاہئیے تھا "

میں اب سوچتا ہوں ، کہ انسان کتنی آسانی سے انسانوں کو شغل میں قتل کر دیتے ہیں ؟
Khalid.Naeemuddin
About the Author: Khalid.Naeemuddin Read More Articles by Khalid.Naeemuddin: 92 Articles with 111858 views My Blog:
http://ufaq-kay-par.blogspot.com/

My Face Book Link:
https://www.facebook.com/groups/tadabbar/

" أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ
.. View More