یادش بخیر۔ ایک نصیحت
(Khalid.Naeemuddin, Islamabad)
ہم نے اپنی بچت سے ایک ائر
گن 1970 میں لی ، زیادہ تر شکار فاختہ کا ہوتا اور پھر اسے پکا کر کھایا
بھی جاتا ، ایک دفعہ غلطی سے " مینا " شکار کر لی اسے گھر لایا ،
والدہ نے پوچھا، " اسے کیوں مارا "۔
ہم نے کہا، " بس ویسے ہی " ۔
انہوں نے ڈانٹا ، " کیا اسے کھاؤ گے ؟"
ہم نے کہا ، "نہیں "
" جب میں نےکہا تھا کہ جس پرندے کو نہیں کھاتے انہیں نہیں مارنا تو تم نے
حکم عدولی کیوں کی ؟ "
والدہ غصے میں بولیں ، " اب اسے پکاؤ اور کھاؤ ورنہ آئیندہ ائر گن لے کر
باہر نہ جانا "
'
خیر ہم نے افسردہ ہوکر ، مینا کو پکانے کے لئے تیار کرنا شروع کیا ، کراہت
سے اس کی بوٹیاں بنائیں ۔ ہم سمجھ رہے تھے کی کسی موقع پر والدہ منع کر دیں
گی ، لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ۔ "مینا "کوکوئلوں پر روسٹ کرنے کے لئے
ہم نے مصالحہ لگا کر تیار کیا ۔ کوئلے جلانے سے پہلے ۔ہم نے لجاہت سے
پوچھا-
" امی ، کیا یہ حلال ہوتی ہے ؟ "
" نہیں ، مکروہ " امی نے ہماری معلومات کو کنفرم کیا ۔
میں اور امی باہر صحن میں تھے اور کمرے کی کھڑکی سے چھوٹا بھائی اور بہن
دانت نکال رہے تھے ۔
لیکن امی ، مکروہ کو تو عام حالت میں کھانا جائز نہیں " میں نے اپنی حجت کا
سہارہ لیا ۔
" تو کیا مارنا جائز ہے ؟ " انہوں نے پوچھا ۔
ہمارے پاس جواب نہیں تھا ۔ لہذا چپ ،
" اگر آئیندہ ایسا شکار کیا تو پھر سوچ لو ۔ جاؤ اسے چھت پر ڈال دو ، کوئے
کھا لیں گے " والدہ بولیں ۔
ہم خوش ہوئے کہ جان چھوٹی ، ورنہ ۔ ۔ ۔ !
دیوار پر چڑھ کر ، مینا کو چھت پر ڈالا ، نیچے اترے ۔ تو چھوٹا بھائی اور
بہن امی کے پاس بیٹھے تھے ۔ چھوٹے بھائی نے ، شرارت کے طور پر مجھے دیکھا
اور امی سے معصومیت میں پوچھا ،
" امی اگر لالہ نے کوا مارا ، تو اسے وہ بھی کھانا پڑے گا "۔
امی بولیں ، " ہاں "
اور ہماری جان کپکپانے لگی ، اور دل میں کہا اللہ تیرا شکر ہے ، کہ کوا بچ
گیا اور اس " مینا " کی شامت آگئی ۔لیکن کوئے کو پکانے کے لئے تیار کرنے کا
ذہن میں لاتے ہی ہمیں ابکائی سی محسوس ہونے لگی ۔
اس کے بعد کسی بھی ایسے پرندے کا شکار کرتے ہی ہمارے ذہن میں" کوا " آجاتا
۔ اور ہم یہ یقین کرتے کہ چھرا ، حلال پرندے کو ہی لگے ۔
لیکن کیا کیا جائے ، تیرتی ہوئی مرغابیوں کا شکار کرتے وقت ۔ دوسرے پرندے
بھی شکار ہوجاتے ۔ تو ہم تصور میں ، امی سے معافی مانگتے ۔ کہ ہمارا ارادہ
مارنے کا نہیں ، لیکن کیا کیا جائے گندم میں گھن تو پستا ہی ہے ۔
لیکن مارا جانے والے پرندے ہمارے کتوں کی خوراک بن جاتے ۔
فوج میں تھے تو ہم مرغابیوں کا شکار ہی کرتے ایک دفعہ ایک فوجی دوست نے کہا
آؤ ، دریائے توی کے پاس جاتے ہیں وہاں شاید کوئی نیل گائے ، مل جائے قسمت
خراب نیل گائے نہیں ملی واپسی پر آتے ہوئے سرخ پور کے مقام پر جنگلی سوروں
کا غول ملا ۔
دوست بولا ، " آؤ ان کا شکار کرتے ہیں "
" کیا انہیں کھاؤ گے ؟ " ہم نے بے اختیار پوچھا ۔ اس کا منہ کھل گیا ۔
"کیا بکواس ہے " ۔ وہ بولا
"کچھ نہیں "۔ہم نے کہا ، " لیکن جب کھانا نہیں تو شکار کیوں کرنا ؟"
" شغل میں " وہ بولا
بہر حال اس نے شغل میں تین سور مارے ہر سور کے مرنے پر ہماری "کوئے " والے
تصور کی وجہ سے کراہیت بڑھتی جاتی ۔
دوست نے اپنا شغل پورا کیا انہیں وہیں چھوڑ کر ہم لوگ واپس آگئے ۔
خیر مہینے بعد اس نے پھر پوچھا ، " شکار پر چلو گے "
" ایک شرط پر کہ ، کسی بھی حرام جانور یا پرندے کا شکار ہم نہیں کریں گے "
میں شرط پیش کی ۔
آخر وہ ، کافی جرح کے بعد وہ راضی ہوگیا ۔ راستے میں اسے ہم نے ماجرا بتایا
،
"تم ذہنی بیمار بن چکے ہو " وہ بولا ، " فوج میں رہتے ہوئے ایسی سوچ ؟"
" اگر وہ حرام جانور مجھے پر حملہ کرے گا تو میں اپنے بچاؤ کے لئے اسے ضرور
ماروں گا " میں نے جواب دیا ،" لیکن اگر مجھے کچھ نہ کہے ، تو مجھے کیا
ضرورت پڑی اس کی زندگی لینے کی ،کیا میں دنیا میں امن سے نہیں رہ سکتا ؟ "
وہ ہنس کر بولا ، " تمھیں توپخانے کے بجائے ، آرڈیننس یا سروس کور میں جانا
چاہئیے تھا "
میں اب سوچتا ہوں ، کہ انسان کتنی آسانی سے انسانوں کو شغل میں قتل کر دیتے
ہیں ؟ |
|