چنیوٹ میں معدنی ذخائر کی دریافت اور ہماری روایات

 چنیوٹ میں معدنی ذخائر کی دریافت پر شریف برادران نہ صرف بہت خوش دکھائی دیتے ہیں بلکہ کشکول توڑنے کے بلند بانگ دعوے بھی کررہے ہیں ۔ ان کی باتوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم جس خوشخبری کی منتظر تھی وہ خوشخبری مل گئی ہے ۔ اﷲ کرے یہ معدنی ذخائر موجودہ حکومت کے تبدیل ہونے سے پہلے پہلے اپنی حتمی شکل اختیار کرکے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا دیں ۔اس لمحے جہاں میں بھی بہت خوش ہوں وہاں مجھے ڈر لگتا ہے کہ خدانخواستہ یہ پراجیکٹ بھی کہیں روایتی سستی اورانتظامی نااہلی کا شکار ہوکر اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے ۔ اﷲ تعالی نے پاکستان کو چار موسم ٗ ہمیشہ بہنے والے دریا ٗ خوبصورت وادیاں ٗ معدنیات سے لبریز پہاڑی ٗ بلند ترین چوٹیاں اور ریگستانی سلسلے عطا کررکھے ہیں ۔ اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اچھے مخلص اور دیانت دار لیڈر کی کمی ہے ۔یہ کمی آج بھی پوری شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایوب خان کے دور میں منوں کے حساب سے سونا ملنے کی خوشخبری ملی تھی جس پر ہم جیسے لوگوں نے بہت خوشی کااظہار کیا تھا لیکن چند ہفتوں کی بازگشت کے بعد آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ سونا کہاں گیا ۔ جس ملک میں نوٹوں سے بھرے ہوئے سٹیٹ بنک کے ٹرک غائب ہوجاتے ہیں اس ملک میں ایسے منصوبوں کی تکمیل معجزہ ہی ہوگا ۔ میں 1988 کے اوائل میں پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ میں ملازم تھا یہ محکمہ گنے کے پھوک سے ایشیا کی سب سے بڑی پیپر ملز کمالیہ کے مقام پر تعمیر کررہا تھا یہ منصوبہ ٹرن کی ( چابی گھمو اور مل چلاؤ ) کی بنیاد پر برطانیہ کاایک ادارہ تعمیر کررہا تھا۔جنرل محمدضیاء الحق نے اس اہم ترین ملزکی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ افتتاحی تقریب پر اس وقت چار کروڑ روپے خرچ کردیئے گئے ۔یہ کثیر الامقاصد منصوبہ ضیاء الحق کی شہادت کے ساتھ ہی اپنی موت مر گیا ۔شاید آج بھی وہ پتھر منہ چڑا رہا ہوگا جس پر غریب پاکستانی قوم کے چار کروڑ روپے بے دریغ خرچ کردیئے گئے تھے ۔ "باب پاکستان "کا منصوبہ جنرل غلام جیلانی خان کے دور میں شروع کیا گیا تھا 233ملین روپے مختص کرنے کے باوجود آج بھی یہ منصوبہ اپنے تعمیر کرنے والوں کی راہ دیکھ رہا ہے ۔اس منصوبے کی افتتاح پر بھی غریب قوم کے چھ سے آٹھ کروڑ خرچ کردیئے گئے تھے۔30 سال کے بعد وہاں صرف ایک کھنڈر دکھائی دیتا ہے۔کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ایوب دور میں شروع ہوا تھا اب تک انداز پانچ ارب سے زائد فنڈخرچ کرنے کے باوجود یہ منصوبہ عملی صورت نہیں دھار سکا اب یہ منصوبہ پاکستان مخالف لابی کے ہاتھوں کھلونا بن چکاہے ۔بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کے کچھ عرصہ بہت چرچے تھے کہ یہاں 12.3 ملین تانبا اور 0.9 ملین اونس سونا موجود ہے جس سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن یہ منصوبہ آج بھی حکمرانوں کی ذاتی توجہ حاصل نہیں کرپایا اور کرپٹ مافیا کی نظر ہوکر اپنی اہمیت کھو چکاہے ۔تھرکول کا پراجیکٹ (جسے کالا سونا کہہ کرپکارا جاتاہے) ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی کاوشوں کے باوجود مکمل طور پر عملی شکل اس لیے اختیار نہیں کرسکا کہ حکومت مطلوبہ فنڈ مہیا نہیں کررہی۔ ماہرین کی رائے تھی کہ یہ منصوبہ اپنی تکمیل کے بعد اگلے پانچ سو سال پاکستان کی توانائی سے متعلقہ ضروریات پوری کرسکتا ہے۔یہاں پروٹوکول ٗ غیرملکی دوروں ٗ حکومت بچانے کے لیے تو فنڈز بے دریغ خرچ کردیئے جاتے ہیں لیکن جو منصوبے قوم کی تقدیر بدلنے والے ہوتے ہیں ان کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہوتے ۔لاہور میں رنگ روڈ کامنصوبہ 1997میں بنایاگیا شہباز شریف کی حکومت ختم ہوتے ہی چوہدری پرویز الہی نے یہ منصوبہ نہ صرف ختم کردیا بلکہ فیروز پور روڈ کو ہی رنگ روڈقرار دینے کااحمقانہ اقدام کرکے اپنی جیبوں اربوں روپے ڈال لیے ۔یہی وجہ ہے شہباز شریف کی تمام تر کوشش کے باوجود رنگ روڈ کا جنوبی حصہ ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔نوازشریف کے پچھلے اور موجودہ دور میں بلٹ ٹرین کے بہت چرچے تھے اس منصوبے پر بھی کروڑوں روپے فزیبلٹی پر خرچ کرنے کے باوجود نتیجہ صفر ہی نکلا ۔ ڈیڑھ سال پہلے حکومت پنجاب کے زیر اہتمام دنیا کی چھ یونیورسٹیوں سے معاہدوں پر دستخط کااہتمام کیاگیا تھا جس کے مطابق ساڑھے آٹھ سو ایکڑ اراضی پر "نالج سٹی " بننا تھا۔ آج تک اس منصوبے پر پیش رفت نہیں کی جاسکی ۔اب چین کے ساتھ 52 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بہت چرچے ہیں لیکن دو سال گزرنے کے باوجود نہ تو موٹروے کی تعمیر شروع ہوسکی ہے اور نہ ہی صنعتی زونوں کے قیام اور گوادرکو انٹرنیشنل سٹی بنایا جاسکا ہے۔اسلام آباد ائیرپورٹ کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ۔ پاکستانی حکمران باتیں اور دعوے بہت کرتے ہیں لیکن دعووں کو اپنی نااہلی کی بناپر عملی صورت نہیں دے پاتے یہاں حکومتیں بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی جو کام جتنا جلدی پایہ تکمیل کو پہنچ جائے اتنا ہی بہترہے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے میگا پراجیکٹوں کے افتتاحی تقریبات پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ تمام میگا پراجیکٹ معیشت پر بوجھ ہی ثابت ہوئے ہیں۔اس کے برعکس جہاں ایک سوئی بھی بنائی نہیں جاسکتی وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ذہانت اور ان جیسے درجنوں محبت وطن سائنس دانوں کی محنت سے پاکستان نہ صرف ایٹمی ملک بن چکا ہے بلکہ میزائل ٹیکنالوجی میں امریکہ کے ہم پلہ بن چکاہے یہ پراجیکٹ اس لیے انجام پا چکے ہیں کہ سائنس دانوں کو مطلوبہ فنڈز اور فری ہینڈ دیاگیا تھا۔اگر شریف برادران حقیقی معنوں میں پاکستان کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو چنیوٹ کے معدنی ذخائر اور تھرکول پراجیکٹ کے لیے بیورو کریسی سے آزاد ادارے بنا کر مطلوبہ فنڈ فراہم کرکے ان کو فری ہینڈبھی دیں اسی طرح بجلی اور گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات حاصل کرکے صرف تین ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.