اسلام امن وسلامتی کا علَمبردار

اسلام امَن اورسلامتی کادین ہے کیونکہ اس کامادہ( سلم) ہے جس کے معنی ہیں سلامتی۔ اسلام نہ صرف اپنے ماننے والوں کے لئے امن اورسلامتی کا علمبردارہے بلکہ وہ پوری انسانیت کی فلاح وبہبودکاطلبگار ہے۔اسلام کی رحمت تواس کائنات کے ہرچرند،پرند،چوپائے اور ہرچیز کے لئے عام ہے۔ انسان توانسان رہے، جانوروں کے حقوق کادرس بھی ہمیں اسلام میں ملتاہے۔

قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اہلِ اسلام کومعاشرے میں امن وسلامتی کے ساتھ رہنے کابھرپوردرس دیاگیا ہے لیکن آج کے اِس پُر فِتن دور میں اپنوں کی کج اَدائی اوراغیارکی کینہ پروری کی وجہ سے ہرفساداور خرابی کو اسلام اوراہلِ اسلام کے ساتھ منسوب کیاجارہاہے ۔ ہرطرف ظلم وستم کے پہاڑ مسلمانوں پر ٹوٹتے ہیں اورہرستم اُنہی پر رَوا رکھاجاتاہے۔ برق گرتی ہے توبے چارے مسلمانوں پر۔اگروہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے آواز بلند کریں تودہشت گردقراردئیے جاتے ہیں۔ میڈیا میں موجود ہمارے اپنے بھی اسلام اورمسلمانوں پروارد ہونے والے اِلزامات کی صفائی دینے کے لئے آمادہ نہیں کہ کہیں اِس جُرم کی پاداش میں اُنہیں بھی دہشت گرد قرارنہ دے دیاجائے۔ اِس دور میں اسلام اپنے پیروکاروں سمیت ہر طرف بے یارومددگار نظر آتاہے جیسا کہ اِس بارے میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے پیش گوئی کی تھی : سَیَعُودُ ھٰذَا الدِّیْنُ غَرِیْبًا کَمَا بَدأََ غَرِیْبًا۔ (یہ دین عنقریب ایسے اجنبی وبے یارومدددگار ہو جائے گا جیسے شروع میں اجنبی وبے یارومدددگارتھا)۔

مقامِ افسوس ہے کہ انسانیت سے گِرے ہوئے ہرواقعہ کوبِناکسی تحقیق کے اسلام واہلیانِ اسلام کے ساتھ منسوب کردیاجاتاہے۔ اِس مذموم عمل میں دشمن تودشمن رہے،ہمارے اپنے بھی پیش پیش نظرآتے ہیں۔ ہراَیرا غیرا، نتھوخیرا کی تان اسلام پر اوراس پرعمل پیراہونے والوں پرہی ٹوٹتی ہے۔ موجودہ حالات میں اسلام واہلِ اسلام کے خلاف گفتگو ایک فیشن بن چُکاہے۔

جب بھی کسی مسجدیاکسی دوسری عبادت گاہ یابازارمیں دہشت گردی کاکوئی واقعہ رُونماہوتاہے تو اُس کے تانے بانے بلاتأخیر مساجد ومدارس ودینی جماعتوں کے ساتھ جوڑدیے جاتے ہیں اور اُس واقعہ میں کارفرما دیگر عوامل کویکسرنظراندازکردیاجاتاہے جوکہ ہرگِزقرینِ انصاف نہیں حالاں کہ دہشت گردی کانہ کوئی دین ہوتا ہے اورنہ کوئی مذہب،نہ کسی مسجد سے اُس کاکوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ کسی مدرسے سے۔

۱۶دسمبر۲۰۱۴ء کوپشاورمیں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کابدترین سانحہ رُونماہواجس پرہردل گرفتہ اورہرآنکھ اَشک بارتھی۔۱۶دسمبر۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اسی تاریخ کو اسلامیان ِ پاکستان پرایک دفعہ پھر قیامتِ صُغرٰی برپا ہوگئی۔ اِس اندوہ ناک سانحہ میں پھولوں جیسے ایک سَوچالیس سے زائدمعصوم بچے اوراساتذہ شہیدہوگئے۔
بقول شوکت رضاشوکت:
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ شوکت
کل مری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے

اِس انسانیت سوز واقعہ کی جتنی بھی مذمّت کی جائے کم ہے۔اس شرم ناک اور سیاہ ترین واقعہ کی ذمہ داری نام نہادتحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی۔ اس کے ساتھ ہی میڈیا اورحکومتی ایوانوں میں دینی جماعتوں اورمساجد ومدارس کے کرداراوراُن میں پڑھائے جانے والے نصاب کے بارے میں بحث چھِڑ گئی جس سے لگتاتھاکہ اِس طرح کی قبیح حرکات کے پیچھے مدارس ومساجد کا ہاتھ ہے۔

ہمارے دُشمن کی چَو مُکھی جنگ ہر مُحاذ پرکامیابی سے جاری وساری ہے۔ پروپیگنڈہ کے زور پر دشمن نے عوام کے دِلوں میں جہاد ومجاہدینِ اسلام اوراسلام کے قلعوں مساجدومدارس کے خِلاف نفرت پیداکردی ہے جب کہ حقیقت پسندی کاتقاضا تھاکہ حقیقی دشمن کوپہچاناجاتااوراُس کے خلاف بروقت اقدامات کرکے اُس کی چالوں کوناکام ونامُراد بنایاجاتا۔مگرافسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ اب بھی وقت ہے اپنے وپرائے کی پہچان کی جائے اورملّی اتحاداوریک جہتی کے ساتھ ملک وملّت کے دشمن عناصرکے مذموم عزائم خاک میں ملائے جائیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارادین ِاسلام امن وسلامتی کے بارے میں کیاتصوُّررکھتاہے اوراِس بارے میں ہمیں کیا رہنمائی دیتاہے؟

اسلام معاشرے میں ہمیشہ امن وسلامتی کے ساتھ رہنے کادرس دیتاہے اوراپنے پیروکاروں کو پورے کے پورے سلامتی کے دین میں داخل ہونے کاحُکم دیتاہے۔ارشادِباری تعالٰی ہے: یاَاَیھُّاَالَّذِیْنَ آمَنُوْااُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً۔۔۔ [سورۃ البقرۃ الآیۃ ۲۰۸] (اے ایمان والو! پورے کے پورے سلامتی میں داخل ہوجاؤ) ۔ اﷲ تعالٰی نے حجۃ الوداع کے موقع پر اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ۔۔۔ارشادفرماکرنبی اکرم ﷺ پراس سلامتی والے دین کی تکمیل فرمادی اوربنی نوعِ انسان کیلئے اسلام کو بطورِدین پسندفرمایا۔

اسلام زمین میں فساداور دہشت گردی کی ہرگِزاجازت نہیں دیتا۔ اس بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: ۔۔۔ وَلاَ تَعْثوَ ْا فِی الْا َرْضِ مُفْسِدِیْنَ۔ [ سورۃ البقرۃ الآیۃ ۶۰] (اورزمین میں فسادمچاتے ہوئے نہ پھِرو) ۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو آپس میں ہمیشہ امن اورمحبت کے ساتھ رہنے اور اپنے دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر رہنے کا حکم دیتاہے
جس کے بارے میں شاعرِمشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے فرمایاتھا:
۲
ہو حلقہ ءِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ ِحق وباطل ہو توفولاد ہے مومن

اسلام کسی صورت میں بھی کسی بے گُناہ انسان کے قتل کی اجازت نہیں دیتااور کسی بے گُناہ کے قتل کوپوری انسانیت کا قتل قراردیتاہے اور کسی کی جان بچانے کوپوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف سمجھتاہے۔ اس بارے میں اﷲ تعالٰی کاارشادِ گرامی ہے: ۔۔۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِنَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فیِ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا، وَمَنْ اَحْیَاھاَ فَکَاَنَّمَا اَحْیَاالنَّاسَ جَمِیْعًا۔۔۔ [سورۃ المائدۃ الآیۃ ۳۲] (جس کسی نے کسی نفس کو بے گناہ قتل کیا توگویاکہ اُس نے پوری انسانیت کوقتل کیااور جس کسی نے کسی کی جان بچائی توگویاکہ اُس نے تمام انسانوں کی جان بچائی)

اسلام امن کے زمانے میں ہی امن وسلامتی کا درس نہیں دیتابلکہ وہ توحالتِ جنگ میں بھی فسادبرپاکرنے، بچوں اورعورتوں، مذہبی لوگوں، جنگ میں حصہ نہ لینے والوں اور جانوروں کوقتل کرنے اورفصلیں اوردرخت وغیرہ تباہ کرنے سے منع کرتاہے۔ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے خلفاءِ راشدین رضی اﷲ عنہم اپنے لشکروں کو روانہ کرتے وقت اس کی وصیّت کیاکرتے تھے۔

نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں پیش آنے والی جنگوں میں چندسَو لوگ قتل یاشہیدہوئے تو اس کے بدلے میں پوری دنیا امن وسکون کاگہوارہ بن گئی۔ اسلام جس علاقے میں بھی گیا، وہاں کے باشندوں نے دلی خوشی ورضامندی سے اس امن وسلامتی کے دین کو اپنالیا حتّٰی کہ مسلمانوں کے اس علاقے سے چلے جانے کے بعد بھی اُنہوں نے اس دین ِ حنیف کے دامن رحمت کو تھامے رکھا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمداورواپسی اس کی واضح مثال ہے۔

اسلام توہمیں جنگ کے آداب بھی سکھاتا ہے جس کی نظیرکسی اور مذہب میں پیش نہیں کی جا سکتی حالانکہ جنگ کے دوران کسی قاعدے وقانون کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ اسلام میں جہاد معاشرے میں امن وامان قائم کرنے اور فتنہ وفسادختم کرنے کے لئے فرض کیاگیااوراگردشمن صلح کی طرف مائل ہوتواُن سے صلح کرنے کاحکم دیاجیساکہ اس بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: وَاِنْ جَنَحُوْاللِسِّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا۔۔۔ [سورۃ الانفال الآیۃ ۶۱] (پس اگروہ صُلح کی طرف مائل ہوجائیں توتم بھی اُس کی طرف مائل ہوجاؤ)۔

قرآن مجید میں ایسے کُفّارکے ساتھ امن وسلامتی کے ساتھ نیکی وانصاف کامعاملہ کرنے کاحکم دیاگیا جومسلمانوں سے نہ تولڑائی کریں اورنہ اُنہیں اپنے وطن سے نکالیں۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے: لَایَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔ [سورۃ الممتحنۃ الآیۃ ۸] (اﷲ تمہیں ایسے لوگوں سے نیکی اور انصاف کاسُلوک کرنے سے نہیں روکتاجوتم سے دین کے معاملے میں لڑائی نہیں کرتے اورنہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں بے شک اﷲ انصاف کرنے والوں کو پسندکرتاہے)۔نبی اکرم ﷺ نے اسی امن وسلامتی کی خاطر یہودِ مدینہ کے ساتھ معاہدہ (میثاقِ مدینہ) کیااور کفار ِمکہ کے ساتھ آپ ﷺ کی طرف سے کیا گیا معاہدہ صلح حدیبیہ بھی امن وسلامتی کی اسی تمنّاکامظہر ہے۔

اسلام میں اسی امن وسلامتی کے قیام کی خاطر جہادکو فرض قراردیاگیاکیوں کہ اس کے ذریعے دنیامیں فتنہ وفسادپیداکرنے والے عناصرکی سرکوبی کی جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک ماہرڈاکٹربہ امرمجبوری مریض کے ناکارہ عُضوکو کاٹ کرالگ کردیتاہے تاکہ مریض کی جان بچائی جاسکے۔ معاشرے میں فتنہ وفسادقتل سے بھی زیادہ شدیدہے۔ اس بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: ۔۔۔وَالْفِتْنَۃُ اَشدُّمِنَ الْقَتْلِ۔۔۔ [سورۃ البقرۃ الآیۃ ۱۹۱] (اورفتنہ توقتل سے بھی زیادہ شدیدہے)۔ اس لیے فتنہ وفساد برپاکرنے والوں کو قتل کرنے کاحکم دیاگیاتاکہ باقی معاشرے کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکے۔

اسلام کاتصوُّرامن ہرگز ایسانہیں کہ آدمی کمزوری وبزدلی کامُرَقّع بن جائے بلکہ اسلام بہادری وطاقت رکھنے کے ساتھ امن وسلامتی کادرس دیتاہے اور امن طاقت کے بغیرکبھی قائم نہیں ہوسکتا۔اس لئے اسلام انسانی معاشرے میں طاقت کاتوازن قائم رکھنے کے لئے مسلمانوں کو ،جس قدر ہوسکے ،گھوڑے ،جنگی سازوسامان اورطاقت تیاررکھنے کاحکم دیتاہے کیوں کہ کم زوری جارحیت کودعوت دیتی ہے اورجرم ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات ہی ہوتی ہے۔ ہم اپنے قومی وملکی تناظُر میں اس کامشاہدہ بہ آسانی کرسکتے ہیں کہ اگر بھارت کی ایٹمی صلاحیت کے جواب میں پاکستان ایٹمی طاقت حاصل نہ کرتاتوبھارت کب کااس مادرِوطن پرحملہ آورہوچکاہوتا۔دنیامیں جو اقوام جدیدترین جنگی سازوسامان سے آراستہ ہوتی ہیں ، دشمن اُن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لہٰذایہ سمجھنا کہ جدیدحربی صلاحیت حاصل کیے بغیرہم دنیامیں مامون ومحفوظ رَہ سکیں گے،عبَث ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پراعلان فرمادیاکہ جوکوئی اپنے گھر کادروازہ بند کرلے یا خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے یاابوسفیان رضی اﷲ عنہ کے گھر میں پناہ حاصل کرلے اُسے امان حاصل ہوگی اور آپ ﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں پرکمال درجہ شفقت اوررحمت کرتے ہوئے فرمایاکہ میں تو تمہیں وہی کہوں گاجویوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا: لَاتَثرِْیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللٰہُّ لَکُمْ۔۔۔ [سورۃ یوسف الآیۃ ۹۲] (آج کے دن تم پرکوئی پکڑنہیں، اﷲ تعالٰی تمھیں بخش دے)

آپ ﷺ نے بچوں پر رحم کرنے کااور بڑوں کاادب کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَناَوَلَمْ یُوءَ قِّرْکَبِیْرَناَ فَلَیْسَ مِنَّا۔ (جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کیااوربڑے کاادب نہ کیاوہ ہم میں سے نہیں)۔ ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا: مَنْ لَّایَرْحَمْ لَّایُرْحَمْ۔ (جورحم نہیں کرتااس پر رحم نہیں کیاجاتا)
اسی بارے میں شاعر نے کہاتھا:
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خُدامہرباں ہوگاعرشِ بریں پر
۳
قرآن مجیداورحدیث شریف میں مومنوں کوایک دوسرے سے ملتے وقت السَّلَامُ عَلَیْکُم (تُم پرسلامتی ہو)کہنے اورمعاشرے میں سلام کوعام کرنے کا حکم دیاگیا۔نماز کے آخر میں بھی سلام کاطریقہ بتلایاگیا۔اگرکسی جاہل سے پالاپڑ جائے تواس صورت میں بھی سلام کَہ کرجان چُھڑانے کاحُکم دیاگیا۔قرآن مجید میں ارشاد ہوا: وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا۔ [سورۃ الفرقان الآیۃ۶۳] (اورجب جاہل اُن سے مُخاطب ہوں تو وہ سلام کہتے ہیں)۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَفْشُوْاالسَّلَامَ وَاَطْعِمُواالطََّعَامَ۔ ( سلام پھیلاؤ اور ایک دوسرے کوکھاناکھلایاکرو)حتّٰی کہ قبرستان سے گزرتے ہوئے اہلِ قبور کوبھی سلام کہنے کادرس دیاگیا۔

حدیث شریف میں مسلمان کی تعریف کی گئی : اَلْمُسْلمُ مَنْ سَلِمَ َ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہِ وَیَدِہِ۔ ( مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں)۔ ایک دوسرے مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا: لَا یُؤمِنُ بِی مَنْ لَّا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ۔ ( وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو)

آپ ﷺ نے ایک جنگ میں قیدہوکرآنے والی حاتم طائی کی بیٹی پرکمال درجہ رحم کرتے ہوئے اُس کے سر پر اپنی چادر اوڑھائی۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ تو کافر عورت کاسراپنی چادر سے ڈھانپیتے ہیں جبکہ ہم خود اپنی عورتوں کے سروں کوننگاکرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ایک عید کے موقع پر آپ ﷺ اپنے گھر سے عیدکی نمازپڑھانے نکلے تو راستے میں ایک یتیم بچے کوروتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ اسے اپنے گھر لے آئے اور اسے اچھے کپڑے پہنائے اورکھانا کھلایااور فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش ہو گے کہ محمد تمھاراباپ اور عائشہ تمھاری ماں ہو؟

آپ ﷺ نے غُلاموں کے بارے میں اﷲ سے ڈرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: جیساخود کھاؤ اُنھیں بھی کھلاؤ، جیساخود پہنواُنھیں بھی پہناؤ۔

ایک دفعہ ایک اونٹ دوڑتاہوا آپ ﷺ کے قریب آیااور آپ کے کان مبارک کے قریب اپنامنہ رکھ دیاتو آپ ﷺ نے فرمایاکہ وہ اونٹ شکایت کررہاہے کہ اُس کا مالک اُس سے کام زیادہ لیتا ہے اورچارہ کم ڈالتاہے۔ آپ ﷺ نے اُس کے مالک کوحکم دیا کہ اس پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو اور اسے خوب چارہ کھلاؤ۔

ایک دفعہ ایک سفر کے دوران ایک چڑیاآپ ﷺ کے گرد باربارچکرلگارہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا: کس نے اس کے بچے اُٹھا کر اسے تکلیف دی ہے؟

ذراغورتوکیجئے بھلا ایسے رحمت والے نبی کادین دہشت گردی کی اجازت دے سکتاہے؟ اور کیا اُس کے سچے پیروکار فتنہ وفساداوردہشت گردی کو واقعات میں ملوِّث ہوسکتے ہیں؟

دہشت گردی کامترادف لفظ ظلم ہے۔ اورکسی پر کسی بھی قسم کے ظلم کی اجازت اسلام میں ہرگزنہیں ہے۔ جب اسلام کسی فرد یا جماعت یاچرندپرنداورجانوروں پر ظلم کی اجازت نہیں دیتاتوکیونکر دہشت گردی اور ظلم کو اسلامی تعلیم کے مراکزمدارس ومساجد سے جوڑاجاسکتاہے؟ میرے خیال میں چور مچائے شور کے مصداق الزام اسلام ومسلمانوں پرلگادیاجاتاہے حالانکہ پوری دنیا میں ظلم وبربریت ودہشت گردی کاشکارمسلمان ہی ہیں۔ بقول شجاعت رجوی :
ہم کو دہشت پسندی سے رغبت نہیں ، ہم پہ الزام جھوٹے لگائے گئے
دین ِ حق، جنگ جوئی کے حق میں نہیں،یہ تو الجھے مسائل کا سلجھاؤ ہے

آخر میں عوام النّاس، میڈیاکے نمائندوں اوراربابِ اختیارکی خدمت میں عرض ہے کہ خُداکے لئے دہشت گردی وظلم وبربریّت کے واقعات کواسلام واہلِ اسلام کے ساتھ جوڑنے سے بازرہیں کیونکہ اسلام ایسے تمام اقدامات سے بے زار ہے اور جو کوئی بھی ایسی مذموم سرگرمیوں ملوِّث ہو، اسلا م کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔لھٰذا امن وسلامتی والے دین ِاسلام کی روح کو اپناتے ہوئے دشمن کی طرف سے اُسے بدنام کرنے کی سازش کوناکام بنائیں ۔ہرسطح پرنصابِ تعلیم میں اسلام کی امن وسلامتی کی تعلیم کوشامل کریں تاکہ معاشرے سے دہشت گردی کی بیخ کنی جاسکے اور اسلام کے قلعوں مدارس ومساجد کی حفاظت کریں تاکہ ہماراملک امن وسلامتی کاگہوارہ بن کرپوری دنیاکے لئے ایک قابلِ تقلیدمثال قرارپائے۔ اﷲ کرے کہ ہماری ارض پاک ہمیشہ شادوآبادرہے۔آخر میں معروف شاعراحمدندیم قاسمی کے دعائیہ اشعار کے ساتھ اپنی گزارشات ختم کرنے کی اجازت چاہتاہوں۔
خداکرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصل ِ گُل جسے اندیشہ ءِ زوال نہ ہو
یہاں جوپھول کِھلے کِھلارہے صدیوں
یہاں خِزاں کوگزرنے کی بھی مجال نہ ہو
(آمین)
Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 58087 views I am proud to be a Muslim... View More