حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اصل نام عبداﷲ تھا اور کنیت ابوبکر جبکہ لقب صدیق اور عتیق ہے آپ کا سلسلہ نسب مرہ ین کعب پر حضور محمدﷺسے جاکر ملتا ہے آپ ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاابوبکر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو آگ سے آزاد فرمادیاچنانچہ آپ اسی دن سے عتیق کے نام سے بھی مشہور ہوگئے۔ایک اور روایت جو کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو چاہتا ہو کہ آگ سے آزاد شدہ شخص کو دیکھے تو وہ ابوبکر کو دیکھ لے حضرت ابوبکر کے لقب صدیق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چونکہ آپ ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے اور حضور اکرم ﷺ کی ہر خبر پر تصدیق کرنے میں سبقت فرماتے تھے اس لئے آپ کو صدیق کے لقب سے پکارا جاتا رہا حضرت ابوبکر صدیق نے واقعہ معراج کی سب سے پہلے تصدیق کی۔

حضرت ابوبکر صدیق کی ولادت باسعادت حضور اکرم ﷺکی ولادت باسعادت سے 2برس اور 2ماہ قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی وہ واقعہ فیل کے 2سال4ماہ بعد ہوئی۔حضرت ابوبکر صدیق وہ واحد شخصیت ہیں جو جواں مردوں میں سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اُس نے کچھ نہ کچھ تردواور ہچکچاہٹ کا اظہار کیا سوائے ابوبکر کے ۔جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تعمیل کے فوراً اسلام قبول کرلیا۔

حضرت ابوبکر صدیق زمانہ جہالت سے ہی اعلیٰ اخلاق اور کردار کے مالک تھے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ والدِ ماجد نے جہالت اور اسلام دونوں زمانوں میں شراب کا قطرہ تک نہ چکھا تھا جبکہ مکہ والے شراب کے نہ صرف عادی بلکہ شوقین تھے اور آپ نرم دل اور شریفانہ طبیعت کے مالک تھے اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو قلب سلیم کی دولت عطا کی ہوئی تھی آپ تجارت کیا کرتے تھے خوش مزاج تھے حسنِ معاملات کے سبب سے قوم کے تمام افراد آپ کے پاس آتے اور آپ سے اچھے تعلقات رکھتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے والد کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ کی رنگت سفید بدن دبلا پتلا تھا دونوں رخسار اندر کو دبے ہوئے تھے چہرے پر گوشت زیادہ نہ تھا پیشانی ہمیشہ عرق آلود رہتی تھی اور پیشانی کشادہ بلند تھی ہمیشہ نگاہیں نیچی رکھتے تھے۔

مدینہ منورہ کے سفر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت عامربن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی دو اونٹوں کیساتھ تشریف لے آئے۔نبی کریم ﷺ نے ایک اونٹ پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ بیٹھایا جبکہ دوسرے اونٹ پر حضرت عامربن فہیرہ اور عبداﷲ بن ارقط بیٹھے اور مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔سفر کے دوران حضور کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک صحرہ میں سے گزرے سورج پوری اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا کوئی سایہ نظر نہیں آرہا تھا اچانک ایک بہت بڑا پتھر نظر آیا جو سایہ دار تھا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور اکر م ﷺ کے آرام کرنے کیلئے اس پتھر کے سایہ میں جگہ صاف کرکے درست کی اور نبی کریم ﷺ وہاں پر آرام فرماہوگئے۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر صدیق کو ایک چرواہا نظرآیا جو بکریا ں چرارہا تھاحضرت ابوبکر صدیق نے پہچان لیا کہ ان بکریوں کا مالک کون ہے چنانچہ اس چرواہے سے کچھ دودھ طلب کیاچرواہے نے ایک پیالے میں دودھ پیش کیا حضرت ابوبکر صدیق نے اس میں کچھ پانی ملاکر اسے نوش کیا اور اس کے بعد حضور اکرمﷺ بیدار ہوئے تو ایک پیالہ دودھ حضور اکرم ﷺ کو نوش کروایا اس کے بعد دوبارہ سفرشروع ہوگیا۔ غزوہ احد میں حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی بہادری اور جرت کے جوہر دکھائے روایت میں آتا ہے کہ اس غزوہ کے دوران جب اسلامی لشکر منتشر ہوگیا اور مسلمانوں کے قدم ڈگمگائے اور وہ ثابت قدم نہ رہے تھے تو اس صورتحال میں حضور اکرم ﷺ اپنی جگہ پر ثابت قدم تھے حضور اکرم ﷺ کے گرد جانثار صحابہ کرام میں سے چودہ اصحابہ رہ گئے تھے جن میں سات انصاری اور سات مہاجرین میں سے تھے ۔مہاجرین میں سے حضرت ابوبکر صدیق،حضرت علی،حضرت عبداﷲ بن عوف،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت زبیر بن العوام،حضرت طلحہ بن عبداﷲ اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔

حضرت ابوبکر صدیق نے غزوہ احد میں ثابت قدمی دکھائی اور کسی بھی مرحلے پر حضور اکرم ﷺ سے جدا نہ ہوئے اس غزوہ میں حضور اکرم ﷺ شدید مجروح ہوگئے اور جانثاروں نے حضور اکرم ﷺ کو پہاڑ پر محفوظ جگہ پہنچایا تو اس وقت بھی حضرت ابوبکر صدیق ساتھ تھے۔

فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق بھی رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھے مکہ مکرمہ میں پہنچ کر اپنے والد محترم ابو قحافہ عثمان بن عامر کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے حضور اکرمﷺ نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ حضرت ابو قحافہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سینے پر دستِ اقدس پھیر کر ایمان کی روشنی سے مشرف فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا اپنے ضعیف والد کو کیوں تکلیف دی ،میں خود ان کے پاس آجاتا حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کا زحمت فرمانے کے بجائے ان کا آنا ہی ٹھیک ہے اس پر سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا ہمیں ان کے بیٹے کے احسانات یاد ہیں۔حضوراکرمﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق کو ۹ہجری میں امیر حج بناکر بھیجا آپ کے ہمراہ ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے تو حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو نحر کے دن چند لوگوں کے ساتھ اعلان کرنے کیلئے بھیجا کہ اس سال کے بعد کوئی ننگا شخص اور مشرک طواف نہ کرے۔جب حضوراکرم ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے اور حج کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حج میں مشرک بھی شریک ہوتے ہیں اور مشرکانہ تلبیہ کہتے ہیں اور ننگے طواف کرتے ہیں اس لئے حضور اکرم ﷺ حج سے رک گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو برات کا اعلان کرنے بھیجا۔پھر جب سورۃ برات کی چالیس آیاتِ مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت علی کو یہ آیتِ مبارکہ دے کر حضور اکرمﷺ نے حج کے موقع پر سنانے کیلئے بھیجا۔

جیسا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عہد نبوی میں قرآن حکیم کی آیات اور سورتوں میں باہم کوئی ترتیب نہ تھی اور نہ ہی سورتوں کے نام واضح ہوئے تھے اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جو اس عظیم کام کو پایہ تکمیل پہنچایا گیا وہ یہی تھا کہ ان آیات و سورتوں کو باہم مرتب کردیا گیا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں یہ خیال درست نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن حکیم کی ہر آیت مبارکہ الہامی ہے،اسی طرح آیات و سورتوں کی باہمی ترتیب اور سورتوں کے نام بھی الہامی ہیں اور حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں ہی یہ سب کام ہوچکا تھا مگر چونکہ قرآن حکیم کی آیات و سورتیں مختلف اوقات و مواقع پر نازل ہوئی تھی اور بہت سے لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے سن کر ان کو حفظ کرلیا ہواتھا۔جبکہ بہت سے لوگوں نے ہڈیوں، پتوں،چمڑوں،پتھروں،کھجور کے درخت کے چھالوں پر لکھی ہوئی تھی اور ان کو حضوراکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق ترتیب دیا ہوا تھا۔نبی کریم ﷺ نے آیات کی طرح سورتوں کی ترتیب اور منزل کی تقسیم بھی خود ہی مقرر فرمادی تھی۔

خلیفہ رسول ﷺ ،امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق کے مرض الموت کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ شدید سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی سے غسل فرمایا جس کے باعث بخار چڑھ گیا اور آپ پندرہ دن بخار میں مبتلا رہنے کے بعد وصال فرماگئے۔حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ والدِ ماجد کی علالت کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ آپ نے ۷جمادی الآخر ۱۳؁ ھ بروز پیر غسل فرمایا،اس دن شدید سردی تھی جس کے باعث آپ کو بخار چڑھ گیا اور پندرہ دن تک بیمار رہنے اور بخار کی وجہ سے اس عرصے میں آپ نماز کیلئے بھی باہر تشریف نہ لاسکے آخرکار اسی بخار کے باعث وصال فرماگئے۔
Rasheed Ahmed
About the Author: Rasheed Ahmed Read More Articles by Rasheed Ahmed: 36 Articles with 69729 views Software Engineer Qualifi. Master in Computer Science (MCS). .. View More