آج ہر انسان اپنے علاوہ کسی اور
کے بارے میں سوچنے سے بالکل قاصر ہے۔یہاں تک کہ اﷲ رب العزت کیلئے انجام
دئے جانے والے امور میں بھی دکھاوے کا سلسلہ دراز کرنے میں انسانوں نے
گذشتہ نسلوں کو بہت پیچھے کردیاہے۔خود نمائی کے ان بدترین حالات سے بہرہ
مندی کو سعادت مندی سمجھ رہے انسانوں کو فہم سلیم کیسے حاصل ہوگی؟۔اپنے
بہن،بھائیوں کی حق تلفی۔اور شریعت کی آڑ لے کر اپنے انداز سے فتوؤں کاحاصل
کرکے اُن کے ساتھ نا انصافی کرنایہ سب مسلمانوں کے ہاں عام ہو چکا ہے۔ان
باتوں کو بجائے حل کرنے کے دانشوران غافل ہوتے جارہے ہیں۔علمائے کرام کو
بھی دھوکے میں رکھ کر اس انداز میں سوالات لکھے جاتے ہیں کہ اُن کے جوابات
پہلے سے ہی پتا ہوتے ہیں کہ کیا آئیں گے،اسطرح سے اپنوں کو دھوکہ دینے کی
روایت چل پڑی ہے اور اسے معیوب بھی نہیں سمجھا جارہا ہے شاید یہ مسلمان
سوچتے ہیں کہ اپنے متعلقین کو دھوکہ دیکر بعد میں متعدد بار حج و عمرہ
کرلیا جائے تو گناہ معاف ہوجائیں گے۔اپنے ماں ،باپ کو اخیر عمر میں اذیت
دینا،بہن بھائی بیٹی کا حق مارنا اور بعد میں دسیوں بار حج و عمرہ کرنے سے
کیا اﷲ ہم سے راضی ہو جائے گا؟
سینکڑوں کی تعداد میں ایسے مسلمان بھی نظر آئیں گے جو اپنے متعلقین کا پورا
پورا حق ادا کرتے ہیں اور حقوق اﷲ کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔ایسے افرادکے
اعمال اﷲ رب العزت کی نظر میں قابل قبول ہیں۔لیکن ان تمام سے بھی ایک گذارش
ہے کہ ’’حج و عمرہ‘‘ زندگی میں کتنی بار کیا جائے یہ سمجھ لیا جائے۔ہمارے
نبی جناب حضرت محمّد ﷺ نے اپنی زندگی میں کتنی بار حج و عمرہ کیا؟ اور
ہمارے لئے ہمارے نبی پاکﷺ سے بڑھ کر مثالی کون ہو سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب
ہر اُس شخص کیلئے جاننا نہایت اہم ہے جو متعدد بار حج و عمرہ کرنے کو ہی
دین سمجھ بیٹھے۔بے شک اﷲ نے ہمارے مالوں میں اپنا حصہ رکھا ہے۔جو صرف اس کی
رضا کیلئے خرچ کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔اور ہم اﷲ کے حصے کا مال اُس کے
ایسے بندوں پر خرچ کریں جو حاجتمند ہوں ۔حاجتمند بھی کئی طرح کے
ہیں۔غذا،لباس،مکان اور سب سے اہم دینی علم کی حاجتمندی ہے۔بہت سارے ایسے
مسلمان اس دنیا میں آج بھی بے دینی کی زندگیاں گذار رہے ہیں جنہیں صرف اور
صرف ہمارے مالی تعاون کی ضرورت ہے۔لیکن یہ ہم سے کہہ نہیں سکتے ۔یہ کہیں جا
نہیں سکتے۔ہمیں ان افراد کے پاس جانا ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ کون ہیں؟
کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ یہ دیکھنا اور اُنہیں ڈھونڈ کر انکی چھپ کر اعانت کرنے
سے شاید اﷲ ہم سے راضی ہوجائے۔بہت سارے ایسے دیہات اور شہر ہیں جس کا ہمیں
علم نہیں۔وہاں رہنے والے افراد کے حالات سے ہمیں آگاہی نہیں،گرچہ کہ وہ
ہمارے بھائی ہیں۔اور انکی بے دینی پر اﷲ ہم سے پکڑ کرلے۔کل بروز محشر اﷲ رب
العزت کا ہم تمام سے اگر یہ سوال ہوجائے کہ متعدد بار حج و عمرہ کے بجائے
وہی مال میرے ان بندوں پر خرچ کیوں نہ کیا جو حاجتمند تھے تو ہمارا اس وقت
کیا جواب ہوگا؟ اﷲ ہمیں ریا کاری سے بچائے اور اخلاص کے ساتھ اپنے مالوں کو
حاجت مندان میں صرف کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔(آمین) |