کرکٹ ۔ وقت کا ضیاع

مجھے معلوم ہے کہ اس کالم کا عنوان پڑھ کر ہی وطنِ عزیز کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں میرے بارے میں کیا کیا اوٹ پٹانگ الفاظ استعمال کریں گے،کوئی کہے گا، وقیانوسی ہے، کو ئی کہے گا،پاگل ہے، کوئی کہے گا،اس نے دنیا دیکھی ہی نہیں ،علیٰ ہذالقیاس، مگر کیا کروں لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ’’ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق ‘‘میں بھی کسی کے ناراض ہونے کے خوف سے اپنے قلم کے زبان کو روک نہیں سکتا، یہ میری مجبوری ہے۔جب میں کرکٹ میچ کے دوران نوجوان نسل کو ٹیلی ویژن کے سامنے دنیا و ما فیھا سے بے خبر بڑے انہماک سے سکرین پر نظریں جمائے دیکھتا ہوں اور ساتھ ہی’’ اوئے ہوئے، اوئے شاباشے‘‘ کی آ وازیں بھی سنتا ہوں تو نہ صرف یہ کہ میرا دل خون کے آ نسو روتا ہے بلکہ حکیم الامت علامہ اقبال کی یاد بری طرح میرے دل و دماغ کو کریدتی ہے، انہوں نے کیا خوب کہا تھا،
’ تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ہیں ایرانی-----لہو مجھ کو رلاتی جوانوں کی تن آسانی

مجھے کھیل کود پر قطعا اعتراض نہیں ، کھیل کود تو اﷲ کے نبی ؐ بھی پسند فرمایا کرتے تھے، کھیل کود اور ورزش کا توانسانی زندگی میں ایک اہم کردار ہے ،یہ ہزاروں بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے باعثِ نجات ہے ،․․․ اعتراض ہے تو مجھے کرکٹ پر، جو نہ صرف کھلاڑیوں کے وقت کا قاتل ہے بلکہ آدھی پاکستانی قوم کرکٹ میچ کے بخار میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کے بہترین لمحات کو یوں ضائع کرتی ہے جیسے یہ وقت نہیں ،کوئی فضول چیز ہے حا لانکہ وقت زندگی کی ایک نہ نظر آنے والی حقیقت ہے یہ زندگی کی ہر چیزپرمحیط ہے حقیقت تو یہ ہے کہ وقت ہی زندگی ہے ۔اب جو چیز ہماری اس قیمتی متاع کو ضائع اور بربا د کرنے کا باعث ہو، ہم اسے کیسے ایک اچھا عمل یا ایک اچھی سر گر می کہہ سکتے ہیں وقت ایک بے مثال وسیلہ اور ذریعہ ہے یہ فوری ضا ئع ہو نے والی ایسی چیز ہے جسے نہ چھواء سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی طریقہ سے ذخیرہ کیا جاسکتا ہے یہ برف کی طرح ہے کہ اگر آپ اسے استعمال نہ کریں تو یہ پگھل جائے گی وقت کا کو ئی نعم ا لبدل بھی نہیں ہے۔امام رازی ؒ کا قول ہے کہ میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آوازیں لگا رہا تھا ’’ رحم کرو اس شخص پر ، جس کا سر مایہ گھلا جا رہا ہے، رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے ‘‘اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا، ’یہ ہے ’’ زمانے کی قسم، انسان خسارے میں ہے (ترجمہ سورہ العصر) ‘‘ عمر کی جو مدّت انسانوں کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی مانند تیزی سے گزر رہی ہے اگر اس کو ضائع کیا جائے یا فضول کاموں پر صرف کیا جائے تو انسان خسارے ہی خسارے میں ہے۔

چونکہ کرکٹ کا کھیل انسانی زندگی کے قیمتی وقت کو ضائع کرنے کا باعث ہے اس لئے میں اسے قوم کے حق میں نہایت نقصان دہ اور لا حاصل سرگرمی سمجھتا ہوں۔ کھیل اور بھی ہیں جو ورزش کا ذریعہ بھی ہے، تفریح کا ذریعہ بھی ، ․۔مثلا فٹ بال ہے، باسکٹ بال ہے، ہاکی ہے وغیرہ وغیرہ، ۔۔۔۔ ورلڈکپ ۲۰۱۵ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے جس طرح پہلے بھارت سے شکست کھائی اور پھر دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہو ئے،جس طر ح نہ صرف ٹی وی سیٹ ٹوٹے بلکہ قت ضائع کرنے والوں نو جوانوں کے دل ٹوٹے ، وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ کرکٹ کو اب خیر باد کہا جائے اور اس کی جگہ ہاکی، فٹ بال اور باسکٹ بال جیسے کم وقتی کھیلوں کو اہمیّت دی جائے۔اگر چین،جاپان، فرانس، جرمنی، روس اور اس طرح کے کئی دیگر ممالک بغیر کرکٹ ٹیم کے رہ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟ خصوصاً ایسے حالات میں جب موجودہ کرکٹ ٹیم اب پاکستانی قوم کیلئے نیک نامی نہیں، بدنامی کا باعث بن رہی ہے جو دلوں کو جوڑنے کا نہیں، توڑنے کا باعث بن رہی ہے،ایسے کھیل کا کیا فائدہ؟ اور میرے نزدیک تو اس کا سب سے بڑا نقصان کروڑوں لوگوں کے کروڑوں گھنٹے ضائع کرنے کا نقصان ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہی قومیں دنیا میں ترقی اور کامرانی حاصل کرتی ہیں جو وقت کی قدر کرنا جانتی ہیں۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ سوتے کو جگانا آسان ہے،جاگتے کو جگانا مشکل ہے، ہمیں پاکستانی عوام کا حال بھی معلوم ہے ، یہ سب جاگ رہے ہیں مگر بستر سے اٹھ نہیں رہے ہیں یہ خوابِ غفلت میں سہانے خواب دیکھتے ہیں اور اس با توں کو حق اور درست سمجھتے ہیں جو خود ان کو درست لگے ،لیکن بطورِ ایک قلم کار ’’ میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ‘‘۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315761 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More