واقعہ حرہ اور امام زین العابدین
علیہ السلام
مستند تواریخ میں ہے کہ سانحہ کربلا نے اسلام میں ایک تہلکہ ڈال دیا خصوصاً
ایران میں ایک قوی جوش پیدا کردیا، جس نے بعد میں بنی عباس کو بنی امیہ کے
غارت کرنے میں بڑی مدد دی چونکہ یزید تارک الصلواة اور شارب الخمر تھا اور
بیٹی بہن سے نکاح کرتا اور کتوں سے کھیلتا تھا، اس کی ملحدانہ حرکتوں اور
امام حسین کے شہید کرنے سے مدینہ میں اس قدر جوش پھیلا کر62ھ میں اہل مدینہ
نے یزید کی معطلی کا اعلان کردیا اور عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا سردار بنا
کر یزید کے گورنر عثمان بن محمدبن ابی سفیان کو مدینہ سے نکال دیا۔ سیوطی
تاریخ الخلفاء میں لکھتا ہے کہ غسیل الملائکہ (حنظلہ) کہتے ہیں کہ ہم نے اس
وقت یزید کی خلافت سے انکار نہیں کیا جب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہوگیا کہ
آسمان سے پتھر برس پڑیں گے غضب ہے کہ لوگ ماں بہنوں، اور بیٹیوں سے نکاح
کریں۔ اعلانیہ شرابیں پئیں اور نماز چھوڑ بیٹھیں۔
یزید نے مسلم بن عقبہ کو جو خونریزی کی کثرت کے سبب ”مسرف“ کے نام سے مشہور
ہے، فوج کثیر دے کر اہل مدینہ کی سرکوبی کو روانہ کیا۔اہل مدینہ نے باب
الطیبہ کے قریب مقام”حرہ“ پر شامیوں کا مقابلہ کیا، گھمسان کارن پڑا،
مسلمانوں کی تعداد شامیوں سے بہت کم تھی باوجودیکہ انہوں نے داد مردانگی دی
، مگر آخر شکست کھائی، مدینہ کے چیدہ چیدہ بہادر رسول اللہ کے بڑے بڑے
صحابی انصار و مہاجر اس ہنگامہ آفت میں شہید ہوئے، شامی شہر میں گھس گئے۔
مزارات کو مسمار کردیا، ہزاروں عورتوں اور باکرہ لڑکیوں سے بد کاری کی ۔
شہر کو لوٹ لیا، تین دن قتل عام کرایا، دس ہزار سے زائد باشندگان مدینہ جن
میں سات سو مہاجر و انصار اور اتنے ہی حاملان و حافظان قرآن علماء و صلحاء
ومحدث تھے اس واقعہ میں مقتول ہوئے۔ ہزاروں لڑکے لڑکیاں غلام بنائی گئیں
اور باقی لوگوں سے بشرط قبول غلامی یزید کی بیعت لی گئی۔
مسجد نبوی اور حضرت کے حرم محترم میں گھوڑے بندھوائے گئے یہاں تک کہ لید کے
انبار لگ گئے۔ یہ واقعہ حرہ کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے اور یہ 25
ذی الحجہ63 ھ کو ہوا۔ اس واقعہ پر مولوی امیرعلی لکھتے ہیں کہ کفر و بت
پرستی نے پھر غلبہ پایا، ایک فرنگی مؤرخ لکھتا ہے کہ کفر کا دوبارہ جنم
لینا اسلام کے لئے سخت خوفناک اور تباہی بخش ثابت ہوا بقیہ تمام مدینہ کو
یزید کا غلام بنا دیا گیا، جس نے انکار کیا اس کا سر اتار لیا گیا، اس
رسوائی سے صرف دو آدمی بچے ”علی بن الحسین“ اور”علی بن عبداللہ بن عباس“ ان
سے یزید کی بیعت بھی نہیں لی گئی۔
مدارس شفا خانے اور دیگر رفاہ عام کی عمارتیں جو خلفاء کے زمانے میں بنائی
گئیں تھی یا تو بند کردی گئیں یا مسمار اور عرب پھر ایک ویرانہ بن گیا، اس
کے چند مدت بعد علی بن الحسین امام زین العابدینّ کے پوتے”امام جعفرصادق
علیہ السلام“ نے اپنے جدامجد”علی مرتضیٰ علیہ السلام“ کا مکتب خانہ پھر
مدینہ میں جاری کیا، مگر یہ صحرا میں صرف ایک ہی سچا نخلستان تھا اس کے
چاروں طرف ظلمت وضلالت چھائی ہوئی تھی، مدینہ پھر کبھی نہ سنبھل سکا، بنی
امیہ کے عہد میں مدینہ ایسی اجڑی بستی ہوگیا کہ جب منصور عباس زیارت کو
مدینہ میں آیا تو اسے ایک رہنما کی ضرورت پڑی جو اس کو وہ مکانات بتائے
جہاں ابتدائی زمانہ کے بزرگان اسلام رہا کرتے تھے (تاریخ اسلام جلد ۱ ص36 ،
تاریخ ابوالفداءجلد ۱ ص191 ،تاریخ فخری ص68 ،تاریخ کامل جلد4 ص94 ،صواعق
محرقہ ص 231)۔
واقعہ حرہ اورامام سجاد ّ کی قیام گاہ
تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ایک چھوٹی سی جگہ ”منبع“ نامی تھی جہاں
کھیتی باڑی کا کام ہوتا تھا واقعہ حرہ کے موقع پر آپ شہر مدینہ سے نکل کر
اپنے گاؤں چلے گئے تھے ۔یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت علی خلیفہ عثمان کے عہد
میں قیام پذیر تھے۔ واقعہ حرہ کے موقع پر جب مروان نے اپنی اور اہل وعیال
کی تباہی وبربادی کا یقین کرلیا تو عبداللہ بن عمر کے پاس جا کر کہنے لگا
کہ ہماری محافظت کرو، حکومت کی نظر میری طرف سے بھی پھری ہوئی ہے، میں جان
اور عورتوں کی بے حرمتی سے ڈرتا ہوں، انہوں نے صاف انکار کردیا، اس وقت وہ
امام زین العابدین کے پاس آیا اور اس نے اپنی اور اپنے بچوں کی تباہی و
بربادی کا حوالہ دے کر حفاظت کی درخواست کی۔ امام پاک نے یہ خیال کیے بغیر
کہ یہ ہمارا خاندانی دشمن ہے اور اس نے واقعہ کربلا کے سلسلہ میں پوری
دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے فرمایا بہتر ہے کہ اپنے بچوں کو میرے پاس بمقام
منبع بھیج دو، جہاں میرے بچے رہیں گے، تمہارے بھی رہیں گے چنانچہ وہ اپنے
بال بچوں کو جن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھیں آپ کے پاس پہنچا گیا
اور آپ نے سب کی مکمل حفاظت فرمائی (تاریخ کامل جلد 4ص 54)۔
مدینہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد مسلم بن عقبہ ابتدائے64 ھ میں مدینہ سے
مکہ کو روانہ ہوگیا۔ اتفاقاً راہ میں بیمار ہو کر وہ گمراہ راہی جہنم
ہوگیا، مرتے وقت اس نے حصین بن نمیر کو اپنا جانشین مقرر کردیا اس نے وہاں
پہنچ کر خانہ کعبہ پر سنگ باری کی اور اس میں آگ لگا دی، اس کے بعد مکمل
محاصرہ کر کے عبداللہ ابن زبیر کو قتل کرنا چاہا۔ اس محاصرہ کو چالیس دن
گزرے تھے کہ یزید پلید واصل جہنم ہوگیا، اس کے مرنے کی خبر سے ابن زبیر نے
غلبہ حاصل کرلیا اور یہ وہاں سے بھاگ کر مدینہ جا پہنچا۔ مدینہ میں دوران
قیام اس ملعون نے ایک دن بوقت شب چند سواروں کو لے کر فوج کے غذائی سامان
کی فراہمی کے لئے ایک گاؤں کی راہ پکڑی، راستہ میں اس کی ملاقات حضرت امام
زین العابدینّ سے ہوگئی، آپ کے ہمراہ کچھ اونٹ تھے جن پر غذائی سامان لدا
ہوا تھا۔ اس نے آپ سے وہ غلہ خریدنا چاہا، آپ نے فرمایا کہ اگر تجھے ضرورت
ہے تو یونہی لے لے ہم اسے فروخت نہیں کرسکتے کیونکہ میں اسے فقراء مدینہ کے
لئے لایا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے، آپ نے فرمایا مجھے ”علی بن
الحسینّ“ کہتے ہیں پھر آپ نے اس سے نام دریافت کیا تو اس نے کہا میں حصین
بن نمیر ہوں۔ اللہ رے، آپ کی کرم نوازی، آپ جاننے کہ باوجود کہ یہ میرے باپ
کے قاتلوں میں سے ہے اسے سارا غلہ مفت دیدیا اور فقراء کے لئے دوسرا
بندوبست فرمایا۔ اس نے جب آپ کی یہ کرم گستری دیکھی اور اچھی طرح پہچان بھی
لیا تو کہنے لگا کہ یزید کا مرچکا ہے۔ آپ سے زیادہ مستحق خلافت کوئی نہیں،
آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں، میں آپ کو تخت خلافت پر بٹھاؤں گا۔ آپ نے
فرمایا کہ میں خداوند عالم سے عہد کرچکا ہوں کہ ظاہری خلافت قبول نہ کروں
گا، یہ فرما کر آپ اپنے دولت سرا کو تشریف لے گئے(تاریخ طبری فارسی ص446)۔
71 ھ میں عبدالملک بن مروان نے عراق پر لشکر کشی کر کے مصعب بن زبیرکو قتل
کیا پھر 72 ھ میں حجاج بن یوسف کو ایک عظیم لشکر کے ساتھ عبداللہ بن زبیر
کو قتل کرنے کے لئے مکہ معظمہ روانہ کیا۔ وہاں پہنچ کر حجاج نے ابن زبیر سے
جنگ کی ابن زبیر نے زبردست مقابلہ کیا اور بہت سی لڑائیاں ہوئیں ،آخر میں
ابن زبیر محصور ہوگئے اور حجاج نے ابن زبیر کو کعبہ سے نکالنے کے لئے کعبہ
پر سنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدوا ڈالا، ابن زبیر جمادی
الآخر 73 ھ میں قتل ہوا اور حجاج جو خانہ کعبہ کی بنیاد تک خراب کرچکا تھا
اس کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوا۔ علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں
کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پر لوگ اس کی مٹی تک اٹھا کر لے گئے اور کعبہ
کو اس طرح لوٹ لیا کہ اس کی کوئی پرانی چیز باقی نہ رہی، پھر حجاج کو خیال
پیدا ہوا کہ اس کی تعمیر کرانی چاہئے چنانچہ اس نے تعمیر کا پروگرام مرتب
کرلیا اور کام شروع کرادیا، کام کی ابھی بالکل اتبدائی منزل تھی کہ ایک
اژدھا برآمد ہو کر ایسی جگہ بیٹھ گیا جس کے ہٹے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا
تھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کو دی، حجاج گھبرا اٹھا اور لوگوں کو
جمع کر کے ان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے جب لوگ اس کا حل نکالنے سے
قاصر رہے تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا کہ آج کل فرزند رسول حضرت امام زین
العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہتر ہوگا کہ ان سے دریافت کرایا
جائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کو زحمت
تشریف آوری دی، آپ نے فرمایا کہ اے حجاج تو نے خانہ کعبہ کو اپنی میراث
سمجھ لیا ہے، تو نے تو بنائے ابراہیم علیہ السلام کو اکھڑوا کر راستہ میں
ڈلوا دیا ہے ”سن“ تجھے خدا اس وقت تک کعبہ کی تعمیر میں کامیاب نہ ہونے دے
گا جب تک تو کعبہ کا لٹا ہوا سامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کر اس نے
اعلان کیا کہ کعبہ سے متعلق جو شے بھی کسی کے پاس ہو وہ جلد سے جلد واپس
کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھر مٹی وغیرہ جمع کردی جب آپ نے اس کی بنیاد استوار
کی اور حجاج سے فرمایا کہ اس کے اوپر تعمیر کراؤ ”فلذالک صار البیت مرتفعا“
پھر اسی بنیاد پر خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی۔ کتاب الخرائج والجرائح میں
علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیر کعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجر
اسود نصب کرنا تھا تو یہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم، زاہد، قاضی اسے
نصب کرتا تھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا
اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا تھا ،بالآخر امام زین العابدین علیہ السلام
بلائے گئے اور آپ نے بسم اللہ کہہ کر اسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے
اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔(دمعہ ساکبہ جلد2 ص734)۔
علماء و مؤرخین کا بیان ہے کہ حجاج بن یوسف نے یزید بن معاویہ ہی کی طرح
خانہ کعبہ پر منجنیق سے پتھر وغیرہ پھنکوائے تھے۔
امام زین العابدین اور عبدالملک بن مروان کا حج:
بادشاہ دنیا عبدالملک بن مروان اپنے عہد حکومت میں اپنے پایہ تخت سے حج کے
لئے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچا اور بادشاہ دین حضرت امام زین العابدین
بھی مدینہ سے روانہ ہو کر پہنچ گئے۔ مناسک حج کے سلسلہ میں دونوں کا ساتھ
ہوگیا، حضرت امام زین العابدین آگے آگے چل رہے تھے اور بادشاہ پیچھے چل رہا
تھا۔ عبدالملک بن مروان کو یہ بات ناگوار ہوئی اور اس نے آپ سے کہا کیا میں
نے آپ کے باپ کو قتل کیا ہے جو آپ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے، آپ نے فرمایا
کہ جس نے میرے باپ کو قتل کیا ہے اس نے اپنی دنیا و آخرت خراب کرلی ہے کیا
تو بھی یہی حوصلہ رکھتا ہے۔ اس نے کہا نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ آپ میرے پاس
آئیں تاکہ میں آپ سے کچھ مالی سلوک کروں، آپ نے ارشاد فرمایا مجھے تیرے مال
دنیا کی ضرورت نہیں ہے مجھے دینے والا خدا ہے یہ کہہ کر آپ نے اسی جگہ زمین
پر ردائے مبارک ڈال دی اور کعبہ کی طرف اشارہ کر کے کہا، میرے مالک اسے
بھردے، امام کی زبان سے الفاظ کا نکلنا تھا کہ ردائے مبارک موتیوں سے
بھرگئی ،آپ نے اسے راہ خدا میں دیدیا(دمعہ ساکبہ،جنات الخلود ص32)۔
کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔ اس میں بے شمار علوم وفنون کے
جوہر موجود ہیں۔ یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے۔ (معالم العلماءص ۱ طبع ایران)اسے
علماء اسلام نے زبور آل محمد اور انجیل اہلبیت کہا ہے (ینابیع المودة ص994
،فہرست کتب خانہ تہران ص63) اور اس کی فصاحت وبلاغت معانی کو دیکھ کر اسے
کتب سماویہ اور صحف لوحیہ وعرشیہ کا درجہ دیا گیا ہے (ریاض السالکین ص1) اس
کی چالیس شرحیں ہیں جن میں ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔
68 ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک
خلیفہ بنایا گیا یہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابر تھا اسی کے عہد
ظلمت مین عمر بن عبدالعزیز جو کہ ولید کا چچازاد بھائی تھا حجاز کا گورنر
ہوا۔ یہ بڑا منصف مزاج اور فیاض تھا، اسی کے عہد گورنری کا ایک واقعہ یہ ہے
کہ78 ھ میں سرور کائنات کے روضہ کی ایک دیوار گر گئی جب اس کی مرمت کا سوال
پیدا ہوا اور اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی
ابتداء کی جائے تو عمر بن عبدالعزیز نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
ہی کو سب پر ترجیح دی (وفاءالوفاءجلد 1 ص 683)۔
اسی نے اہل بیت ّ کو فدک واپس کیا تھا اور امیرالمومنین پر سے تبراءکی وہ
بدعت جو معاویہ نے جاری کی تھی، بند کرائی تھی۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت:
آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر فرما رہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدار
کی وجہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیدیا اور آپ بتاریخ
25 محرم الحرام95 ھ مطابق 417ءکو درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ امام محمد
باقرعلیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن
کردئیے گئے۔ علامہ شبلنجی، علامہ ابن حجر، علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط
ابن جوزی تحریر فرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ
کو زہر دے کر شہید کیا، وہ ولید بن عبدالملک خلیفہ وقت ہے ۔ ملا جامی تحریر
فرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کا ناقہ قبر پر نالہ وفریاد کرتا ہوا
تین روز میں مرگیا۔ (شواہد النبوت ص971، شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک75
سال کی تھی۔ |