توبہ کی حقیقت پارٹ ٢

توبہ کے تین درجات ہیں۔ پہلا درجہ گناہ ہو جانے کا احساس ہے سوال یہ ہے کہ یہ احساس کیسے پیدا ہو۔ اس کا واحد ذریعہ علم ہے کیونکہ جب تک آدمی کو یہ معلوم نہ ہو کہ میں نے جو کام کیا وہ غلط یا مضر تھا اسے اپنے کیے پر پشیمانی نہیں ہوگی۔ اس احساس کو پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ گناہ کے گناہ ہونے کا علم پیدا کیا جاے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ “الله کے بندوں میں جاننے والے ہی ڈ رتے ہیں“۔ اس علم کو پیدا کرنے کا طریقہ یہ یے کہ قرآن اور سنت میں غور کر کے گناہوں کے وبال اور عذاب کا استحضار پیدا کیا جائے اور ان کی تخریب کاریوں کو مراقبے کے ذریعے ذہن میں خوب اچھی طرح جمایا جائے۔ اس علم کے بعد توبہ کا دوسرا درجہ ندامت ہے ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کو کسی ناجائز فعل کے تباہ کن ہونے کا یقینی علم حاصل ہو جائے گا تو اگر اس نے ماضی میں کوئی ناجائز کام کیا ہے تو اس کو لازماً اپنے کیے پر ندامت ہوگی۔ اس کے بعد تیسرا درجہ تدارک ہے جس کے لیے دو کام کرنا ضروری ہے۔

اول آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے اور دوسرا ماضی میں جو گناہ ہوئے ہیں اگر ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کی حق تلفی کی ہے اس سے معافی مانگے اور اگر اس کا تعلق حقوق الله سے ہے تو جن گناہوں کا قضا یا کفارہ سے تدارک ممکن ہو تو انکا اسی طرح تدارک کرے اور اگر ان کا شریعت میں قضا یا کفارہ کے ذریعہ تدارک ممکن نہیں ہے تو الله سے پوری عاجزی سے استغفار کرے۔ ماخوذ از دل کی دنیا۔

اس پر فتن دور میں لوگ روحانیت سے کٹ کر مادیت کی طرف دوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے اعمال صالحہ سے غفلت اور گناہوں کی طرف رغبت بڑھتی جا رہی ہے لاکھوں افراد ایسے ہیں کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود فسق و فجور میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ گناہوں کے ترک کرنے کا اور توبہ و استغفار کا تصور بھی نہیں کرتے اس کے بعد ان کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ اب ہماری توبہ کیا ہی قبول ہوگی حالانکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسا مالک ہے کہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور تمام گناہوں کو معاف فر ما دیتا ہے۔ الله تعالیٰ کی زات سب سے زیادہ رحیم و کریم ہے وہ ارحم الراحمین ہے اس کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہوں برابر توبہ کرتے رہیں۔ ترمذی شریف ابواب الدعوات میں حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید لگائے رکھے گا میں تجھ کو بخشوں گا تیرے گناہ جتنے بھی ہوں اور میں کچھ پرواہ نہیں کرتا ہوں اے انسان اگر تیرے گناہ آسمان کے بادل تک پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور میں کچھ پرواہ نہیں کرتا ہوں اے انسان اگر تو اتنے گناہ لے کر میرے پاس آئے جس سے ساری زمین بھر جائے پھر مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنایا ہو تو میں اتنی ہی بڑی مغفرت سے تجھے نوازوں گا جس سے زمین بھر جائے۔

یہ حدیث مومن بندوں کے لیے اعلان عام ہے جو شہنشاہ حقیقی کی طرف سے نشر کیا گیا ہے مگر اس حدیث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان الله سے لمبی لمبی امیدیں باندھ لے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ “ عقلمند شخص وہ ہے جو اپنے نفس کا اتباع نہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور بے وقوف شخص وہ ہے جو اپنے نفس کا اتباع کرے اور اپنی خواہشات اور تمناؤں کو الله سے باندھ لے“۔ ترمذی شریف۔ مغفرت کی خوشخبری سن کر گناہوں پر جرات کرنا اس خیال سے کہ مرنے سے قبل توبہ کر لیں گے بہت بڑی بیوقوفی ہے کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ کب موت کا وقت آ جائے اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے۔

ظالم ابھی ہے فرصت توبہ نہ دیر کر
وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا
Noor
About the Author: Noor Read More Articles by Noor: 14 Articles with 25490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.